ہوم << ایک نوجوان باغی بننے چلا تھا لیکن؟ آفاق احمد

ایک نوجوان باغی بننے چلا تھا لیکن؟ آفاق احمد

”ماں! میری منزل آسمانوں میں ہے، میرا عزم بلند ہے، سوچیں پختہ ہیں۔“
اطہر اپنی ماں سے ترنگ میں باتیں کیے جارہا تھا۔ اطہر دو سال کا تھا جب یتیم ہوگیا، ماں نے اِس بِن باپ کے بچے کی کفالت کی اور اُس کی اچھی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اب اطہر کی عمر سترہ سال کی ہوچکی تھی، مطالعہ کا شوقین، سنجیدہ اور متانت سے بھرپور طبیعت۔ بلند ارادہ، پُر عزم، ماں کا دِل باغ باغ ہوئے جاتا تھا۔ باتیں ایسی خوبصورت اور دانشمندی کی کرتا کہ ماں حیران رہ جاتی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اطہر روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہوا۔ ماں کے ہاتھ پر اپنی پہلی کمائی رکھنے کی آرزو وہ بچپن سے دل میں بسائے بیٹھا تھا۔ ایک انٹرویو ہوا، پھر دوسرا، پھر تیسرا۔ ہر جگہ سفارش رکاوٹ بنتی رہی۔ لیکن حوصلہ بلند تھا اس لیے دلبرداشتہ نہ ہوا۔ آخرکار مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ مطالعہ وسیع تھا، تحریری امتحان میں کامیاب ہوگیا، پھر نفسیاتی ٹیسٹ میں پیش ہوا، نفسیاتی ماہرین کی ٹیم اُس کی ذہانت اور سوچ کی وسعت جانچ کر حیران رہ گئی، ساتھی Candidates بھی گہرا تاثر لیے ہوئے تھے۔ پھر انٹرویو کے مرحلے سے گزرا لیکن انٹرویوکا پینل اُس کی ذہانت و فطانت سے متاثر نہ ہوسکا اور انٹرویو میں وہ محض پاسنگ مارکس حاصل کرسکا۔ جو تحریری امتحان میں اُس سے بہت نیچے تھے، وہ انٹرویو کے نمبروں کی بدولت میرٹ لسٹ میں جگہ پا چکے تھے۔
اطہر خاموش اپنی ماں کے گھٹنے پر اپنا سر ٹِکائے بیٹھا تھا، ماں اپنی انگلیاں اُس کے بالوں میں آہستہ آہستہ پھیر رہی تھی، آج ماں کے لمس میں پیار کے ساتھ ساتھ فکر کی بھی آمیزش تھی۔
”ماں!ایک شعر سناؤں۔“ اطہر نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔
”ہاں بیٹا!ضرور سناؤ۔“ ماں پیار سے بولی۔
ہرطرف مایوسیاں، محرومیاں، ناکامیاں
زندگی سوزِ تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں
شعر پڑھتے ہی اطہر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہوگیا، ماں بھی فرطِ جذبات میں اُس کی ہمنوا ہوگئی۔ روتے روتے جب دونوں کا دل ہلکا ہوا تو ماں چائے کے انتظام میں لگ گئی اور ساتھ ساتھ آلو کے چپس تَل لیے تاکہ ماحول کی یکسانیت کو توڑا جائے۔ دن گزرتے جا رہے تھے اور اطہر کا بلند عزم ٹوٹ چکا تھا، ارادے کمزور ہوچکے تھے، وہ اپنی منزلیں آسمانوں میں دیکھتے دیکھتے کھو چکا تھا۔
”بیٹا! میری بات سُنو۔“ ایک دن ماں نے اُس کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
”جی ماں!بتائیں۔“ اطہر آہستگی سے بولا۔
”میں تمھیں ایک کہانی سُناتی ہوں، غور سے سُننا۔“ ماں ٹھہراؤ کے ساتھ بات کررہی تھیں۔
