اس تمہید کے بعد ذرا غور فرمائیے کہ جب سے ہند و پاک کے حالات میں تازہ کشیدگی آئی ہے، دونوں طرف کے چند اہل ایمان نے اس رشتہ کی حرمتوں کا کیسا خون کیا ہے؟
سرحد اُس پار کا شکوہ بعد میں ہوگا، پہلے اِس پار کی بات کرتے ہیں۔ کشمیر کے تازہ حالات کے بعد جب سے دونوں ممالک میں کشیدگی ہوئی ہے، راقم کے ہم وطنوں میں سے متعدد نے وہ زبان استعمال کی ہے جو کسی اہل ایمان کا تو تذکرہ کیا، کسی انصاف پسند غیرمسلم کو بھی زیب نہیں دیتی، اور جس کی توقع صرف ناگپوری سوم سیوکوں سے ہی کی جاسکتی ہے۔ ان میں سے متعدد نے پاکستان کو تباہ کر دینے اور نقشے سے مٹا دینے کی بات کی۔ یہ زبان تو اس وقت توگڑیا اور یوگی بھی نہیں استعمال کر رہے۔ ایسے ہی چند افراد نے کشمیر کے مسئلہ پر جب لکھا تو محسوس ہوا کہ انہیں اس مسئلہ کی تاریخ کا کچھ علم نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ بھی اروناچل پردیش کی طرح کا کوئی مسئلہ ہے۔ کشمیر کے موجودہ حالات پر ان کی تحریریں بتاتی ہیں کہ یہ یا تو کشمیر کے موجودہ حالات سے ناواقف ہیں یا پھر ان کی اخلاقی حس جواب دے چکی ہے۔ جب ملک کی یونیورسٹیز میں کشمیر میں فوج کے رویے پر شدید تنقید ہو رہی ہو، پیلٹ گن کے استعمال پر اور سیکڑوں نوجوانوں کو نابینا کر دینے پر جب ملک میں شدید سوالات اٹھ رہے ہوں اور غیر مسلم اصحاب فکر و قلم اس سلسلےمیں ببانگ دہل بول اور لکھ رہے ہوں، آپ کو حق و انصاف کی بات کہنے کا یارا نہیں تو خاموش رہنے سے کس نے روکا ہے؟
یہ تو سرحد کے اِس پار کے کچھ احباب کا شکوہ تھا۔ اب اُس پار کی بات کیجیے۔ جب سے حالات میں تازہ کشیدگی آئی ہے، پاکستان کے بعض احباب نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ نہایت تکلیف دہ ہے۔ کشمیر کے تازہ حالات کے حوالے سے راقم نے چند روز قبل فیس بک پر کچھ تحریر کیا، جسے دونوں طرف کے اصحاب علم و فہم نے بالعموم سراہا، لائک کیا اور شیئر کیا۔ اسی پوسٹ پر میرے ایک بھائی نے کمنٹ کرتے ہوئے تحریر کیا کہ: ’’تم لوگ تھرڈ کلاس زندگی گزاررہے ہو‘‘۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ تھرڈ کلاس زندگی تو الحمدللہ نہیں ہے، ہاں کچھ چیلنجز ہیں جن کا سامنا ہے، کچھ مسائل ہیں جنہیں روز و شب برتنا ہے، لیکن اگر آپ یہ سمجھتے بھی ہیں کہ ہم مسلمانان ہند ایسی پوزیشن میں ہیں تو کیا طنز و تحقیر کا یہ رویہ آپ کو زیب دیتا ہے؟ آپ کو ہمدردی ہونی چاہیے تھی، افسوس ہونا چاہیے تھا، کچھ ہمارے درد کے مداوا کی فکر کرنی چاہیے تھی، یہ کیا کہ آپ ہماری (اپنے نزدیک) مظلومیت و مقہوریت پر خوش ہو رہے ہیں اور اس حال میں ہمیں پا کر (یا سمجھ کر) ہم پر طنز کر رہے ہیں، ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں؟ ہمارے اور آپ کے رشتۂ ایمانی کا کیا یہی تقاضا ہے؟
کاش ہمیں احساس ہوتا کہ ہم ایک امت ہیں، ہمارا باہمی رشتہ ایمانی ہے، جس کے اپنے تقاضے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اب وطن الگ الگ ہیں، لیکن کیا امت پر وطن غالب آجائے گا، یا بالفاظ دیگر کیا مٹی کی حیثیت ایمان سے زیادہ ہوجائے گی؟
احباب ہند و پاک کی خدمت میں ایک درخواست - احمد الیاس نعمانی

تبصرہ لکھیے