ہوم << اللہ جی نے میرے سلام کا کیا جواب دیا ہوگا؟ اختر عباس

اللہ جی نے میرے سلام کا کیا جواب دیا ہوگا؟ اختر عباس

%d8%a7%d8%ae%d8%aa%d8%b1-%d8%b9%d8%a8%d8%a7%d8%b3 اس عید پر بھی خوشیوں کے ساتھ ساتھ دکھ کم نہ ہو سکے. عوامی ایکسپریس کے حادثے میں کٹتے، بلکتے اور مرتے کتنے ہی لوگ لمحوں میں کہانی بن گئے۔ کشمیر میں نابینا ہوتے، زخموں سے کراہتے اور شام میں بےبسی سے مرتے والدین کے لاوارث بچوں کے اذیت ناک شب وروز ایک ایسا تکلیف دہ احساس ہے جو رگ و پے میں دوڑتا ضرور ہے مگر اس طرح کی بے چینی عطا نہیں کرتا جس سے ہم ذاتی طور پر دوچار ہوتے اور سیکھتے ہیں. ایک بات تو طے ہے کہ ان میں سے کوئی بھی دکھ زندگی سے بڑا نہیں ہوتا، کسی سے بھی زندگی نہیں رکتی کیونکہ اس دنیا کا مالک تو اسی طرح موجود اور برقرار ہے، زندگی جس کی دین ہے۔ دکھ کی تکلیف دہ کیفیت سے ہم ذاتی طور پر جب بھی کبھی دوچار ہوتے ہیں تو اسے چاہیں بھی تو بھلا نہیں پاتے۔ 2002ء کے جون کے ابتدائی دن تھے جب میں ایدھی کی ایمبولینس میں برف رکھوا رہا تھا، ایمبولینس چلی مگر خاموشی ہمارے درمیان یوں بیٹھی تھی جیسے اسی کا راج ہو۔ پچھلے ایک گھنٹے سے ہم میں سے کوئی ایک بھی نہیں بولا تھا۔ صرف ایمبولینس کے ہوٹر کی آواز تھی جو اندر باہر گونج رہی تھی۔ سامنے سٹریچر پر برف کے ڈالوں کے درمیان سوئے ہوئے طالب بھائی کے چہرے پر پڑا کپڑا ایک بار بھی نہیں سرکا تھا۔ ان کی پانچ، چھ اور سات سال کی تینوں بیٹیاں اس دوران ایک بار بھی نہیں روئی تھیں۔ حتیٰ کہ ان کی ماں بھی نہیں جسے اب عمر بھر بیوگی کا بوجھ اکیلے اُٹھانا تھا۔ اوکاڑہ پہنچ کر میں نے ایدھی ایمبولینس کے ڈرائیور کو ایک بیکری پر رُکنے کو کہا۔ ہوٹر بج رہا تھا، اندر میت نہ ہوتی تو یہی ہوٹر پروٹوکول کی گاڑی پر لگا ایسی ہی آوازیں نکال رہا ہوتا۔ وہاں سے جوس، بسکٹ، کباب، بند جو جو کھانے کی چیزیں تازہ بنی نظر آئیں وہ خریدنے کے بعد ایمبولینس پھر سفر پر روانہ ہوئی۔ ابھی چار گھنٹے کا سفر باقی تھا۔ ساری رات گھر میں کوئی نہیں سویا تھا۔ کھانے کا ہوش کِسے ہوتا، صبح صبح نمازِ جنازہ کے بعد ہم چشتیاں جانے کے لیے روانہ ہوگئے تھے۔
