مرے گا سالا ! جماعتیوں کی بھی سمجھ نہیں آتی ، کیوں اس کو چارہ بنا رہے ہیں، اس کو کسی دوسرے علاقے میں شفٹ کیوں نہیں کرا دیتے، اب تک تین بار کنفرم اس کے لیے فیلڈنگ لگی ہوئی تھی جس کی اس کو ایڈوانس اطلاع دی۔
۔
پولیس افسر مسلسل بولے جارہا تھا اور میں اور شاہد انجم بھائی اس کی باتیں سن کر مسکرا رہے تھے۔ وہ غصے میں آتے ہوئے بولا۔
اس ڈھیٹ کو دیکھو۔ ایک دفعہ میں نے اسے فون کیا اور کہا کہ تو نے ایک گھنٹے بعد سرجانی جانا ہے۔ تو وہ حیران ہو کر پوچھنے لگا کہ مجھے کیسے پتا لگا۔ میں نے کہا کہ تیرے لیے وہاں پکٹ لگی ہوئی ہے، اور لگانے والے مختلف سیکٹرز کے لوگ ہیں۔
جانتے ہو اس کے بعد کیا ہوا؟ اس کے بعد اس نے سرجانی سیکٹر کہ ذمہ داروں کو فون کرکے کہا کہ پکٹ مضبوط لگانا، میں آرہا ہوں۔ جس کے بعد میرے مخبر نے مجھے کال کی اور بتایا کہ اس کی فون کال کے بعد وہاں سے پکٹ ہٹا لی گئی ہے۔
تم لوگ کسی کو کہتے کیوں نہیں کہ اسے سمجھائے، اسے اگر مرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو مرے، ساتھ دوسرے جماعتی بچوں کو کیوں لے کر گھومتا ہے مروانے کے لیے۔
۔
ایس ایس پی چوہدری اسلم مسلسل اپنے دل کا غبار نکالے جارہے تھے اور اپنے دوست ڈاکٹر پرویز محمود کی سکیورٹی کے حوالے سے فکرمند تھے۔ میں اور شاہد بھائی کیا کہتے اسلم بھائی سے کہ یہ سمجھ میں نہ آنے والی باتیں ہیں۔
۔
پھر جب ڈاکٹر پرویز محمود کا لاشہ ایدھی سرد خانے میں رکھا تھا تو ایس ایس پی چوہدری اسلم اور ایس ایس پی عرفان بہادر اپنے یار کے آخری دیدار کے لیے آئے۔ چوہدری اسلم نے واپس جاتے ہوئے کہا کہ میں اسے کہتا تھا کہ تو خود بھی مرے گا اور جماعتی بچوں کو بھی اپنے ساتھ مروائے گا تو یہ جواب دیتا تھا کہ میرے ساتھ کوئی جماعتی بچہ نہیں مرے گا۔ آج اس نے اپنی بات پوری کردی. پھر چوہدری اسلم نے کہا کہ جماعتیو! جو نقصان تمہیں آج ہوا ہے اس کا تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے۔
..........................................
اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی آپریشن کے اہم کرداروں یعنی پولیس افسران کو ٹھکانے لگانے کی مہم جاری تھی اور قائد تحریک کو چند ماہ بعد ایک پولیس افسر کی لاش کا تحفہ دیا جاتا تھا۔ 1992ء آپریشن کے اہم کردار پولیس افسران لاوارث اور تنہا کرکے قائد کے حواریوں کے لیے آسان ہدف بنا دیے گئے تھے۔ یہ پولیس افسران 14 اکتوبر 2003ء کو اپنے ایک ساتھی اور آپریشن کے معروف کردار انسپکٹر ذیشان کاظمی کی فیروز آباد سے ملنے والی گولیوں سے چھلنی تشدد زدہ لاش بھولے نہیں تھے کہ 13 اپریل 2004ء کو فیڈرل بی ایریا کی گودھرا سوسائٹی کی محمدی مسجد میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے دوران کراچی آپریشن کے ایک اور اہم کردار انسپکٹر توفیق زاہد کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ اور ”نامعلومے“ مجرم سب نمازیوں کے سامنے آسانی سے روانہ ہوگیا۔ (بعد ازاں جامعہ کراچی کے دو ملازمین اور متحدہ کے کارکنان ذیشان اور ریحان کو عینی شاہدین نے شناخت کرلیا تھا، مگر مشرف دور میں انھیں رہا کردیا گیا)۔
۔
کراچی آپریشن میں شامل افسران میں یہ خبر پھہنچ گئی تھی۔ اس موقع پر ایس ایس پی چوہدری اسلم نے ڈاکٹر پرویز محمود کو فون کیا اور کہا کہ ہم انسپکٹر توفیق زاہد کی لاش لینے کے لیے عباسی شہید اسپتال آرہے تھے مگر آئی جی سندھ نے ہمیں منع کردیا ہے کہ توفیق زاہد کی ڈیڈ باڈی آپ لوگ نہیں اٹھائیں گے۔ ایس ایس پی چوہدری اسلم نے ڈاکٹر پرویز محمود سے کہا کہ ہماری اطلاع کے مطابق متحدہ کے رہنما ڈیڈ باڈی دیکھنے آرہے ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ متحدہ والے انسپکٹر توفیق زاہد کی لاش کو ہاتھ نہ لگانے پائیں۔ یہ ہماری انا اور عزت کا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر پرویز محمود نے ایس ایس پی چوہدری اسلم کو یقین دہانی کرائی کہ ایسا ہی ہوگا۔
۔
ڈاکٹر پرویز محمود عباسی اسپتال پہنچے تو متحدہ رہنما آفتاب شیخ اپنے لوگوں کے ساتھ لاش دیکھنے کے لیے اسپتال آیا۔ ڈاکٹر پرویز محمود نے متحدہ رہنمائوں کو باہر ہی روکا اور کہا کہ توفیق زاہد کی تصدیق کرنے آئے ہو کہ مرگیا ہے کہ زندہ ہے۔ اس موقع پر سخت تلخ کلامی، گالم گلوچ بھی ہوئی۔
۔
بہرحال ڈاکٹر پرویز محمود اور ان کے ساتھ موجود دیگر نوجوانوں نے متحدہ رہنمائوں کو انسپکٹر توفیق زاہد کی لاش کے قریب نہ جانے دیا۔ اور لاش عباسی شہید اسپتال سے ایدھی سرد خانے منتقل کرا دی۔ جہاں کراچی آپریشن میں شامل دیگر افسران پہنچے اور انھوں نے انسپکٹر توفیق زاہد کی لاش وصول کی۔
۔
ایدھی سرد خانے پہنچنے والوں میں انسپکٹر حیدر بیگ بھی شامل تھا جو کراچی آپریشن کا ایک اور اہم کردار تھا۔ اسے پولیس کی نوکری سے برطرف کردیا گیا تھا اور وہ ٹیکسی چلانے لگ گیا تھا۔ انسپکٹر توفیق زاہد کی لاش وصول کرنے کے ٹھیک 2 ماہ بعد 16 جون 2004ء کو اسے اس کےگھر واقع سارہ اپارٹمنٹ گلشن اقبال کے سامنے گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔
ابھی کل ہی ڈاکٹر پرویز محمود کا یوم وفات گزرا ہے اور کل ہی ہم نے خواجہ اظہار الحسن کے ساتھ رونما ہونے واقعے اور اس پر مچنے والی ہاہاکار دیکھی ہے. اس کے بعد یہ چند لائنیں صفحہ قرطاس پر منتقل ہوئی ہیں. گزشتہ چار دہائیوں میں کراچی کس کرب سے گزرا ہے، اس کا کچھ اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے.
(طارق حبیب آج نیوز میں سینئر پروڈیوسر ہیں)
تبصرہ لکھیے