ہوم << جنرل اسمبلی کا اجلاس اور پاکستان کو سفارتی محاذ پہ درپیش چیلنجز - محمد اشفاق

جنرل اسمبلی کا اجلاس اور پاکستان کو سفارتی محاذ پہ درپیش چیلنجز - محمد اشفاق

محمد اشفاق پاکستان اور وزیراعظم نواز شریف کے لیے بھارت کی بدلی ہوئی حکمت عملی کی وجہ سے سفارتی محاذ پہ چیلنجز بڑھتے چلے جا رہے ہیں.
بھارت پاکستان کے حوالے سے دو تین پہلوؤں پہ ایک ساتھ کام کر رہا ہے. ایک تو وہ کشمیر کے معاملے پر پاکستانی کی جارحانہ سفارتی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے ناراض بلوچ رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا کر بلوچستان کے مسئلے کو ہائی لائٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے. دوسرا اور زیادہ خطرناک وار ”سی پیک“ کو متنازعہ بنانا ہے. اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موجودہ سیشن میں بلوچستان کے خود ساختہ نمائندے جناب مہران مری نے سی پیک کو چیلنج کر کے بھارتی عزائم آشکار کر دیے ہیں. ان کا کہنا یہ ہے کہ بلوچی سرزمین کا چین کے حوالے کیا جانا ان کے لیے ناقابل قبول ہے اور وہ پاکستان اور چین کے خلاف عالمی عدالت تک جانے کو تیار ہیں. دوسری جانب براہمداغ بگٹی صاحب نے بھی بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ساتھ میں ملتے جلتے عزائم دہرائے ہیں. ان کے اس موقف کو عالمی سطح پہ زیادہ پذیرائی تو کبھی نہیں مل پائے گی، لیکن یہ ان کا مقصد بھی نہیں ہے. اصل مقصد چین کو سی پیک کے معاملے پر تشویش کا شکار کرنا ہے. ایک چینی تھنک ٹینک کے مطابق چین کو اندیشہ ہے کہ سکیورٹی خطرات کے سبب شاید سی پیک کی لاگت ابتدائی تخمینے سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گی، اور ہمسایہ ممالک خصوصا افغانستان کی مخالفت کی وجہ سے اس سے شاید وہ معاشی فوائد بھی نہ حاصل ہو پائیں جن کی توقع کی جا رہی تھی. چین اس کے باوجود یقینا سی پیک کو ہر صورت میں آگے بڑھانا چاہےگا مگر چینی حکومت کی تشویش پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے.
بھارت افغانستان کو اپنا ہمنوا بنا کر اکنامک کاریڈور کو مزید متنازعہ بنانا چاہتا ہے، ہماری بدقسمتی کہ افغانستان کے امور پر فیصلہ سازی کا اختیار ہم سویلین حکومت کو دینے پر تیار نہیں ہیں اور ہماری اپنی سوچ کا یہ حال ہے کہ آج چلغوزوں کی تجارت پہ پابندی لگا کر ہم اپنی وسط ایشیائی ریاستوں سے مستقبل کی اربوں ڈالر کی تجارت کو داؤ پہ لگا رہے ہیں. ہمیں یہ چیز سمجھنا ہوگی کہ سی پیک کی کامیابی کے لیے افغانستان کا کردار بہت اہم ہے اور اسے ہم نے ہر صورت ساتھ رکھنا ہے. اشرف غنی جیسے سمجھدار اور صابر لیڈر کا بھارتی کیمپ میں چلے جانا ہمارے پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے. مزید ستم یہ کہ اپنے جن اثاثوں کی خاطر ہم نے اشرف غنی کو ناراض کیا، آج وہ بھی ہم پہ اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں. افغانستان بھی اگر بھارت کی ہمنوائی میں جنرل اسمبلی میں کراس بارڈر ٹیررازم کا راگ الاپتا ہے تو ہمارے لیے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی. اور یہی وہ تیسرا پہلو ہے جس پہ بھارت کام کر رہا ہے.
اڑی میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعے کو بھارت ممکنہ حد تک اچھالےگا اور اس سے پاکستان کے کشمیر پہ موقف کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا. بھارت کی دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش ہوگی کہ کشمیر میں موجودہ شورش ایک عوامی تحریک نہیں ہے بلکہ پاکستان کے سپانسرڈ دہشت گردوں کا کیا دھرا ہے. اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے موجودہ اجلاس میں بھارتی نمائندے نے نہ صرف کشمیر بلکہ بلوچستان میں بلوچ راہنماؤں کی گرفتاری،گمشدگی اور قتل، سندھ میں اقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے اور ایم کیو ایم راہنماؤں کی گرفتاری، کے پی کے میں جاری آپریشن میں لاکھوں لوگوں کے بےگھر ہونے کے حوالے سے بھی پاکستان پہ سنگین الزامات عائد کیے ہیں. اس سے بھارت کے عزائم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے.
اس کے جواب میں ہم کیا کر رہے ہیں؟
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بیس نمائندے مختلف ممالک میں بھیجنے کا جو فیصلہ کیا وہ بھی ایک مثبت اقدام تھا. سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو وزیراعظم کا خط بھی ایک اچھا فیصلہ ہے. جنرل اسمبلی سے خطاب سے پہلے کشمیر جانا اور جناب راجہ مسعود کو اپنے ساتھ نیویارک لے کر جانا بھی اچھا سفارتی اقدام ہے جبکہ وزیراعظم سائیڈ لائن میٹنگز میں مصروف ہوں گے، راجہ صاحب او آئی سی کے کشمیر پہ ورکنگ گروپ کو بریفنگ دیں گے.
جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں پانچ چھ ایشو مرکزی اہمیت رکھتے ہیں، جن میں شام کی صورتحال، یوکرائن کا تنازعہ، شام اور یوکرائن دونوں میں سیزفائر پر عملدرآمد یقینی بنانا، مہاجرین کا مسئلہ جسے پہلی بار اتنی اہمیت ملی ہے. شام کے ایک علاقے کو سیف زون قرار دے کر وہاں لوگوں کی آبادکاری، ایران سے کیے گئے جوہری معاہدے پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ ان ایشوز میں شامل تھے. پاکستان کی بروقت اور تندوتیز سفارتی کوششوں کے نتیجے میں اب عالمی ذرائع ابلاغ ان معاملات کے ساتھ ساتھ کشمیر پر پاک بھارت کشیدگی کا بھی ذکر کر رہے ہیں، جو بلاشبہ ہماری کامیابی ہے. کئی برسوں بعد کشمیر کے معاملے کو ایک بار پھر عالمی توجہ ملنے کا امکان پیدا ہوا ہے، اسے اب ضائع نہیں ہونا چاہیے.
کل جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کا خطاب اس حوالے سے بہت اہم ہے. ان کے الفاظ کے چناؤ سے اندازہ لگایا جائے گا کہ پاکستان اس معاملے پہ کس حد تک جانے کو تیار ہے. عین ممکن ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے بھی پاکستانی وزیراعظم ایک دو وضاحتی جملے کہہ دیں، جبکہ بلوچستان کے معاملے پر بولنا اس مسئلے کو زیادہ اہمیت دینے کے مترادف ہوگا اس لیے شاید اس پر خاموشی اختیار کی جائے، یا پھر یہ بھی امکان ہے کہ اسے بھارتی مداخلت کے ثبوت کے طور پہ پیش کیا جائے.
ایک سخت اور جارحانہ تقریر وزیراعظم کی ضرورت بھی ہے. طاہرالقادری صاحب نے مسلسل وزیراعظم کو سکیورٹی تھریٹ قرار دیا ہے اور ان پہ بھارت نوازی کے سنگین الزامات لگائے ہیں، گو کہ قادری صاحب کو کوئی بھی سیریس نہیں لیتا، مگر ایک نرم تقریر مخالفین کو ان الزامات کا اعادہ کرنے پہ اکسائے گی. دوسری جانب عمران خان صاحب کی ایجی ٹیشن کے خلاف عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی اور فوج کو راضی رکھنے کے لیے بھی ایک جارحانہ اور تندوتیز تقریر کام آئے گی. اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم کراؤڈ کے لیے کھیلنا پسند کرتے ہیں یا پھر ایک ٹھوس، سنجیدہ مگر مدبرانہ موقف اپناتے ہیں.
مگر یہ چیلنجز محض جنرل اسمبلی کے اجلاس تک محدود نہیں ہیں، اب یہ طے ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی بھرپور کوشش ہوگی کہ پاکستان کو خارجی محاذ پہ دفاعی پوزیشن پہ دھکیلا جائے. نومبر میں پاکستان میں سارک سربراہ اجلاس ہونا ہے جس میں چینی صدر اور بھارتی وزیراعظم کی شرکت متوقع تھی، پاکستان کے پاس بین الاقوامی امیج بہتر بنانے، سارک کے چھوٹے ممبرز سے اپنے کشیدہ تعلقات بہتر کرنے اور سفارتی محاذ پہ چند اچھے پوائنٹ سکور کرنے کا بہترین موقع تھا مگر اب یہ اجلاس بھی منسوخ ہوتا دکھائی دے رہا ہے. ہمیں یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہی سارک جس میں کبھی بھارت اور نیپال کو چھوڑ کر سب ملک ہمارے ہم خیال ہوا کرتے تھے، آج اس میں سری لنکا کے علاوہ ہمیں اپنا کوئی اور ہمدرد کیوں نہیں ملتا. بری خبر یہ بھی ہے کہ سری لنکا کے موجودہ صدر بھی اپنی بھارت نوازی کے لیے مشہور ہیں.
ہمیں اپنے خیرخواہ بڑھانے اور ناقدین کم کرنے کی اشد ضرورت ہے. اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنا گھر سیدھا کرنے کی کوشش کریں، بلوچستان اور افغانستان کے مسئلوں پہ سویلین حکومت کو آگے بڑھ کر حالات سنبھالنے کا موقع دیں. اپنے ملک میں موجود عسکریت پسندوں کو، خواہ وہ ماضی میں ہمارے کتنے ہی لاڈلے کیوں نہ رہے ہوں، یہ موقع بالکل نہ دیں کہ وہ کشمیر میں کم سن بچوں کی قربانیوں کے نتیجے میں پنپنے والی خالصتا مقامی تحریک کو اپنے کسی بیہودہ ایڈونچر سے سبوتاژ کر سکیں. لائن آف کنٹرول پہ نگرانی کا نظام بہتر کیا جانا چاہیے، اب ہم مجاہدین درآمد یا برآمد کر کے کشمیر کاز کو فائدہ نہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے. زمانے کے انداز بدلے گئے، اب ہماری اسی کے عشرے کی پالیسیاں ہمارے کام نہیں آنے والی.
پاکستان کے لیے آنے والے ماہ و سال آسان نہیں ہیں، مگر یہ پاکستانیوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں رہی. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت اور ادارے متوقع خطرات سے پوری طرح آگاہ ہوں اور ان سے نبٹنے کا ایک واضح لائحہ عمل رکھتے ہوں.