جب ساہیوال بھی گزر گیا اوربچوں نے اور اُن کی ماں نے کچھ کھا لیا تو میں نے بڑی ہمت کر کے اپنی چھوٹی بہن، جسے بیوہ ہوئے 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے اور اس کا ایک دم سے پورا مستقبل ہی تاریکی کی لپیٹ میں آ گیا تھا، پوچھنا چاہا، کہاں رہے گی؟ کیا کرے گی؟ تین بیٹیاں ہیں، کیسے پالے گی؟ بچیاں باپ کے بغیر کیسے جی پائیں گی؟ قسم کے سوالات قطار اندر قطار سرجھکائے سامنے آرہے تھے اور اپنا جواب نہ پا کر منہ بسورتے ہوئے سزا پانے والے لڑکوں کی طرح قطار میں کھڑے ہوئے جا رہے تھے۔ آخر دل کڑا کر کے پوچھا ’’طالب بھائی تم چاروں سے بہت محبت کرتے تھے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ برڈوُڈ روڈ پہ واقع سابقہ علامہ اقبال میڈیکل کالج کی بلڈنگ جہاں وہ لائبریرین تھے، کی زندگی کا محور ہی تم لوگ تھے۔ کل سے تم ایک بار بھی نہیں روئی، حتیٰ کہ تمھاری بیٹیاں بھی بس خالی آنکھوں سے اپنے باپ کو تکتی اور اس کے دوستوں کو روتے دیکھتی رہی ہیں نہ اس سے لپٹی ہیں نہ چیخیں مار کر بین ڈالے ہیں۔‘‘
سوال سخت تھا۔ خدا جانے کرنا چاہیے تھا یا نہیں مگر جسم کے اندر بیٹھا ہوا صحافی صحافت کی ٹوپی موڑ کر اُلٹی بھی پہن لے تو بھائی بعد میں ہوتا ہے۔ نوید نے پہلی بار نظر اُٹھا کر میری طرف دیکھا، ’’بھائی! رونا کیوں نہیں آئے گا، سوچ کیا کچھ نہیں دِکھا اور بتا رہی مگر ہر بار جب آنسو بےقابو ہونے لگتے ہیں، چیخیں سینہ چیر کر نکلنے کو راہ پانے والی ہوتی ہیں تو مجھے ایک بات روک لیتی ہے۔ آنحضورؐ نے فرمایا تھا ’’صبر غم کے ابتداء و آغاز میں ہے، اسی کا اللہ کے ہاں اجر ہے۔‘‘ یہی طرز ِعمل اس کو عزیز اور محبوب ہے۔ دھاڑیں مار مار کر رونے کے بعد بھی تو صبرکرنا پڑتا ہے مگر تب اس میں اللہ کی رضا شامل نہیں رہتی۔ میں جسے آنے والے ہر دن ہر لمحے بس اسی کے سہارے کی طلب ہے کہ اپنا سب سے قیمتی سرمایہ کھو بیٹھی ہوں، اس مالک کو بار بار بتاتی جارہی ہوں کہ صبر کرنا بہت مشکل ہے مگر آپ کے لیے کر رہی ہوں، آپ کے سہارے کر رہی ہوں۔‘‘میں اس سفر کو ان جملوں کو اور اس سوچ کو کبھی بھی نہیں بھول سکا۔ یہ ایسے ہی ہیں جیسے میری یاد کے پانیوں میں کسی بڑے گلیشیئر کی طرح تیرتے رہتے ہیں، آج جب نوید کی تینوں بیٹیاں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پڑھ رہی ہیں تو یقین بھی نہیں آتا کہ اتنے برس انہوں نے یتیمی کے درد اور بےیقینی ساتھ گزارے ہیں.

