ہوم << ایم کیو ایم پاکستان کو دیوار سے مت لگائیں-انصار عباسی

ایم کیو ایم پاکستان کو دیوار سے مت لگائیں-انصار عباسی

Ansar-Abbasi-1
فاروق ستار کی سرپرستی میں ایم کیو ایم نے الطاف حسین سے قطع تعلقی کر لی، متحدہ کے بانی کو اپنے آپ سے اور پارٹی سے علیحدہ کر لیا جس کے لیے پارٹی آئین کو بھی بدل دیا گیا ۔ انتظامیہ کی طرف سے کراچی، حیدرآباد اور سندھ بھر کے دوسرے شہروں سے الطاف حسین کی تصاویر کو اتار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے پچاس سے زیادہ دفاتر کو گرا دیا گیالیکن کوئی احتجاج ہوا نہ کوئی شکایت۔ گزشتہ عید الاضحی کے موقع پر فاروق ستار نے اعلان کیا کہ ماضی کے برعکس ایم کیو ایم قربانی کی کھالیں جمع نہیں کرے گی بلکہ کراچی و حیدرآباد کے شہریوں سے کہا کہ وہ یہ کھالیں ایدھی یا اپنی مرضی کی کسی دوسری مذہبی و فلاحی تنظیم کو دے دیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کی لندن ایم کیو ایم سے قطع تعلقی کے بعد وسیم اختر کراچی کے مئیر منتخب ہوئے۔ اپنے انتخاب کے بعد متحدہ کے دوسرے رہنمائوں کی طرح انہوں نے بھی الطاف حسین اور لندن ایم کیو ایم کی بجائے ایم کیو ایم پاکستان سے اپنے آپ کو جوڑا۔ کچھ لوگ شروع دن سے شک کر رہے ہیں کہ لندن ایم کیو ایم اور پاکستان ایم کیو ایم ایک ہی ہیں اور یہ سب کچھ الطاف حسین کی ایما پر ہی ہو رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جو کچھ فاروق ستار کہہ اور کر رہے ہیں یہ بس ایک حکمت عملی ہے تا کہ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو موجودہ مشکل سے نکالا جائے۔اس پر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ جو وہ کہہ رہے ہیں اس کے برعکس اگر کچھ ہے تو ثابت کر دیں۔ فاروق ستار نے کہا کہ قطع تعلقی کے بعد اُن کا الطاف حسین یا ایم کیو ایم لندن سے کوئی رابطہ نہیں۔ اگریہ درست نہیں، اگر یہ سب ڈرامہ بازی ہے تو حکومت کے لیے اس جھوٹ کو پکڑنا کوئی مشکل نہیں۔ ایجنسیوں کی مانیٹرنگ سے بڑی آسانی سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کیا لندن ایم کیو ایم اور پاکستان ایم کیو ایم آپس میں رابطہ میں ہیں اور کیا سب کچھ الطاف حسین کی اشارہ پر ہی ہو رہا ہے۔
بظاہرفاروق ستار اور ایم کیو ایم کے دوسرے رہنما متحدہ کو الطاف حسین کے سائے سے نکالنے کی کوشش میں ہیں تا کہ اس پارٹی کو تشدد اور دہشتگردی کے ماضی سے پاک کیا جائے۔ لیکن اس سب کے باوجود محسوس ایسا ہوتا ہے کہ فاروق ستار کی قیادت میں چلنے والی ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کی بڑی مثال سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کے گھر پولیس کا چھاپہ اور اُ ن کی گرفتاری کا واقعہ تھا۔ یہ بات اگرچہ خوش آئند ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اس گرفتاری کا فوری نوٹس لیتے ہوئے خواجہ اظہار الحسن کو رہائی دلائی۔ اس معاملے پر وزیر اعظم نواز شریف نے بھی سندھ حکومت کا ساتھ دیا۔ اس کارروائی پر متعلقہ پولیس افسر رائو انوار کو وزیر اعلیٰ سندھ نے معطل کر دیا۔ رائو انوار کا اگرچہ یہ کہنا ہے کہ یہ کارروائی اُنہوں نے خود سے کی اور اس کی وجہ خواجہ اظہار الحسن کے خلاف ماضی میں درج مقدمات تھے لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہو سکتی ہے۔ ٹی وی چینلز پر اس گرفتاری کے جو مناظر دکھائے گئے اور اس کارروائی کے لیے جس وقت اور جس شخصیت کا چنائو کیا گیا اُس کا فائدہ ماسوائے پاکستان سے غداری کے مرتکب الطاف حسین کے کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتا۔ خواجہ اظہار الحسن سندھ کی ایک اہم سیاسی شخصیت ہیں۔
