ہوم << یونیورسٹیاں اور مدارس ناکام کیوں ہیں؟ شہیر شجاع

یونیورسٹیاں اور مدارس ناکام کیوں ہیں؟ شہیر شجاع

پاکستان میں عصری و مذہبی جامعات سے ماسٹرز ڈگری لے کر ہر سال ہزاروں طلبہ معاشرے کا حصہ بنتے ہیں۔ ہر دو کے پاس ڈگری تو موجود ہوتی ہے مگر علم؟ نابود۔ چونکہ آج کا شعور اس نہج پر تخلیق پا چکا ہے کہ عصری جامعہ کا طالبعلم ڈگری حاصل ہی اس لیے کرتا ہے کہ کوئی اچھی نوکری ملے، سو وہ سڑک کی خاک چھاننی شروع کردیتا ہے۔ مسلسل ناکامی اس کی شخصیت پر برے اثرات مرتب کرتی ہے مگر بہرحال کہیں نہ کہیں وہ اپنی ابتداء کر ہی لیتا ہے ۔ سماج میں بہر حال ہر موڑ پر اس کے لیے اسپیس موجود ہے۔ اس کی شخصیت سماج میں ایک عام آدمی کی ہوتی ہے، اس لیے اس کے اچھے برے پر کوئی خاص رد عمل نہیں سامنے آتا، چہ جائیکہ وہ سماج کے لیے مشعل راہ کی حیثیت کا حامل ہو۔
دوسری جانب دینی درسگاہ کا طالب علم جب درس نظامی کی ڈگری لے کر سماج کا حصہ بنتا ہے تو اس کے ماتھے پر مولوی کا لیبل لگ جاتا ہے۔ یہاں فرق یہ ہے کہ اس کا جو بھی دورانیہ ان درسگاہوں میں گزرا اس کا مقصد دنیا کمانا بالکل نہیں تھا۔ سو وہ جب درسگاہ سے باہر آتا ہے اور دنیا کا سامنا کرتا ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ روزی روٹی کا بندوبست تو کوئی نہیں۔ اگر وہ اپنی مقصدیت کو پاچکا ہے یعنی واقعتا علم اس میں موجود ہے تو اس کو اپنی راہ مل جاتی ہے اور ایسا شخص معاشرے کے لیے کارآمد بھی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ چند فیصد ہی ہوں گے۔ مگر اکثریت اس ماسٹرز ڈگری ہولڈر کی طرح ہوتی ہے جو ہاتھ میں ڈگری لے کر خاک چھاننے کی مشق پر نکل پڑتے ہیں۔ مولوی کے لیے یہ دہری مشقت ہوتی ہے کیونکہ سماج میں مولوی صرف دین سے جڑے کاموں کے لیے ہی منتخب ہے۔ سو وہ اپنی ڈگری کے بل بوتے پر کلرک بھی نہیں لگ سکتا۔ آخرکار سماج اسے اتنا مجبور کر دیتا ہے کہ وہ دانستہ نادانستہ ان راستوں پر نکل پڑتا ہے جو سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں۔ علم تو اس میں ہوتا نہیں مگر عالم کہلاتا ہے۔ چونکہ معاشرہ اسے نمائندہ دین تسلیم کرچکا ہے اسی لیے اس کا ہر عمل مذہب و مذہبی نمائندوں کی تقلید مانا جاتا ہے۔ اس طرح وہ پورے طبقے کی بدنامی کا سبب بنتا ہے، اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا۔ پس سماج کی اپنی تخلیق پر سماجی دانش اس رد و قدح کے ساتھ تنقید کرتی ہے جیسے خطا خالق کی نہیں مخلوق کی ہو۔ جب سماج نے خود مولوی کو ایک خطاب دے دیا اور اسے سماج میں تحلیل ہونے سے منع کردیا اور اسے مجبور کردیا کہ وہ اپنی حدود سے باہر نہ نکلے، تو اس کے پاس انہی حدود کو استعمال کرتے ہوئے اچھے برے کا اختیار رہ جاتا ہے ۔ پھر وہ اچھا کرتا ہے تو صرف نظر کیا جاتا ہے، برا کرتا ہے تو تمام کے لیے سزاوار ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ سراسر منافقت زدہ سماجی دانش ہے۔
چونکہ ریاست کے مقاصد میں نوجوان یا نئی نسل کی تربیت، ان کا شعور و بصیرت، موضوع ہی نہیں، ان کی ذہنی تربیت ہو یا فکری، ریاست کا درد سر ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری عصری جامعہ ہو یا دینی، ایک فیصد شاید کارآمد پروڈکٹ تیار ہوتی ہے، باقی سب دھول مٹی کی نذر ہوجاتا ہے۔ کوئی مذہب کو بدنام کرتا ہے تو کوئی وطن کو۔ کوئی معاشرتی برائیوں میں اپنا مستقبل تلاش کرلیتا ہے۔
کیا لگتا ہے؟ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے تمام دہشت گرد صرف ایک ہی طبقے کے متعلقین ہیں؟ ایک جانب مولوی ( جسے جاہل سمجھا جاتا ہے، حالانکہ وہ عصری جامعہ کے اپنے ہم عصر کی کئی گنا زیادہ باصلاحیت ہوتا ہے ) نے اس راہ میں پناہ ڈھونڈی تو دوسری جانب عصری جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ تھے۔ کبھی کسی مدرسے میں طلبہ نے آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہیں کیا مگر عصری جامعات میں یہ آئے دن کا معمول رہا ہے۔
رواں زندگی کے کاروبار میں ہر لمحہ احساس شدت اختیار کرتا جاتا ہے کہ ہم نہایت ہی صریح اخلاقی زوال کا شکار ہیں. کوئی تو ایسا طبقہ ہو جو اس جانب متوجہ ہو؟ جس کا موضوع نوجوانوں کی اخلاقی تربیت ہو، سماجی پہلوئوں پر نگاہ کرتے ہوئے اجزائے ترکیبی کی ترتیب کا حوصلہ ہو، مگر ایسا کچھ نہیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے اذہان کو اس قدر شدت کی جانب مائل کردیا ہے کہ وہ اب سوچنے سمجھنے اور غور و فکر و تدبر کی جستجو سے ماورا ہوچکے ہیں۔ فوری ردعمل شعار ہوچکا ہے، سو ایسے میں تدبرکی وبا کیونکر پھیلے؟ رہی سہی کسر بےجا تنقید بلکہ اسے تنقیص کہنا چاہیے، نے پوری کردی ہے۔
اگر واقعتا معاشرے پر تنقید یا اس کی تربیت آپ کا مقصود ہے تو آپ کا بیانیہ ہمہ جہت ہونا چاہیے، ورنہ آپ بھی بگاڑ کے ذمہ داروں میں شمار ہوں گے۔

Comments

Click here to post a comment