آپ جاننا چاہتے ہیں کہ درد کیاہوتا ہے:

ٹھیک دس سال بعد پھر ایک فون نے دل کو عجیب بے بسی، خوف، درد اور صبر سے بھر دیا تھا۔ یہ فون منصورہ سے پہلی بار آیا تو میں نے پوری توجہ سے سنا۔ میں ان دنوں اردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر کی ذمہ داریاں نبھا رہاتھا۔ فون کے الفاظ کسی تیز دھار آلے کی طرح کاٹے دیتے تھے:
’’آپ جاننا چاہتے ہیں کہ درد کیاہوتا ہے، میرا بیٹا میرے سامنے لیٹا ہے۔ ڈاکٹر اس کی زندگی کے اختتام کا اعلان ہی نہیں کر چکے، اصرار سے یقین بھی دلاتے ہیں مگر وہ زندہ ہے، سانس لیتا ہے، باتیں کرتا ہے، آرزوئیں رکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آپ سے ملنا ہے، وہ پوچھتا ہے بیماری سے کوئی بدصورت ہو جائے تو اس کے اپنے سگے عزیز و اقارب اسے ملنے اور دیکھنے سے کیوں بھاگنے لگتے ہیں۔ اس کی سگی پھوپھی تیمارداری کے لیے آئی توجاتے ہوئے کہہ کر گئی کہ اب اس کو دیکھا نہیں جاتا، دوبارہ نہیں آئوں گی.‘‘
میں نے برسوں سے اپنے آپ کو یقین دِلا دِلا کر پکا کیا ہوا ہے کہ میں ایک بہادر آدمی ہوں کیونکہ بہت پہلے میں نے جان لیا تھا کہ جو ہم نہیں ہوتے اسی کی تکرار کرتے ہیں۔ اسی کو دہراتے اور اپنے علاوہ دوسروں کو اسی کا یقین دلانے کے لیے کبھی تو اداکاری بھی کرنے بیٹھ جاتے ہیں،جو اکثر پکڑی جاتی ہے۔ اگلے ہی روز مسز ساجدہ احسان کا پھر فون آگیا۔
’’آپ ہمارے گھر آسکتے ہیں؟‘‘
میں خاموش ہو گیا، مجھے سرگودھا سے چند سال پہلے آنے والی ایک کال یاد آئی جب ایک ماں نے روتے ہوئے کہا کہ ’’ہم آپریشن تھیٹر کے دروازے پر ہیں۔ میری نو سال کی بیٹی بریرہ نے کہا ہے کہ پہلے میری بھیا جی سے بات کرائو پھر جائوں گی۔ اگلے ہی لمحے ایک کمزور سی آواز آئی۔
’’بھیا جی! آپ تو کہتے تھے کہ اللہ جی بہت اچھے اور مہربان ہیں، پھر مجھے موت سے ڈر کیوں لگتا ہے۔‘‘
تمہیں موت سے نہیں، مرنے سے ڈر لگتا ہے، شاید سبھی کو لگتا ہے۔‘‘
میں نے اسے تسلی دی۔
’’آپ کو بھی؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’میں بھی ڈرتا ہوں مگرشاید یہ واحد چیز ہے جس سے ڈر نہیں لگتا۔‘‘ بےساختہ میرے منہ سے نکلا۔
’’مگر سبھی اسی سے ڈراتے ہیں۔ اللہ سے ڈراتے ہیں۔ آپ اس سے کیوں نہیں ڈرتے۔‘‘
کوئی اور موقع ہوتا تو شاید جواب اور طرح دے جاتا۔اس لمحے ممکن نہیں رہا تھا، اسی لیے کہا:
’’بیٹے جی! جس نے دنیا میں سب سے زیادہ میرا خیال رکھا ہو، عزت دی، اچھا رزق دیا، ڈھیروں خوشیاں دیں، پل پل ساتھ رہا، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب اس کے ہاں جائوں تو میرے ساتھ اس سے سو گُنا اچھا سلوک نہ کرے۔ اس سے اچھا میزبان کوئی ہو ہی نہیں سکتا، اس نے خود کہا ہے کہ میرے بارے میں تم جیسا گمان، تصور اور یقین رکھتے ہو تو میں ویسا ہوں۔‘‘
’’بھیا جی! آپ جاتے ہوئے کوئی سوال نہیں کرو گے۔ اس مہربان رب سے، مزید زندگی نہیں مانگو گے۔ چند دن اور۔‘‘
اس نے کھلکھلا کر پوچھا تھا۔ اب اس کی آواز میں وہ کمزوری اور بے بسی نہیں تھی۔
’’تم بھی مت مانگنا۔‘‘
میں نے اپنی کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا تھا۔ ’’رب کے کچھ کاموں میں فرمائشیں نہیں ڈالنی چاہییں، بندہ مشکل میں پڑ جاتا ہے۔ بس اتنا یاد رکھنا اس پور ی دنیا میں ہی نہیں اس پوری کائنات میں اس سے اچھا اور مہربان کوئی اور ہے ہی نہیں۔‘‘
یہ روزنامہ نوائے وقت کی پرانی بلڈنگ تھی اور ان دنوں دوسرے فلور پر پھول کا آفس تھا۔ میرے سامنے بیٹھے چند مہمان حیرت سے میرا منہ دیکھ رہے تھے، میری باتیں سن رہے تھے، موت کے بارے میں ہم اس طرح بات کرنے اور سننے کے کبھی عادی ہی نہیں رہے، یہ ہمیشہ سے ایک ڈرنے اور ڈرانے والی چیز بتائی جاتی رہی ہے.

کیا اس لمحے میں واقعی بہادر ہو گیا تھا:

آپریشن تھیٹر کے دروازے پر رُکی اس پیاری سی لڑکی نے بےاختیار کہا ’’بھیا! اب میں زندگی نہیں مانگوں گی۔ آپ نے مرنا آسان کر دیا ہے۔‘‘
فون بند کر کے بھی میں کتنی دیر اس عالم میں بیٹھا رہا کہ میری آنکھیں، دل، گال سبھی آنسوئوں سے گیلے اور بھرے تھے۔ مجھے لگا اس بچی کو نہیں، آج میں نے اپنے آپ کو ایک بار پھر اپنے رب کی مہربانی سے ملوایا اور یقین دلوایا ہے۔ کیا اس لمحے میں واقعی بہادر ہو گیا تھا۔ بہادری کی اداکاری میں آنسو یوں اندر باہر سے آپ کو شرابور نہیں کرتے۔