”یہ کئی سال پہلے کی بات ہے، ایک نوجوان بالکل تمھارے جیسا تھا۔ ذہین و فطین، جس موضوع پر بات کرتا، دلائل کے انبار لگا دیتا۔ تعلیم کے مراحل اعلیٰ نمبروں سے پاس کرتے ہوئے طے کیے۔ پھر نوکریاں ڈھونڈنا شروع ہوا، ہر جگہ سفارش کلچر راستے کی رکاوٹ بنا، پھر اُس نے تمھاری طرح ایک بڑے امتحان دینے کی ٹھانی۔ سب مراحل میں کامیابی ہوئی لیکن انٹرویو میں ایک ممبر سے رائے کا اختلاف ہوگیا اور اُس نے انٹرویوکے دوران ہی اُسے برملا کہہ دیا کہ تمھارا انتخاب نہیں ہوسکتا۔ وہ دلبرداشتہ ہوا، پھر اُس نے ایک جگہ سیلز مین کی نوکری کرلی، شادی بھی ہوگئی، دن مشکل سے گزر رہے تھے۔ سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ وہ ناکامی کے تصور اور حصار سے باہر ہی نہیں نکل پار ہا تھا، جذبات میں بغاوت سر اُٹھا رہی تھی، بیوی کے سمجھانے پر بھی وہ نہ سمجھ پاتا اور تمام معاشر ے کو اپنی ناکامیوں کا قصور وار گردانتا۔ پھر اُس کا رابطہ ایک جرائم پیشہ گروہ سے ہوا جس میں اُس جیسے کئی باغی تعلیم یافتہ نوجوان موجود تھے۔ چوری ڈاکے شروع ہوئے اور وہ گینگ ایک نیشنل گینگ بن گیا۔ رفتہ رفتہ اپنی ذہانت کی وجہ سے وہ گینگ کا سرغنہ بن گیا، ایسی ذہانت اور فطانت سے وارداتوں کے منصوبے بناتا کہ پولیس خاک چھانتی رہ جاتی۔ پھر ایک دن وہ پولیس کے نرغے میں آگیا، باقی ساتھی تو فرار ہوگئے لیکن وہ پولیس کی گولی سے زخمی ہوگیا۔“
اتنی کہانی سُنا کر ماں خاموش ہوگئی۔
”ماں، پھر کیا ہوا؟ جلدی بتائیں نا، تجسس ہے مجھے۔“ اطہر بے چینی سے بولا۔
”اُس کی بیوی ہسپتال گئی تو اُس نوجوان کی زندگی آخری سانسوں پر تھی۔ سُن میری بات سُن، میرے ساتھ غلط ہوا لیکن میں نے بھی غلط کیا، گندگی گندے پانی سے نہیں صاف کی جاتی۔ میں ذہین تھا، سمجھدار تھا لیکن اتنی باریک بات نہ سمجھ سکا۔ بیوی کو دیکھتے ہی انتہائی کرب سے بولا:
”تُو میرے بیٹے کو بھی یہ بات سمجھا دینا۔ اُسے سمجھانا کہ پہاڑ کی فتح کا آغاز بھی ایک چھوٹے قدم سے ہوتا ہے، بارش کا آغاز بھی ایک ننھے قطرے سے ہوتا ہے۔ میں جو نہیں سمجھ سکا، وہ اُسے ضرور سمجھا دینا تاکہ وہ قادر بخش نہ بن جائے۔ اللہ! مجھے معاف کردینا۔“
”اُس نے میرا ہاتھ چوما اور ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلیں۔“ یہ کہتے ہی ماں نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا۔
”اماں یہ کیا؟ قادر بخش؟ تیرا ہاتھ چوما؟ کیا یہ میرے باپ کی کہانی ہے؟“ اطہر ماں سے ہذیانی کیفیت میں سوال کر رہا تھا۔
”ماں! واقعی تیرا بیٹا قادر بخش بننے جا رہا تھا، ایک باغی بننے لگا تھا لیکن میرے باپ کے کہے ہوئے الفاظ نے مجھے جینے کا حوصلہ دے دیا ہے۔“
”میں سمجھ گیا ہوں کہ ناکامی بڑی کامیابی کا ہی زینہ ہے جس پر پیر رکھ کر ہی انسان آگے جاسکتا ہے اور اگر وہ اُسی ناکامی کے زینے پر کھڑا رہےگا تو وہ کبھی بھی منزل پر نہیں پہنچ سکے۔“
اطہر ماں کے آنسو پُونچھتے ہوئے یہ الفاظ کہہ رہا تھا اور ماں اپنے بیٹے کو ناکامی کے زینے سے اگلے زینے پر جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