اگر اُن کے خلاف کوئی مقدمات تھے تو انہیں پہلے کیوں نہ پوچھا گیا۔ رائو انوار کے مطابق خواجہ اظہار الحسن ٹارگٹ کلرز کے چیف ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو ثبوت کے ساتھ عدالت میں اظہار الحسن کو ایسا ثابت کریں۔ ورنہ پہلے یہی کچھ عامر خان کے بارے میں کہا گیا لیکن بعد میں انہیں چھوڑ دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم الطاف حسین کے زیر نگرانی دہشتگردی، بھتہ خوری، ٹارکٹ کلنگ وغیرہ جیسے جرائم میں ملوث رہی اور اس کے لیے اس پارٹی کا باقاعدہ ایک عسکری ونگ کام کر رہا تھا جس کو کچلنے میں رینجرز، پولیس اور ایجنسیوں نے بہت اہم کر دار ادا کیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کی ایک سیاسی حیثیت ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ جس نے قتل کیایا دوسرے سنگین جرائم میں ملوث رہا اُسے ضرور پکڑیں لیکن ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کیوں کہ سنگین الزامات لگا کر پکڑنا اور پھر رہا کر دینا پکڑے جانے والوں کو مظلوم بنا دیتا ہے۔ جہاں تک ایم کیو ایم کی سیاسی حیثیت کا تعلق ہے تو اسے سیاسی انداز میں ہی چیلنج کیا جانا چاہیے ورنہ ایم کیو ایم پاکستان کے تمام تر تعاون کے باوجود اگر اس کو دیوار سے لگانے والی پالیسی ختم نہ کی گئی تو الطاف حسین مافیا کراچی میں پھر سر اُٹھانے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔
حکومت، فوج، رینجرز، پولیس اور ایجنسیوں کو صر ف اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کراچی کی سیاست سے تشدد اور جرائم کو مکمل علیحدہ کیا جائے۔ ایم کیو ایم پاکستان اگر تشدد، زور زبردستی اور مار کٹائی کی سیاست کو چھوڑ کر صاف ستھری سیاست کرنے کی خواہاں ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ گذشتہ روز کراچی کے منتخب مئیر وسیم اختر نے الطاف حسین کے پاکستان مخالف بیان کو غداری قرار دیتے ہوئے فاروق ستار کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور ڈی جی رینجرز سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ بڑے ہیں کسی بات پر ناراض ہیں تو خدا کے واسطے ناراضی بھول جائیں۔
وسیم اختر آج کل 12 مئی کے کیس کے سلسلے میں جیل میں ہیں جبکہ 12 مئی کے واقعہ کے فوری بعد اسلام آباد کے ڈی چوک میں مکے لہرا کر اپنی طاقت کا اظہار کرنے والے جنرل پرویز مشرف سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جنرل مشرف نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو خوب استعمال کیا اور اس کے لیے انہیں دہشتگردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ کی کھلی چھٹی دی گئی جس کے نتیجے میں الطاف حسین مافیا کراچی میں بہت مضبوط ہو گیا۔ آج ہمارے پاس موقع ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی قیادت کو چانس دیں کہ وہ الطاف حسین کے پھیلائے گند کو صاف کرنے میں دوسروں کی مدد کریں۔ سیاسی میدان کو تمام سیاسی جماعتوں کے لیے کھلا چھوڑ دیں اور کراچی کے عوام کو فیصلہ کرنے دیں کہ وہ کس جماعت کو اپنی نمائندگی کے لیے چنتے ہیں۔