’’مجھے اجازت دیں تو میں ذرا اپنی یہ ٹانگ سیدھی رکھ لوں، میں اسے زیادہ دیر موڑ کر نہیں رکھ سکتا ، تکلیف ہونے لگتی ہے۔‘‘
شیر خان نے معذرت خواہانہ انداز میں تکیے پر ٹیک لگاتے ہوئے کہا، اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔
’’ہاں، ہاں کیوں نہیں، کیوں نہیں، یار تکلف کیسا، پاؤں سیدھے کرو، آرام سے لیٹ جاؤ۔‘‘سیلانی نے فورا کہا۔
’’بہت شکریہ ‘‘شیر خان نے دونوں پاؤں سیدھے کر ل یے اور سر پر سے پاکول بھی اتاردی۔
’’اس تکلیف کی وجہ سے میں مجلسوں میں بہت کم جاتا ہوں، زیادہ دیر پاؤں موڑ کر نہیں بیٹھ سکتا، درد کی ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں۔‘‘
’’کسی ڈاکٹر کو دکھائیں، لاپروائی کیوں کر رہے ہیں۔‘‘سیلانی کے مشورے پر شیر خان نے مسکراتے ہوئے بڑی عجیب بات کہی، کہنے لگا ’’سیلانی بھائی!علاج تو بہت کرایا ہے کہ حکم ربی ہے لیکن سچ یہ بھی ہے کہ یہ درد مجھے بڑا عزیز ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘سیلانی نے چونک کر پوچھا۔
’’یہ جہاد کی نشانی ہے، کشمیرمیں بھارتیوں سے جھڑپ میں یہاں پنڈلی پر برسٹ لگا تھا،گوشت تو رہا ہی نہیں تھا، ابھی بھی صرف اوپر کی ہڈی ہے۔‘‘
یہ سن کر سیلانی ہونٹ سکوڑ کر رہ گیا ’’اوہ! کہاں؟ کہاں جھڑپ ہوئی تھی یہ۔‘‘
’’بارہ مولہ میں‘‘شیر خان نے گہری سانس لی۔ اس کے چہر ے پر اب بھی تکلیف کے آثار تھے، اس نے آنکھیں موند لیں اور کچھ دیر یونہی آنکھیں بند کیے لیٹا رہا۔ سیلانی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
شیر خان کا اصل نام تو کچھ اور ہے لیکن آپ اسے شیر خان ہی سمجھیں، وہ جہاد کشمیر کا غازی اور سیلانی کے ایک قاری کا کزن ہے۔ 80 کی دہائی کے آخر میں جب تحریک حریت زوروں پر تھی، شیر خان نے کالج کی رنگین لائف چھوڑ کر کشمیر کے جنگلوں کی راہ لی کہ کشمیر آخر اس کا وطن ہے جہاں سے اس کے والدین کو بے دخل کیا گیا تھا، شیر خان کے والدین کشمیری مہاجر تھے جو بےسروسامانی کے عالم میں بمشکل جان بچا کر پاکستان آئے تھے۔
شیر خان سے ملاقات کا اہتمام ٖاحمد بھائی نے اپنے گھر پر کیا۔ انہوں نے ہی سیلانی کو شیر خان کے بارے میں بتایا اور کہا کہ ان کے کزن آج کل کراچی آئے ہوئے ہیں، وہ بھی آپ کے کالم پڑھ چکے ہیں اور ملنے کے مشتاق ہیں۔ ملنے ملانے میں سیلانی بڑا ہی کمزور ہے لیکن یہاں ملاقات غازی کشمیر سے تھی، اس سے انکار کیسے ہوتا؟ وہ احمد بھائی کے گھر وقت پر پہنچ گیا۔ احمد بھائی سے پہلی ملاقات تھی لیکن وہ اس بے تکلفی سے ملے جیسے برسوں کا یارانہ ہو۔ وہ سیلانی کا ہاتھ پکڑ کر مہمان خانے میں لے گئے جہاں شیر خان منہ پر ٹوپی رکھے غالبا سوئے ہوئے تھے۔
’’بھائی جان! سیلانی بھائی آئے ہیں۔‘‘
شیر خان ہڑبڑا کر اٹھا اور اسی محبت سے ملا جس کا اظہار احمد بھائی نے کیا تھا۔ احمد بھائی سیلانی کو شیر خان کے ساتھ بٹھا کر کھانے کا انتظام کرنے چلے گئے اور سیلانی شیر خان سے حال احوال کرنے لگا۔