مسز ساجدہ احسان کے بیٹے کا آدھا سر نہیں تھا:

وہ ایک ماں تھی کبھی بھی ناامید نہ ہونے والی ماں،اپنے رب سے آخری حد تک پر امید ماں، بتانے لگیں کہ چند ماہ پہلے تک وہ ایچی سن کالج میں پڑھتا تھا اور اپنے نام حیثیم علی (علی کا شیر) کی طرح وہ اتنا بےخوف اور نڈر تھا کہ پانچویں کلاس کے طالب علم بڑے بھائی حسان ابوبکر نے گھر آکر کسی بچے کے تنگ کرنے کا ذکر کیا تو حیثیم نے آگے بڑھ کر کہا تم کل مجھے ساتھ لے چلنا، دیکھ لوں گا اس کو بھی۔ ڈیڑھ سال ہونے کو آیا سکول میں ایک روز اس نے شدید سر درد کی شکایت کی، گھر لے آئے۔ وقتی علاج سے بات نہ بنی پھر ٹریٹمنٹ شروع ہوئی۔ معلوم ہوا’’یورنگ سرکوما‘‘ ہے۔ یہ کینسر کی ایک قسم ہے۔ جس سے ذکر کرتے، مشورہ ملتا شوکت خانم لے جائو۔ عام رائے یہی ہے کہ وہ مشکل مریض کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ داخل کرنا تو دور کی بات ہے، وہ اپنی ناکامیوں کی تعداد نہیں بڑھانا چاہتے ہوں گے. یہی سوچتے ایک روز وہاں لے گئے، 21 ہزار کی ایم آر آئی سے لے کر لاکھ روپے کے چھوٹے بڑے سارے ٹیسٹ کر ڈالے۔ کسی ٹیسٹ سے انکار نہیں کیا۔ ہاں علاج سے انکار کر دیا‘، داخلہ دینے سے انکار کردیا‘‘۔

شوکت خانم والوں سے یہ شکایت عام ہے:

شوکت خانم والوں سے یہ شکایت عام ہے کہ صرف ٹھیک ہونے والے مریضوں کو پکڑتے ہیں۔ بیماری کی کیفیت دیکھ کر داخلہ تو دور کی بات ٹریٹمنٹ سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔
ٹیومر مین سنسز پر تھا۔ ایک دوسرے سرجن نے کہا کہ آپریٹ کیا تو بچہ اپاہج ہو سکتا ہے۔ پھر بھی آپریشن کرا لیا۔ ٹیومر نکال دیا گیا۔ کیموتھراپی ہوتی رہی، بہت ہی تکلیف دہ انجیکشن ہوتے تھے۔ 48گھنٹے اثر رہتا تھا۔ انمول والے آپریشن نہیں کرتے، حالانکہ وہ کینسر کا ایسا بہترین ادارہ ہے کہ جہاں ایک ہی چھت تلے تینوں ڈاکٹر ہونے چاہییں، یعنی اول جس نے علاج کرنا ہے، دوم جس نے آپریٹ کرنا ہے اور سوم جس نے بعد میں ٹریٹمنٹ دینا ہے۔ نیورو سرجن تو الگ چیز ہے، وہ کینسر کا ماہر نہیں ہوتا۔ اگر آپریشن کے وقت کینسر کا ماہر ڈاکٹر بھی ساتھ ہوتا تو سارا کینسر نکالا جاتا، بعد میں پتا چلا کہ اس کی جڑیں کھوپڑی تک پھیل گئی ہیں۔ دوبارہ آپریشن ہوا تو انھوں نے پچھلا آدھا سر یوں کاٹ دیا جیسے ناریل کا اوپری حصۃ کاٹتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی امید تھی کہ چلو بیٹا بچ جائے۔
اسلام آباد ’’پمز‘‘ بھی گئے، اب احسان اللہ صاحب بتانے لگے، وہ ٹریولنگ کی دنیا کے ایک کامیاب بزنس مین ہیں۔
’’انھوں نے 25سال میں پہلا ایسا مریض دیکھا۔‘‘

ریسرچ ادارے ایسے مریضوں پر تجربے کیوں نہیں کرتے:

