ریا کی مذمت کتاب و سنت میں بہت واضح الفاظ میں بکثرت بیان ہوئی ہے. اسے شرک خفی (چھوٹا یا پوشیدہ شرک) کہا گیا ہے.
ریا کیا ہے اور یہ کیسے پیدا ہوتا ہے؟ آسان الفاظ میں ریا کا مطلب نمود و نمائش اور دکھاوا کرنا ہے، انسان اپنی کسی ظاہری یا باطنی خوبی کو، لوگوں میں جاہ و منزلت حاصل کرنے کے لیے ظاہر کرے.
یعنی ریا کی جڑ قدر و منزلت کی محبت ہے.
1- یہ کبھی خود پسندی کی وجہ سے ہوتا ہے، جب انسان خود کو حد سے زیادہ پسند کرنے لگے اپنی خوبیوں پر نازاں ہو تو چاہتا ہے کہ دوسروں کو بھی علم ہو، یہ واہ واہ سمیٹنے کی بھوک ہوتی ہے اور اس کی ابتداء عموما بچپن میں ہو جاتی ہے، جب بچے میں کوئی خوبی ہو جسمانی، اخلاقی یا دینی، اور اس کے ارد گرد کے لوگ حوصلہ افزائی کے نام پر تعریف میں مبالغہ کریں یا ہر ایک کے سامنے اس کے کارنامے بیان کر کے داد و تحسین طلب کریں تو بچے کو یہ عادت ہو جاتی ہے اور دل میں لوگوں کی مزید توجہ حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے.
اس کی علامت یہ ہے کہ بچہ اپنی خوبیوں کا خود ذکر کرنے لگے، بظاہر یہ معصوم سی حرکت ہوتی ہے، لیکن بچے کی اصلاح اگر مناسب وقت پر نہ کی جائے تو یہ ریاکاری کا پودا جڑ پکڑ لیتا ہے. ایسے موقع پر ضروری ہے کہ بچے کے والدین اور قریبی لوگ اس کی سوچ اور عمل کو صحیح رخ پہ ڈالیں اسے سمجھائیں کہ مسلمان کے تمام نیک اعمال صرف اللہ کے لیے ہونے چاہییں، اور اگر انسان اپنے اعمال کا دکھاوا کرے تو وقتی طور پر شاید لوگوں کی تعریف سمیٹ لے لیکن اللہ اس کے عمل کو قبول نہیں کریں گے اور بالآخر لوگ بھی اس سے راضی نہیں ہوں گے، اور جس سے اللہ محبت کریں، اسے تمام مخلوق پسند کرتی ہے، اور اللہ اسی سے محبت کرتے ہیں جو اپنا عمل اللہ کے لیے خالص رکھتے ہیں.
بچوں کا وقتا فوقتا امتحان لیتے رہیں کہ وہ اپنی خوبیوں اور اعمال کا خود سے چرچا تو نہیں کرتے، ان کی کامیابیوں پر ان کی تعریف و حوصلہ افزائی ضرور کریں مگر ایک حد میں, انھیں اعتماد ضرور دیں مگر جہاں بچے میں خود پسندی دیکھیں، وہاں فورا غیر محسوس طریقے سے اسے اس کی خامیوں اور کمزوریوں کا احساس دلائیں تاکہ بچہ اعتدال میں رہے اور ایک متوازن شخصیت کا حامل ہو.
2- اور کبھی یہ ملامت کی تکلیف سے بچنے کے لیے ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، مثلا ایک شخص محاذ پہ اس لیے ثابت قدم رہے کہ لوگ مجھے بزدل سمجھیں گے، تو اس کا علاج یہ ہے کہ یہ سوچ پختہ کی جائے کہ لوگوں کو کبھی راضی نہیں کیا جا سکتا، اور ساری دنیا بھی نقصان پہنچانے پر اتفاق کرلے تو صرف اتنا پہنچا سکتی ہے جتنا اللہ نے تقدیر میں لکھ دیا.
3- کبھی یہ احساس کمتری کے نتیجے میں بھی ہوتا ہے، جب انسان کو محسوس ہوتا ہےکہ اس کی اتنی اہمیت نہیں جتنی دوسروں کی ہے، تو توجہ حاصل کرنے کے لیے انسان دکھاوے کا سہارا لیتا ہے.
اگر بچے میں یہ خرابی دیکھیں تو بچے کو احساس دلاتے رہیں کہ ہمارا نفع نقصان صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، اسے مخلوق سے بے نیازی سکھائیں، اسے بتائیں کہ کسی کی تعریف، ملامت یا توجہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور اپنا احتساب کرتے رہیں، اپنی نیت کو چیک کرتے رہیں کہ کہیں یہ بیماری ہمارے اندر تو نہیں.
تبصرہ لکھیے