میں ایک ادبی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوں۔ میں جہاں معیاری ادب کی تلاش میں رہتا ہوں وہیں مجھے ادب کے اُن قارئین کی تلاش بھی رہتی ہے جو ادب کے معیاری پن کی کھوج میں رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ادب کے نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی بھی میرے بنیادی وظیفے میں شامل ہو جاتا ہے۔ میں نے اپنے تئیں نئے لکھنے والوں کی ایک کہکشاں متعارف کروائی اور ان کو بڑے لکھاریوں کے ساتھ شائع کر کے ایک ادبی ’’کُل‘‘ بنانے کی کوشش کی۔ گذشتہ ایک دو ہی سالوں سے’’ بلاگ کلچر‘‘ نے ادبی رسالوں کے مقابل ایک میڈیا کا روپ دھار لیا ہے۔ ادبی قاری ہونے کے ناطے مجھے بہت خوشی ہے کہ ہم ادب کی بہتر سے بہتر انداز میں ترویج کر رہے ہیں۔ بد قسمتی سے بلاگ کلچر خالصتاً ادبی کلچر کے بطن سے نمودار تحریک نہیں تھی، یہ تو سماجیاتی عمل کے اخباری مزاج کو اپنا موضوع بنا رہی تھی جس کی زد میں ادب بھی آ گیا یا ادب نے کُود کے اس عمل کاری میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ ادب کا حسن یہی ہے کہ وہ سماج اور معاشرت کو اکیلا نہیں چھوڑتا اور اپنے فرد کی ہر سطح پر تشفی کرتا ہے۔ ادیب جو ایک ادبی تخلیقی کارگزاری سے پہلے، باقاعدہ طور پرسماجی تحرکات سے گزرتا ہے اس لیے سماجی عمل سے دور نہیں رہ سکتا۔
میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ادب کے ساتھ ساتھ سماجی تحرکات میں بھی حصہ لینا چاہیے تا کہ ادبی عمل کو سماج کے آئینے میں سمجھنے کی عادت پیدا ہو سکے۔ جب بلاگ کلچر کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تو یہاں ہم ادیب لوگ بالکل اجنبی تھے۔ (ادبی میلہ کراچی میں ویب سائٹ یا بلاگ کلچر پر ایک مذاکرہ بھی کروایا گیا جس پر آصف فرخی صاحب سے ہلکی سی گفتگو بھی ہوئی) بلاگ کلچر پر صحافیانہ کلچر حاوی تھا، جس میں ادب، تاریخ، سماجیات اور تہذیب کے مباحث نہ ہونے کے برابر تھے۔ لہٰذا مجھے سب سے پہلے حوصلہ شکن پیغام یہ ملا کہ آپ کسی بھی ویب سائٹ بلاگ کے لیے لکھنے کے قابل نہیں۔ یہ میرے لیے انکشاف سے کم نہ تھا۔ اور یہ پیغام مجھے اُس صحافی نے دیا جو خود کو ایک ادیب گنوانے میں ایڑی چوڑی کا زور لگا رہا ہے۔
ایک معروف ویب سائٹ جس پر ایک مخصوص گروپ کی نظریاتی چھاپ واضح طور پر نظر آرہی ہے، نے مجھے ٹھینگا دکھایا تو میں نے اپنے آپ کو دوبارہ سے دیکھنا شروع کیا بلکہ خود کو ازسرنَو ترتیب دیا۔ جیسے سانپ والی لڈو میں اٹھانوے پر ایک دم آپ چار پہ پہنچ جائیں۔ میرے لیے یہ توہین آمیز دھچکا بہت سے معیارات اور نظریات کو جمع کرنے کا باعث بنا۔ میں کئی عرصے تک یہ سوچتا رہا کہ ادب کی تنہائی (Isolation) کا مجھ جیسا ایک حقیر سا کردار جس طرح کے توہین آمیزعملِ رد (Rejection) سے گزرا ہے، سماج کا ایسا طبقہ جو ادب و فنون سے مکمل بے بہرہ ہے، وہ تہذیبی عمل کے اس گراں تخلیقی کام کو کس قدر بےکار اور فضول تصور کرتا ہوگا.