جس بیڈ روم میں ہم بیٹھے تھے، اسی میں ایک طرف نو سال کا بچہ پچھلے پانچ ماہ سے لیٹا ہوا ہے۔ اس کی کمر میں بیڈ سورز ہو رہے تھے۔ محبت کرنے والے باپ نے امریکہ سے الیکٹرک پمپ منگوایا۔ اس پانچ ماہ میں اس خاندان پر کیا بیتی اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ان کی آنکھیں خشک تھیں۔ البتہ سوال نمی لیے ہوئے تھے۔
’’کسی کے پیارے کو ڈاکٹر جواب دے دیں تو وہ کیا کریں۔ علاج نہیں کر سکتے تو ہسپتال والے گائیڈ تو کر سکتے ہیں۔ ریسرچ ادارے کس لیے ہوتے ہیں، وہ ایسے مریضوں پر تجربے کرکے دوسروں کے لیے خیر کیوں نہیں ڈھونڈ سکتے۔‘‘والد نے حیران کر دینے والی بات کی تھی۔
مسز ساجدہ بولیں’’ میں نے امریکا میں مقیم اپنے بھائی ڈاکٹر زاہد باجوہ سے کہا تو انھوں نے کیلی فورنیا یونیورسٹی میں اس مرض پر ہوئی تحقیق کے 16 قیمتی صفحات بھجوائے جنھیں انمول کے ڈاکٹر منیب نے دیکھے بِنا یوں اُٹھا کر پھینکا جیسے کچرا ہو۔ جب تک اس کے پاس علاج کے لیے جاتے رہے، منہ نیچے کر کے چنے کھاتا رہتا۔ لیپ ٹاپ پر دیکھتا رہتا، مجال ہے کبھی تسلی کے دو لفظ کہے ہوں یا کوئی بات کی ہو۔ پھر ایک روز بول ہی پڑا، وہ بھی پہلی بار، بولا ’’دی اینڈ۔‘‘ دوبارہ نہیں آنا۔ تب سے ہم گھر پر ہیں۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو خشک ہو چکے تھے۔ انمول کی رجسٹرار ڈاکٹر عائشہ جو ایک صاجب دل ڈاکٹر اور بیٹی ہیں، نے میرا پہلا کالم پڑھ کر فون کیا ’’ بھیا ایسے کیس میں ڈاکٹر بھی کیا کرے، والدین تو تکلیف اور توقع سے بھرے ہوتے ہیں، ہر کسی کو بےدعد اور بےحس کہہ کر ہماری محنتوں پر پانی پھیر دیتے ہیں‘‘. عائشہ ہماری پرانی ریڈر اور پھول کے ہر پروگرام کا حصہ رہی ہے، تب وہ میڈیکل کالج میں پڑھتی تھی، اس کی دلداری بھی مطلوب تھی، کہا مریضوں کو اللہ پر بھروسہ بھی سکھایا کرو، اس نے بلانا ہے تو کوئی روک نہیں سکتا، اس کا مال ہے جب جب چاہے جس عمر میں چاہے واپس بلائے گا، امانتوں کی واپسی پر شکوے اور شکایتیں تھوڑی ہوتی ہیں، بس سر جھکا دیتے ہیں. جب ڈاکٹر یہ نہ کہے اور یہ آس دلائے کہ سائنس نے بڑی ترقی کرلی ہے، علاج ہو جائے گا تو وہ اصل میں جھوٹ بول رہا ہوتا ہے. سائنس کتنی بھی ترقی کر لے موت کو نہیں روک سکی، اور نہ ہی روک سکتی ہے، اس بات کو بعض کیسز میں کھل کر بتانے میں کوئی ہرج نہیں، بعد میں دل زیادہ ٹوٹتا ہے۔ اس معاملے میں اکثر لوگ اللہ جی کو دوش دینے پر آ کر اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتے ہیں، بھلا مالک سے کون گستاخی کرتاہے، اس کی مرضی اور منشا پر اس کی مخلوق کاصرف قبول کرنا بنتا ہے، اعتراض کرنا نہیں، جیسے جہلم والے کسی کی واپسی پر پرسہ دینے جاتے ہیں تو افسوس کر کے دل نہیں دکھاتے، صرف یہ یاد دلاتے ہیں اللہ کا فیصلہ اس کی مرضی، اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے بیٹے قاسم کو آخری سانس لیتے دیکھا تو رو ہی دیے تھے، فرمایا آنکھیں محبت سے روتی ہیں دل اللہ کے فیصلے پر راضی ہے.

