علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے:
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں
سفر لمبا ہو اور ریزرویشن نہ ہو تو ٹرین میں داخل ہوتے ہی پہلی فکر ہوتی ہے کہ کسی طرح بیٹھنے کے لیے جگہ ملے. جگہ ملنے کے بعد دوسری کوشش یہ ہوتی ہے کہ جگہ تھوڑی کشادہ ہو تاکہ سکون سے بیٹھا جاسکے. وہ بھی میسر آجائے تو خواہش ہوتی ہے کہ کہیں ونڈو سیٹ خالی ملے. چلیے وہ بھی مل گئی اور اب دل کی چاہت یہ ہے کہ آرام کے لیے جگہ بن جائے. یہ حرص و ہوس کا گراف کسی طرح قناعت پر مائل نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر وقت نعرہ ”ہل من مزید“ بلند کرتا ہے.
یہی بات راقم کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایس ایس ہال میں محترم پروفیسر فراہیم صاحب نے دوسال قبل سمجھائی تھی. ان کی بات کو حافظہ کے اعتماد پر اپنے الفاظ میں نقل کرنے لگاہوں.
”انسان جب حاجات و ضروریات (Needs & Necessities) کی حد کو پھلانگتا ہے تو آرام وآسائش (Comforts & delights) کے علاقہ میں قدم رکھتا ہے. اسلام میں بنیادی ضروریات کی تکمیل کا درجہ فرض کا ہے جبکہ آرام وآسائش ناپسندیدہ ہے مگر قابل مواخذہ نہیں. جب آرام و آسائش پر بھی قانع نہیں ہوتا ہے تو تیسری منزل اسراف اور بہتات (Extravagance & excess) کی آتی ہے اور انسان حرام کاموں میں منہمک ہونے لگتا ہے. اب بھی اسے اگر رجوع کی توفیق نہ ہوئی تو وہ فاطر اور فطرت سے بغاوت کی اس منزل تک جا پہنچتا ہے جسے شہوات و لذات (Carnal desires & lust) کہتے ہیں. اب اسے دین کی ہر بات سے چڑ ہونے لگتی ہے. حرام در حرام کا مرتکب ہونے لگتاہے. اس کی پستی کی حد جانوروں تک کو شرمانے لگتی ہے. بالآخر وہ مرتد و ملحد ہو کر اسلام کے خلاف کمربستہ ہوجاتا ہے.
"
یہ ہے حرص و ہوس کا وہ سفر جو دارین کے نقصان اور خسران کا سبب بن جاتا ہے. اسی لیے کہتے ہیں کہ ہم وقتا فوقتا اپنے آپ کا محاسبہ کرتے رہیں. روح جبریل کی آمیزش والے عشق کی عدالت میں گاہے گاہے حاضری دیتے رہا کریں، محض عقل پر بهروسہ نہ کریں، اس لیے کہ دنیا کی بڑی بڑی حماقتوں کے پیچھے اسی عقل کا ہاتھ ہے. عقل کا شجر بے ثمر ہے.
دین سے چڑ کیوں ہوتی ہے؟ قاضی عبدالرحمان

تبصرہ لکھیے