ہوم << سیلفی سے Selfish تک - تفشل جان

سیلفی سے Selfish تک - تفشل جان

%d8%aa%d9%81%d8%b4%d9%84-%d8%ac%d8%a7%d9%86 روایات کس طرح ختم ہوتی ہیں یہ کوئی پاکستانیوں سے سیکھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں، عادتیں روایات، اور رسم و رواج بھی بدل جاتے ہیں لیکن زندہ قومیں اپنی پرانی روایات سے بھی کسی نہ کسی طرح رشتہ جوڑے رکھتی ہیں۔ معاشرتی اقدار کا زندہ رہنا قوموں کے زندہ ہونے کا ثبوت ہوتا ہے. ہمارا شمار اُن اقوام میں ہوتا ہے جو بہت جلد دوسروں کی عادات و اطوار اپنا لیتی ہیں۔ ہم نے ہمیشہ اپنے کلچر کا مذاق اُڑایا ہے اور اسے ظنزیہ طور پر دیسی کا نام دے رکھا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے اپنے ہی ملک کے ایک کالج جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا سب کو اپنی اپنی Selfie کی پڑی ہوئی ہے، کوئی کسی سے حال احوال نہیں پوچھ رہا، بس ایک سوال کیا جارہا ہے کہ میری selfie کیسی ہے۔ اس selfie کے شوق نے ہمیں selfish بنا دیا ہے جس کا ابھی ہمیں ادراک نہیں لیکن آنے والے وقت میں یہ ہمارے لیے کسی مصیبت سے کم نہیں ہوگا۔ اب تو سیلفیوں نے بہت سی جانیں بھی لیں لی ہیں۔
دُنیا کی دوڑ میں انسان کے پاس اتنا وقت نہیں بچ پاتا کہ وہ اپنے کسی رشتہ دار، دوست احباب یا عزیزوں سے ملنے کے لیے خاص طور پر جاسکے۔ فون، ای میل اور دوسری رابطے کی چیزیں کبھی بھی فیس ٹو فیس ملنے کی کمی کو دور نہیں کر پاتیں۔ جن لوگوں کے رشتہ دار باہر ممالک میں ہیں اُن کو اس چیز کا اندازہ بخوبی ہوگا کہ روز فیس بک یا فون پر رابطہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ہر وقت طبیعت ملنے کو بے چین رہتی ہے۔ لہذا موجودہ دور میں آپس میں ملنے کے لیے کسی کی شادی ہونا، یا کسی کا گزر جانا بہت ضروری ہے، کیونکہ ایسے مواقع میں تمام دوست، رشتہ دار اکٹھے ہوجاتے ہیں اور خوشی و غم کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کا حال چال بھی پوچھ لیتے ہیں۔ موجودہ دور کے بہت سے بچوں کو اپنے دور پار کے رشتہ داروں کا بھی پتا نہیں ہوتا لہذا والدین اپنے اپنے بچوں کو اپنے رشتہ داروں سے ملواتے ہیں کہ یہ میرے کزن ہیں اور آپ کے چچا لگتے ہیں، یہ فلاں لگتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
لیکن آج کل ایسا نہیں ہوتا، بچے جیسے ہی کسی فنکشن میں پہنچتے ہیں، اپنے اپنے موبائل نکال کر سیلفی (Selfie) لینا شروع کردیتے ہیں اور اس میں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی اینگل مس نہ ہو تاکہ وہ اس مواد کو فیس بک کے ساتھ ساتھ اپنے کلاس میٹس کو بھی دکھا سکیں کہ کل وہ فلاں جگہ گئے تھے، وہاں بہت مزہ آیا، ہم نے بہت سی سیلفیاں بنائیں۔ بیچارے والدین آوازیں ہی لگاتے رہ جاتے ہیں کہ بیٹا ادھر آئو، تمہیں اپنے رشتہ داروں سے ملوائوں اور بچے ہیں کہ سن کر ہی نہیں دیتے۔ آج کل تو میتوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ عیادت کے لیے گئے حضرات مریض کی طبیعت کے بارے میں بعد میں پوچھتے ہیں، پہلے ایک عدد سیلفی ٹکاتے ہیں۔