کوئی ساری دولت لے لے:

میں نے دل بڑا کر کے دائیں طرف لیٹے بچے کو دیکھا، اس کا سر دو فٹ سے زیادہ لمبا ہو چکا ہے۔ کھوپڑی کا پچھلا حصہ کٹنے کے بعد کینسر وہاں سے باہر نکلا اور پھر اوپر کی طرف پھیلتا چلا گیا۔ سر پر تین کلو سے زائد کا بوجھ بڑھا تو پوری آنکھ باہر نکل آئی۔ کبھی نہ بند ہونے کے لیے۔ آنکھ کے آئی بال کو جو قدرتی نمی بار بار بند ہوتی آنکھ میں ملتی ہے وہ ملنا بند ہو گئی اور آئی بال خشک ہو گیا۔ مجھے دنیا کا ارب پتی اوناسس یاد آیا جس نے اپنی دولت مندی کی وجہ سے صدر کینیڈی کی بیوہ جیکلین کینیڈی سے شادی کر لی تھی، وہ کتنے ہی بحری جہازوں کا مالک تھا، آخری عمر میں اس کی آنکھ کی پتلی خود سے حرکت نہ کرسکتی تھی، روز صبح ٹیپ سے اسے کھول دیا جا تا اور رات سونے سے پہلے ٹیپ اُتار دی جاتی تھی، ایک روز اس سے ایک اخبار نویس نے زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوچھی تو وہ رو دینے والی آواز میں بولا:
’’کوئی مجھ سے میری ساری دولت لے کر مجھے ایک دن کے لیے اپنی مرضی سے اس پتلی کو کھولنے اور بند کرنے کی خوشی دلا دے‘‘۔

اُس کا درد دیکھا نہیں جاتا:

دروازے سے ٹیک لگائے کھڑی اریج احسان (10th) اور فائقہ احسان (9th) خاموشی سے باتیں سن رہی تھیں۔ میں نے ان سے بات کرنی چاہی مگر ان سے کیا پوچھتا، کوئی سوال ہی نہیں تشکیل پا رہاتھا۔ بنا کوئی سوال ان کی طرف دیکھا۔ اریج میرا سوال پا گئی۔ بولی:
’’اس کا درد دیکھا نہیں جاتا۔ آج صبح سے اسے تکلیف تھی، ہم دونوں بہنیں اسکول نہیں جا سکیں۔‘‘
’’کیا میں اس سے بات کر سکتا ہوں۔‘‘
میرا سوال اندر تک سہما ہوا تھا۔
مسز احسان بولیں :
’’جسم مفلوج ہے۔ سر اور گردن تک کینسر پھیل چکا ہے۔ دماغ ابھی زندہ ہے، باتیں کرتا ہے، آرگو کرتا ہے۔ قرآن پاک سنتا ہے۔ ایک آنکھ سے کبھی کبھی کارٹون بھی دیکھتا ہے۔خدا جانے آپ سے بات کرنے کی اس نے کیوں خواہش اور ضد کا اظہار کیا، وہ کتنی دیر سے آپ کا منتظر ہے‘‘۔
میں نے صوفے سے اُٹھنا چاہا تو لگا پائوں من من کے ہو گئے ہیں۔ بچے نے اپنی واحد آنکھ کھول کر سلام کیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اس سے ہاتھ ملایا، اس کی واحد سلامت گال پر ہاتھ رکھا۔ میرے جسم پر ہلکی ہلکی کپکپی طاری تھی۔ خدا شاہد ہے کہ میں نے آج تک کسی ایسے معصوم اور بے بس مریض سے بات نہیں کی تھی۔ بہت سال ہوئے بوچھال کلاں کلر کہار کے شہباز مسیح کا کیس آیا تو اس کا خط عباس اطہر صاحب کو دے کر آگیا تھا۔ صبح پہلا فون شہباز شریف کے مشیر میاں منشا کا آیاتھا اور چند گھنٹے کے اندر اس بےوسیلہ بچے کے علاج کے سارے پیسے ہولی فلاور ہسپتال راولپنڈی پہنچ گئے تھے. میرے رب نے اس بچے کو صحت اور سلامتی تھی تو اہل علاقہ نے اس کی تقریب صحت مندی منائی اور میں نے پہلی بار کینسر کو اللہ کی مرضی اور منشا سے ہرانے والے بچے سے ڈرتے ڈرتے ہاتھ ملایا اور اسے صحت کی مبارک باد تھی۔ وہ بچ گیا تھا کہ اسے ڈاکٹر اکرام الحق جیسا بے لوث اور مہربان انسان پشت پناہ کے طور پر مل گیا تھا۔
ایک لمحے کو کئی منظر آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے، میں نے ہمت کے بادبانوں میں تازہ ہوا بھری اور اس بچے سے پوچھا:

’’سارا دن لیٹے کیا سوچتے ہو؟‘‘:

’’سارا دن لیٹے کیا سوچتے ہو؟‘‘:
بولا سوچتا ہوں’’ کیاجنت میں اللہ میاں مجھے سر اور پورے ہاتھ پیر ہلانے دے گا ناں! جنہیں میں نے کئی مہینوں سے ہلایا بھی نہیں۔‘‘
کچھ سوال ہی بے بسی سے بھرے ہوتے ہیں۔ ان کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ احسان صاحب میری مدد کو آئے اور بولے :
’’بچہ بیمار ہوا تو میں نے اپنے پورے کاروبار کا جائزہ لیا، اپنا جائزہ لیا۔ اپنے تعلقات کو دیکھا پھر اللہ کے آگے ہاتھ باندھ دیے۔ اس روز تو حد ہی ہوگئی جب میری سگی بہن نے کہا:
’’بھائی ناراض نہ ہونا، تمھارے گھر نہیں آسکتی۔ تمھارا بچہ دیکھا نہیں جاتا۔‘‘
کتنے ہی اور رشتے داروں نے ان پانچ ماہ میں اِدھر کا رخ نہیں کیا۔ صرف قاضی حسین احمد کی صاحبزادی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی آئیں تو دل کے زخموں پر یہ کہہ کر پھاہا رکھ گئیں’’جو آزمائش اللہ کے قریب کر دے، وہ بالآخر اجر اور اس کی مہربانی کا باعث بنتی ہے۔‘‘
بچے کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا۔ بے شک میں اندر تک سہما ہوا تھا مگر وہ مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ ایک ایسی معصوم روح جس کا کوئی بوجھ نہیں، جس پر کوئی بوجھ نہیں اور جو بظاہر ہم سب سے پہلے اپنے رب سے ملنے والا تھا۔
اس کے والد کی آواز آئی۔
’’اخترعباس صاحب! میں سرمایہ لگانے کو تیار ہوں جیسے ایدھی نے ایمبولینس سروس بنائی تھی۔ ایسے ہی کوئی ہمت کرے تو مرتے مریضوں کے لیے کوئی عالی شان ادارہ بنایا جائے جہاں وہ آخری دن سکون اور آرام سے گزاریں۔ ان پر کوئی تحقیق ہو جائے تو اور بھی اچھا ہے۔ اپنی تکلیف کی انتہا ہی دوسروں کی تکلیف کو محسوس کراتی اور خدمت کا کوئی راستہ نکالتی ہے۔‘‘
تب تو وقت نہیں تھا مگر آج ہم اس پر بات کر سکتے ہیں۔ اگر وہ اب بھی اپنے بچے کی محبت کو تازہ رکھنے کے آرزو مند ہوں تو میں انہیں بتاسکتا ہوں کہ امریکہ جیسے ملکوں میں ہوسپیٹل کے وزن پر ہی انہوں نے ایسے ادارے، ہومز بنائے ہیں جہاں مرتے مریضوں کو رکھ کر ان کی ہر خواہش کو پورا کیا جاتا ہے۔ میک اے وش بھی اسی طرح کا ایک مفید اور الگ سلسلہ ہے۔ مسز احسان کو کیا بتاتا کہ ان کے ماموں ڈاکٹر زاہد باجوہ مجھے کتنے عزیز تھے۔ علامہ اقبال میڈیکل کالج میں 80 کی دہائی کے جن برسوں میں و ہ پڑھ رہے تھے، ہم دونوں ہر شام اچھرہ میں اسلامی جمعیت طلبہ کے دفتر میں ملا کرتے تھے۔ وہ جمعیت کے سیکرٹری جنرل تھے اور میں ہمقدم کا ایڈیٹر۔ مگر یہ موقع ہی کہاں تھا بات کرنے والا۔ وہ ایک خوبصورت، خوش فکر اور قطعی غیر جماعتی انداز رکھنے والے ڈاکٹر، جس کے حلقہ دوستاں کے سبھی لوگ اس وقت جگہ جگہ دنیا کے بہترین سرجن اور ڈاکٹر ہیں اور اس بچے کے سلسلے میں وہ سب بھی اپنی اپنی بے بسی میں برابر تھے۔ اچانک مسز احسان نے کہا:
’’ماموں نہ ہوتے تو جانے یہ مشکل وقت کیسے گزرتا۔ اس کے علاج سے لے کر بے بسی کے سارے دنوں میں جب یہاں سے مارفین کا انجیکشن بھی نہیں ملتا، وہ وہاں سے بھجواتے ہیں۔ اس کے بنا درد رُکتا ہی نہ تھا اور وہ یہاں دستیاب ہی نہ ہوتا تھا‘‘۔

’’اللہ جی سے کیا کہو گے سب سے پہلے‘‘:

میں نے اپنی ہمت کے غبارے میں جتنی ہوا بھری تھی، وہ اب تیزی سے کم ہو رہی تھی، اس لیے حیثیم علی کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا:
’’آپریشن کے بعد شیشہ دیکھا تھا؟‘‘
بولا ’’اپنا آدھا سر دیکھ کر تکلیف تو بہت ہوئی مگر صرف یہی کہا تھا اللہ کی مرضی۔ میں کیا کر سکتا ہوں، اس کے بعد پھر کبھی آئینہ دیکھا ہی نہیں۔‘‘
’’اللہ جی سے جب ملو گے تو مل کر سب سے پہلے ان سے کیا کہو گے؟ ‘‘
میں نے وہ بات پوچھ لی تھی جو کوئی بھی توقع نہیں کر رہا تھا۔ اس نے تکلیف سے واحد آنکھ بند کرتے ہوئے کہا:
’’مجھے ٹھیک کر دیں پلیز، بہت درد ہوتا ہے۔‘‘میں جنت کے ان باضوں میں دوڑنا چاہتا ہوں جو مجھ جیسے بچوں کے لیے ہیں، میں اپنے بازو ہلانا چاہتا ہوں، میں اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونا چاہتا ہوں، مجھے میرے صبر کا پھل دے دے جو میں نے تکلیف کے دنوں میں کیا تھا۔
اسے اور بچیوں کو پیار دے کر جب میں گھر سے رخصت ہو رہا تھا تو غم کے آغاز پر صبر کا مفہوم ایک بار پھر سامنے کھڑا تھا۔ جو میں نے اپنی ہی بہن سے اس کے شوہر کی میت کے سامنے سیکھا تھا۔ مگر وہ سیکھنا بھی کیا معنی رکھتا ہے جب موقع آئے تو ہاتھ پائوں پھول جائیں۔ میرا بہت دل چاہا اور پھر میں نے ننھے حیثیم سے کہا
’’جب اللہ جی سے ملنا تو میرا بھی سلام کہنا۔‘‘
میں جو وقتی طور پر بہادر بنا ہوا تھا، اندر سے جانتا تھا کہ یہ کہنے کے بعد بے بسی اور بےچارگی سے میری دھاڑ اور چیخ نکل جائے گی۔ اس لیے بنا کچھ اور کہےگھر سے فوراََ باہر نکل آیا، اور گلی میں کچھ دور کھڑی اپنی گاڑی کے سٹیرنگ پر سر رکھے، اپنے رکے آنسوئوں کو بہتے دیکھتا رہا، ہمت اور صبر کے اس علم کا بھی سوچتا رہا، جو کتابوں میں ٹیک لگا کر پڑھنا کس قدر آسان ہے، ان پر بات کرنا اس سے بھی آسان، سچ کہوں تو اپنے آپ کو کمپوز ثابت کرنے میں بھی کافی محنت لگتی ہے جو میں وہاں بیٹھا مسلسل کرتا رہا تھا مگر جب آپ کے دل کو پورا یقین اور علم ہو کہ آپ کا سلام جلد ہی وہاں پہنچ جانے والا ہے تو ساری کتابیں اور باتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ خدا جانے میرے رب نے میرے سلام کا کیا جواب دیا ہوگا، مجھے تو اس کا کہا ہوا ایک ’’وعلیکم السلام‘‘ بھی بہت کفایت کرے گا جو حیثیم اس ملاقات کے چند ہفتوں بعد اپنے اس سارے درد کے ساتھ ہی لے کر رخصت ہوگیا تھا۔
(اختر عباس مصنف، افسانہ نگار اور تربیت کار ہیں، وہ نوائے وقت کے پھول، قومی ڈائجسٹ اور اردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر رہے۔ اردو میں نئی نسل کے لیے ان کی کتابیں دو لاکھ چالیس ہزار سے زائد شائع ہو چکی ہیں، ان کی پانچ منی بکس ہیومن اپیل لندن نے پانچ لاکھ کی تعداد میں شائع کر کے آزاد کشمیر کے ایک لاکھ طلبہ تک پہنچائیں، انہیں اس سال یو بی ایل ایکسی لینس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کی ایک کتاب’’ آداب زندگی کے‘‘ کی اشاعت نے بھی اسی برس پچاس ہزار کا ہدف عبور کیا. اخترعباس ممتاز تربیتی ادارے ہائی پوٹینشل آئیڈیاز کے سربراہ ہیں، ان سے ان کے فیس بک پیج اور ای میلakhterabas@ymail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے.)