سو میں نے اس صحافیانہ کلچر میں ادبی عمل کاری کا بیڑہ اُٹھایا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ مجھے میرے کولیگ یاسر چٹھہ اور فیاض ندیم نے جس طرح خوش آمدید کہا بلکہ مجھے بہت کچھ سکھایا، وہ میری زندگی کی ایک انوکھی مثال ہے۔
میں سوال یہ اٹھانا چاہ رہا ہوں کہ ادبی اور صحافیانہ عمل میں اتنا بُعد کیوں آ گیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی کام اور معیار کو بھی سمجھنے سے قاصر ہو گئے ہیں۔ یقین مانیے ہمارے ادبیوں کو بالکل بھی سماجیاتی عمل میں مصروف دانش ورانہ (صحافیانہ نہیں) کارگزاریوں کا علم نہیں اور اسی طرح بےچارے صحافیوں کو عام تو کیا بڑے بڑے ادیبوں کے کاموں کا علم نہیں۔ میں ’’جاننے‘‘ پر زور اس لیے دے رہا ہوں کیوں کہ تبھی ہم ایک دوسرے سے سماج کی نظریاتی گرہ کشائیوں کی مدد لے سکتے ہیں ورنہ ہم تو خلا میں معلق رہیں گے۔
ایک وقت تھا جب وزیر آغا، احمد ندیم قاسمی اور فیض جیسے ادبا باقاعدہ سماجیات کی تشکیل کر رہے تھے اور عملی طور پر پہلے ادیب تھے۔ کیا آپ کو یاد نہیں رہا کہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ جو آج کے ڈان جیسا اخبار تھا، فیض اُس کی ادارت کرتے تھے اور ’’امروز‘‘ کی ادارت احمد ندیم قاسمی کرتے تھے۔ وزیر آغا، ظہیر کاشمیری، سجاد ظہیر، ممتاز شیریں، حسن عسکری، جمیل جالبی وغیرہ پاکستانی شناخت کی بحثیں بنا رہے تھے۔
آج کا صحافی اتنا نابلد ہے کہ اُسے چند مشہور ادیبوں کے صرف ناموں کے علاوہ ادب کا کچھ نہیں پتا اور دوسری طرف ادبا سماجیات کے عمل سے اتنے کورے کہ سماج کے کسی بھی مسئلے یا کرائسس پہ بات کرنا ایک فضول اور غیر ضروری عمل قرار دیتے آ رہے ہیں۔
مشہور ویب سائٹ کے ’’بانی حضرت‘‘ کبھی کبھار ادبی بننے کی کوشش کرتے بھی ہیں مگر اُن کے ’’گروہی‘‘ سیاسی انداز سے مکالمہ مشکل ہو رہا ہے۔ چند مخصوص قسم کے نظریات سے مکالمے کھلنے والا نہیں بلکہ باقاعدہ نظریہ سازی کی ضرورت ہے۔ ادبی جمالیات و فنون کی’’ گھٹی‘‘ انھوں نے لینی نہیں اور گروہ بازی بھی انھوں نے چھوڑنی نہیں۔ اُن کے لکھاریوں پہ بعض اوقات ہنسی آتی ہے، اُن کا رویہ بالکل ’’مریدانہ‘‘ سا ہو گیا ہے۔ بس درخواست اتنی سی ہے کہ سماجیات عمل اُس وقت نامکمل سا ہے جب تک ادب و تہذیب کے عملِ مراقبہ سے نہ گزرا جائے ورنہ صرف خبریں رہ جائیں گی۔ خدا کے لیے خبروں سے باہر آئیں اور سماج کے مجموعی تہذیبی علم سے مکالمہ کیجیے۔
(قاسم یعقوب اسلام آباد ماڈل کالج فار بوائز کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
تبصرہ لکھیے