جنہیں عرف عام میں سید مودودی ؒ یا مولانا مودودیؒ کہا جاتاہے، اسلام کے مذہبی اخلاقی، معاشی ، معاشرتی اور سیاسی پہلوئوں پر لا تعداد تحریروں ، مضامین ، مقالہ جات اور سو سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ مولانا مودودی ؒقرآن ، حدیث ، فقہ کے ساتھ ساتھ عمرانی مسائل ، فلسفہ ، اسلامی تاریخ ، تفسیر قرآن ، معاشیات اور علم سیاسیات کے ایک بڑے عالم تھے ۔انہوںنے اپنی دل آویز شخصیت ، دل نشیں طرز انشاء اور دل کش اسلوب تحریر سے مسلمانوں کو اُن کا بھولا ہوا سبق سکھایا یا د دلایا ۔
لاکھوں مسلمانوں کو اپنی حرارت ایمانی پر مبنی تحریروں اور خطابت سے گرما دیا اور اُن کے دلوں میں حقیقی نصب العین ، حکومت الٰہیہ کے قیام اور تعمیر ، اصلاً رضائے الٰہی اور نجات اُخروی کے حصول کی تڑپ پیدا کردی ۔ مولانا مودودی ؒ ہی ہیں ،جو موجودہ زمانے میں مسلمانوں میں اسلام کے اجتماعی نظام ، تعمیر ریاست اسلامی اور اتحاد عالم اسلامی کی علامت ہیں۔ طرز تعلیم ،طرز بیان اور اسلوب تحریر کے اثرات مولانا مودودی ؒ ،اپنی خطابت ،تحریروں میں فقہی مسائل بیان کرنے کی بجائے اسلام کی مبادیات او ران کے انقلابی رخ و کردار اور انسانی زندگی کی معاشرتی ، سیاسی اور اخلاقی پہلوئوں سے تعلق رکھنے والی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نئی نسل کے فکر و ذہن کو منور کرتے ۔ جب اسلامیہ کالج میں مولانامودودی ؒ نے ستمبر 1939ء سے لیکچر ز کا سلسلہ شروع کیا (اعزازی پروفیسر ) تو شاگردوں کے الفاظ تھے کہ ’’اسلامیات کے باغ میں یک لخت بہار آگئی اور اس کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہوگیا ،
سید احمد سعید کرمانی کے الفاظ میں ایک بار کوئی طالب علم لیکچر سن لیتا، تو دوسرے پیریڈ اس پر بوجھ بن جاتے۔ دوسرے شاگردوں کا کہناتھاکہ مولانا محترم کے درس کااندازبھی نرالاتھا ، سادہ کاغذ پر چند عنوان لکھ کر لاتے تھے اور ایک ایک کی تشریح فرماتے جاتے، سوالات کے لیے صلائے عام ہوتا، بہت ہی اطمینان بخش جواب ہوتے پوری محفل بہت ہی دلچسپ ہوتی ۔ اس درس و تدریس سے نوجوانوں کو پہلی بار پتا چلاکہ اسلام بے روح مذہبیت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل اور شاندار نظام حیات ہے، جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی دیتاہے ۔ مولانا مودودی ؒ کی یہ کوششیں یقینا انقلاب انگیز کام تھا، جس نے نوجوان نسل کے ذہن ہی نہیں بدلے بلکہ اُن کی زندگی کے طور اطوار بھی بدل ڈالے۔ مولانا مودودی ؒ ہمیشہ زور استدلال سے ہندوستان کی سیاست اور قومیت کے مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے اسلام کے نظریۂ سیاست کی نشاندہی کرچکے تھے، لیکن اکتوبر 1939ء میں انہوں نے مسجد شاہ چراغ ،لاہور میں منعقد ہونے والے برادر ہڈ اجلاس میں مشہور مقالہ ’’اسلام کانظریہ سیاسی پڑھا ‘‘۔
اس مقالہ کو ہر طرف سے پذیرائی ملی اور مقبول عام ہوا ۔ اس کا چرچا خوشبو کی طرح ہر طرف پھیل گیا۔ ایم اے او کالج، امرتسر کی درخواست پر مولانا مودودی ؒ نے 26نومبر 1939ء کو ’’اسلام کانظریہ سیاسی ‘‘ مقالہ کالج کے غلام حسن ہال میں پیش کیا ، کالج کا ہال اساتذہ ، حاضر اور سابق طلبا ، دانشور اور معززین شہر سے بھرا ہواتھا ۔ اس مقالہ نے ہر ایک کو متاثر کیا اور اس کی فکر انگیزی نے ایسا ماحول کردیا کہ طویل مقالہ ہر ایک کے ذہن کو قبولیت پر آمادہ کرتا جاتا۔ ایسے محسوس ہوتا کہ دانائے راز طالب علموں اور تعلیم یافتہ حضرات کو انگلی پکڑ کر راستہ دکھاتا جارہاہے۔ یہ وہ دور تھا جب نظریۂ پاکستان روز بروز وسعت پکڑ رہاتھا اور مسلمان نوجوانوں میں ایک جداگانہ ریاست کے قیام کے ساتھ ساتھ اس کی اسلامی شناخت کی باتیں ہونے لگی تھیں۔
ایسے عالم میںمولانا مودودی ؒ کا مقالہ اسلام کانظریہ سیاسی خود مسلم لیگی حضرات کے بقول پاکستان جانے والی سیدھی راہ دکھاتاتھا۔ مولانا مودودی ؒ نے انفرادی ، اجتماعی اور اسلامی ریاست کے قیام اور استحکام کے لیے مسلسل اپنی تحریر ، فکر سے آبیاری کی،اسی وجہ سے آج بھی لبرل ، سیکولر مادرپدر آزادی ،اباہیت اور مفاد پرستی کے طوفان میں اسلامی نظریہ سیاست اور اسلامی تہذیب ومعاشرت کا چراغ ہر سو روشنی پھیلا رہاہے ،نشان منزل کو غائب نہیں ہونے دے رہا۔ فکر ، جدوجہد ،تنظیم سازی اور دعوت کی تین بنیادیں سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کے کام کو تین عنوانات میں تقسیم کیاجاسکتاہے:
۱۔اسلامی حکومت کے بنیادی نظریے اور اس کے نمایاں خدوخال کو لوگوں کے سامنے کھول کر رکھاتاکہ جس چیز کی طلب اُن کے اندر پیداہوگئی ہے، ا س کی نوعیت سے وہ خوب اچھی طرح آشنا ہوجائیں۔
۲۔تہذیب اسلامی کی مبہم سی خواہشیں جو مسلمانوں کے اندر اُبھری ہیں ،اس کے بارے میں انہیں پوری وضاحت سے بتایا جائے کہ اسلامی تہذیب کیا شے ہے ۔
۳۔مسلم قوم پرستی اور اسلام کے نام پر کام کرنے والے افکاراور تحریکوںکا تجزیہ کرکے یہ واضح کیا کہ اسلامی نظام زندگی کااحیاء اور قیام کس قسم کی تحریک کے ذریعے ہوسکتاہے.
تبصرہ لکھیے