سیلانی کے اصرار پر شیر خان بتانے لگا’’میں دو سال وادی میں رہا ہوں، وہاں گوریلا جنگ ہے، ہم جنگلوں، پہاڑوں میں چھپے رہتے تھے، نیچے بستیوں میں ہمارا انٹیلی جنس نیٹ ورک ہوتا تھا، وہی ہمیں اطلاعات دیتا تھا اور ان ہی اطلاعات پر ہم کارروائیاں کرتے تھے، کبھی شب خون مارتے تھے اور کبھی تو سڑکوں پر دو بدو آمنے سامنے بھارتی فوجیوں سے لڑتے۔‘‘
’’آپ نے بھارتی فوجیوں کو لڑنے میں کیسا پایا؟‘‘سیلانی نے پاک بھارت کی موجودہ کشیدہ فضا کو سامنے رکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’سیلانی بھائی! بھارت کی فوج عجیب رنگ رنگ برنگی فوج ہے لیکن میں نے ان میں لڑنے والا سرداروں اور گورکھوں کو ہی پایا، باقی سب فارمی چوزے ہیں، ہش کرو تو چوں چوں کرنے لگتے ہیں۔ آپ کو مزے کی بات بتاتا ہوں، مجھے نیند بہت آتی ہے، آپ مجھے بس پانچ منٹ دے دیں اور پھر میرے خراٹے سنیں۔ وادی میں بھی میرے ساتھی میری اس نیند سے بڑے تنگ تھے۔ کمانڈر نے تو مجھے پہرے کے لیے ان فٹ قرار دے دیا تھا، کہتا تھا شیر خان کا پہرہ لگا کر ایک ساتھی کا پہرہ اس پر بھی لگانا پڑتا ہے۔ ایک بار ساتھی مجھے اور ابوعمار کو ہائیڈ میں چھوڑ کرگئے، ابوعمار مجھے چھوٹی انگلی کا اشارہ کر کے گیا کہ تھوڑی دیر میں آتا ہوں، بس یہ مہلت میرے لیے بڑی تھی، میں نے کچھ دیر تو مسواک کی، پھر پتہ نہیں چلا کہ کب نیند آئی اور کب میں سویا۔ آنکھ کسی کی زوردار آواز پر کھلی، دیکھا تو آٹھ دس بھارتی فوجیوں نے مجھے گھیرا ہوا ہے اور مجھے گھور رہے ہیں۔ میں نے کلمہ پڑھ لیا کہ بس اب تو کہانی ختم ہوئی۔ میں کھڑا ہونے لگا تو انہوں نے بندوق کے اشارے سے مجھے بیٹھا رہنے کو کہا اور آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے، انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ایک آتنک وادی اس طرح مزے سے بےخبر کیسے سو سکتا ہے، وہ اسے مجاہدین کی کوئی چال سمجھے۔ اب حال یہ کہ ان میں سے چار کا رخ تو میرے طرف تھا اور باقی ان کی کمر سے کمر ملا کر بندوقیں تان کر جنگل میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر میرے ساتھیوں کو دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی میرے قریب نہیں آرہا تھا، آخرکار ان میں سے ایک حوالدار نے مجھے کہا کہ ہاتھ اٹھا کر ہمارے پاس آؤ۔ مجھے پتہ نہیں کیا سوجھی، میں نے کہا میں کیوں آؤں، تم آؤ اور مجھے پکڑلو۔ میرے اس جواب پر وہ کھسر پھسر کرنے لگے اور پھر عجیب بات ہوئی کہ وہ مجھےگرفتار کرنے یا مارنے کے بجائے ایک ایک قدم پیچھے ہٹنے لگے اور واپس چلے گئے۔ وہ سمجھے کہ وہ مجاہدین کے گھیرے میں آگئے ہیں اور مجاہدین نے مجھے چارہ بنا کر سامنے ڈال دیا ہے، ہوسکتا ہے یہاں مجاہدین نے بارودی سرنگیں بھی لگا رکھی ہوں کہ مجھے اکیلا دیکھ کر پکڑنے آئیں اور سورگ باشی ہو جائیں۔ آپ یقین کرو کہ وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور جب ابوعمار کو میں نے یہ بات بتائی تو اسے بھی یقین نہ آیا لیکن وہاں فوجی جوتوں کے نشان بتا رہے تھے کہ یہاں بھارتی سورما آئے تھے۔ ابوعمار نے فوراکمانڈر سے وائرلیس پر رابطہ کیا، کوڈ ورڈ میں اطلاع دی اور وہ جگہ چھوڑ دی۔ یہ بھارتی فوجی ایسے چڑی کے دل والے ہیں، یہ تب تک لڑتے ہیں جب تک ان کا افسر ساتھ کھڑا رہتا ہے، افسر ادھر ادھر ہوا تو یہ بھی غائب ہوجاتے ہیں۔‘‘