سیلفی کو زندگی سمجھا جانے لگا ہے، تمام ڈیٹا کو سوشل میڈیا یا کمپیوٹر میں تو محفوظ کر لیتے ہیں مگر اپنے دلوں میں محفوظ نہیں کرپاتے۔ آج ہمیں امریکہ اور یورپ میں بیٹھے مائیکل اور جیک کا تو پتا ہے مگر کسی لطیف بھائی یا کاشف بھائی کا نہیں پتا کہ وہ کون ہیں۔ موبائل کیمروں نے جہاں زندگی آسان بنا دی ہے وہاں دلوں سے انسانوں کی محبت کو ختم کر دیا ہے۔ پہلے کوئی حادثہ ہوجاتا تھا تو لوگ ایک دوسرے کی مدد کو بھاگتے تھے مگر آج جتنا بھی بڑا حادثہ ہو جائے لوگ ایک دوسرے کو بچانے نہیں بلکہ تصاویر بنانے آتے ہیں، اپنے اپنے موبائل نکال کر فلم اور تصویر بنا کر دوستوں کو بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ جب لوگ مر رہے تھے تو میں اُن کی مدد کرنے کے بجائے اپنے موبائل سے شغل کر رہا تھا۔ اس کی ہمارے سامنے بہت سی مثالیں موجود ہیں. یوحنا آباد کا واقعہ ہو یا سیالکوٹ میں مارے جانے والے دو بھائیوں کا، سب نے اپنی اپنی اوقات کے مطابق تصاویر اور فلمیں بنائیں، جتنے لوگ فلمیں بنا رہے تھے، اگر اُن میں سے آدھے بھی لوگوں کی مدد کرتے تو ہوسکتا ہے کسی کی جان بچ جاتی۔
ہمارا میڈیا بھی دُنیا کا سب سے انوکھا میڈیا ہے، اُس کیمرہ مین یا رپورٹر کو انعام و کرام سے نوازا جاتا ہے جو جائے حادثات میں زیادہ سے زیادہ فلم بنا سکے، لیکن جو کیمرہ مین یہ سوچے کہ یار فلم تو بعد میں بھی بن جائے گی پہلے لوگوں کی جان بچائی جائے تو ایسے لوگوں کو کمپنی فورا باہر نکال دے گی کہ چاہے پوری دُنیا ختم ہوجائے ہمیں تو ہر حال میں exlusive چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا میں بہت سا غیر انسانی مواد بھی دکھایا جا رہا ہے جس سے آنے والی نسل کی تربیت پر بہت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
تصاویر بنانا آج کل فیشن بن چکا ہے، جتنے اشتہارات کیمروں کے ہوتے ہیں اتنے کسی دوسری چیز کے نہیں ہوتے. لوگوں کے پاس کھانے کو بھلا پیسے نہ ہوں مگر موبائل کیمرے والا ہی لینا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ سیلفی لے سکیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ تصاویر نہ بنائے لیکن انسانی اقدار کا بھی خیال رکھیں۔ اپنے دوستوں، عزیزوں اور رشتہ داروں کے لیے بھی وقت نکالیں کیونکہ آپس میں ملنا محبت کو بڑھاتا ہے، اس سے ایک دوسرے کے دکھ سکھ کا پتا چلتا ہے۔ اگر ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملیں گے تو ہمیں اُن کے بارے میں آگاہی ہوگی۔ ہو سکتا ہے کسی کو ہماری ضرورت ہو لہذا سیلفی کا مطلب سیلفش ہونا نہیں ہے. آپ اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے ہی گزاریے لیکن اپنے ساتھ جڑے لوگوں کے لیے بھی وقت بچا کر رکھیے۔ یہ زندگی بہت مختصر ہے، انسان چلا جاتا ہے مگر اُس کے ساتھ بتائے ہوئے لمحے ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ معاشرتی زندگی کو کسی صورت بھی ختم نہیں ہونے دینا چاہیے، نئے نئے دوست بنائیں لیکن صرف سوشل میڈیا کی حد تک نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں بھی۔ یہ نہ ہو کہ ہمارے فیس بک فرینڈز تو ہزاروں میں ہوں مگر ہمارے جنازے کو کندھا دینے والا کوئی نہ ہو۔ بہن بھائی کی تصویر بنانے سے بہتر ہے کہ اُسے گلے سے لگائیں، دوستوں کے ساتھ وقت بتائیں، رشتہ داروں کے سکھ دکھ میں شریک ہوں۔ محلے والوں کو ملتے رہیں، اُن سے مختلف معاملات ڈسکس کریں، اسی کا نام زندگی ہے. ایک ڈبے کے سامنے بیٹھے رہنے کا نام زندگی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کو اپنے دل کے ڈبے میں بند کرنے کا نام زندگی ہے. Selfieضرور لیں مگر Selfish ہرگز نہ بنیں۔

Comments

Click here to post a comment