شیر خان کی کہانی تو آپ نے اس کی زبانی سنی، اب سیلانی آپ کو 1965ء میں لئے چلتا ہے۔ 1965ء میں بھارتی فوج نے اس بھرپور تیاری کے ساتھ پاکستان پر حملہ کیا کہ بھارتی جرنیل نے شالامار باغ میں چائے پینے کا اعلان بھی کر ڈالا تھا۔ اسی 65ء کی جنگ میں پاکستان آرمی کا ایک ہیلی کاپٹر لائن آف کنٹرول پر محو پرواز تھا، ایک بہادر لیفٹننٹ کرنل اس میں سوار تھا، پائلٹ نے ہیلی اتارنے کے لیے فضا میں چکر لگائے اور کیمپ پر ہیلی اتار دیا۔ یہ معمول کی بات تھی، ہیلی کا اترنا اور پرواز کرنا، اس کے لیے سائیکل چلانے جیسا ہی تھا لیکن اس روز یہ غیرمعمولی بات یہ ہوئی کہ پائلٹ نے غلطی سے ہیلی کاپٹر اپنے بجائے دشمن کے کیمپ میں اتار دیا۔ پتہ تو اس وقت چلا جب پگڑیاں باندھے سردار فوجی ہکا بکا دکھائی دیے۔ وہ حیران تھے کہ پاکستان کا ہیلی کاپٹر ان کے کیمپ میں کیا کرنے آیا ہے۔ ہیلی کے پروں کی گردش کم ہونے لگی تو ہیلی کاپٹر سے خاکی وردی پہنے لیفٹننٹ کرنل نیچے اترا اور بارعب آواز میں سکھ فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ چاروں طرف سے گھر چکے ہیں، ان کے پاس ہتھیار پھینکنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ بھارتی فوجیوں نے یہ سن کر ہاتھ اٹھا دیے اور 55 فوجیوں نے لیفٹننٹ کرنل نصیر اللہ بابر کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ یہ وہی نصیر اللہ بابر ہیں جو بعد میں جنرل ہو کر ریٹائرڈ ہوئے۔
چلیں شیر خان اور نصیر اللہ بابر مرحوم کی بات جانے دیجیے۔ آج اور ابھی کی بات کرتے ہیں تو آج کی بات یہ ہے کہ سرحدوں پر بوفورس توپیں نصب کرنے والی بھارتی فوج چغد ہے، اس کی فضائیہ نااہل ہے، بھارتی جرنیلوں کے پاس دماغ نہیں، اس کے افسر جھگڑالو ہیں اور شانوں پر اسٹار لگانے کے لیے اپنی بیگمات کو بھی سیڑھی بنانے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ کرپشن اور اسکینڈلز کا شکار ہیں۔ آپ کہیں گے کہ سیلانی بھائی کو کیا ہوگیا، کراچی میں بیٹھ کر باتیں دلی کی کر رہے ہیں۔ سو کروڑ کے دیش کی سینا کو یہاں بیٹھے بٹھائے نکما اور نااہل کہہ رہے ہیں تو یقین کیجیے کہ سیلانی بالکل برا نہیں منائے گا، بس یہ ضرور کہے گا کہ یہ سب کچھ سیلانی نہیں ’’دی اکنامسٹ‘‘ کہہ رہا ہے۔ 1843ء سے شائع ہونے والا ہفت روزہ کراچی سے شائع ہوتا ہے نہ لاہور سے، یہ برطانیہ سے شائع ہوتا ہے اور دنیا بھر کا جانا مانا میگزین ہے، اس کی خبروں پر دنیا کی پارلیمانوں میں بحث ہوتی ہے، اس کے بیان کردہ اعداد و شمار حکومتیں اپنی سالانہ رپورٹس میں شامل کرتی ہیں، یہ پالیسیوں پر اثرانداز ہونے والا نہایت معروف میگزین ہے. رواں ہفتے کے شمارے میں اس نے ”india's armed forces Guns and ghee“ کے عنوان سے اسٹوری شائع کی ہے جس میں بھارتی افواج کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کرکے رکھ دیا ہے۔
میگزین لکھتا ہے:
’’دنیا کی دوسری بڑی فوج رکھنے والا ملک اسلحے کاسب سے بڑا خریدار تو ہے لیکن طاقت کے باوجود بھارتی فوج کے پاس دماغ نہیں۔ 2014ء سے اب تک بھارت سوارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے لیکن ابھی تک بحری بیڑی تیار نہیں کرسکا، وہ بحری بیڑی جسے 15 برس قبل بھارتی فوج کے حوالے کر دینا تھا، ابھی تک نہیں کیا گیا، کہا یہ جا رہا ہے کہ اب یہ 2023ء تک ہی بھارتی ترنگے کے ساتھ بھارتی بحریہ کو دیا جائے گا۔‘‘
یہ ہفت روزہ بھارتی فضائیہ کی کارکردگی کا پول کھولتے ہوئے لکھتا ہے’’بھارتی فضائیہ کے پاس کہنے کو تو 2000 طیارے ہیں لیکن ان میں سے صرف 60 فیصد ہی اڑنے کے قابل ہیں۔‘‘ دی اکنامسٹ کہتا ہے ’’بھارتی فوج صرف کاغذوں پر ہی اچھی دکھائی دیتی ہے، اس کے جرنیل ترقیوں کے لیے قانونی جنگ لڑتے دکھائی دیتے ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے الزام تراشی تو معمول کی بات ہے، بھارتی فوج کے افسر جنسی اسکینڈلز میں ملوث ہیں اور اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طرح سے ادا نہیں کرپاتے، بھارت کی تینوں افواج کے افسران کے جنسی اسکینڈلز سامنے آچکے ہیں۔‘‘
کیرالہ میں بھارتی وزیراعظم مودی جی کی تقریر نے بھی دی اکنامسٹ کی رپورٹ کی پر مہر تصدیق کر دی۔ وہ انتہا پسند وزیراعظم جو پاکستان کو بس مٹھی میں لے کر مسلنے کو تیار تھا، وہ اپنی افواج کے جرنیلوں کی جانب سے ابھی کچھ وقت اور چاہیے کا جواب ملنے کے بعد لب و لہجہ تبدیل کر چکا ہے، اب اس نے پاک فوج سے دو بدو مقابلہ کرنے کے بجائے پاکستان کو سماجی میدان میں مقابلہ کرنے کے لیے للکارا ہے۔ کیرالہ میں اپنی پارٹی کے کنونشن سے خطاب میں مودی صاحب کہتے ہیں کہ ہم غربت، بےروزگاری اور ناخواندگی کی جنگ کے لیے تیار ہیں، پاکستان میں ہمت ہے تو آگے بڑھے اور غربت ناخواندگی و بےروزگاری کے میدان میں مقابلہ کرے، پھر دیکھتے ہیں کہ کون جیتتا ہے۔‘‘
مودی جی شاید ٹھیک ہی کہتے ہیں، یہی وہ میدان ہے جہاں ہم مقابلے کے لیے تیار نہیں کہ یہاں معاملہ سیاست دانوں کی ’’سیاہ ست‘‘ کا ہے لیکن اگر وہ سیاست دانوں کے بچوں کی اعلی تعلیم اور غیرملکی اثاثوں اور غیرملکی دوروں میں مقابلہ کرنا چاہیں تو یہاں بھی انہیں منہ کی کھانی ہوگی۔ نوازشریف سے لے کر زرداری صاحب تک، سب کے بچے لندن امریکہ کی بہترین یونیورسٹیوں کے سند یافتہ ہیں، بنک بیلنس اور جائیدادوں کی بات کریں تو مودی سرے محل کے پچھواڑے ایک کمرے کا فلیٹ ہی لے کر دکھا دیں۔ سیلانی یہ سوچتے ہوئے سامنے رکھے، روزنامہ امت میں مودی کے بدلے ہوئے لہجے کی شہ سرخی اور لیپ ٹاپ کی اسکرین پر ’’دی اکنامسٹ‘‘ کی ٹاپ اسٹوری مسکراتے ہوئے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
تبصرہ لکھیے