فقہائے کرام آیات نہیں الفاظ کی دلالت کی بات کرتے ہیں اور قطعیت یا ظنیت کے لحاظ سے لفظ کو آٹھ قسموں میں تقسیم کرتے ہیں: محکم، مفسر، نص، ظاہر، خفی، مشکل، مجمل، متشابہ۔ ایک جانب مکمل قطعیت اور دوسری جانب مکمل ابہام؛ جبکہ درمیان میں قطعیت و ظنیت کے چھ مدارج یا شیڈز۔ جب ہر لفظ کو صرف دو قسموں – قطعی الدلالہ اور ظنی الدلالہ – میں تقسیم کیا جاتا ہے تو دنیا بلیک اینڈ وائٹ ہوجاتی ہے اور باقی رنگوں کی نفی ہوتی ہے۔ پھر جب یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ قرآن تنہا مکمل طور پر قطعی الدلالہ ہے تو اس سے وہ شدید قسم کا علمی تکبر جنم لیتا ہے جس کے سامنے صدیوں کی علمی روایت ناقابلِ قبول ٹھہرتی ہے کیوں کہ وہ ”خلافِ قرآن“ قرارپاتی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ لفظ جب جملے کا حصہ بنتا ہے تو اس کی ظنیت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ سیاق و سباق، سائل کے متعلق علم، تاریخی پس منظر، دیگر آیات و احادیث اور اسی طرح کے اور قرائن سے ظنیت کم ہوتی جاتی اور قطعیت بڑھتی جاتی ہے اور بالآخر ظنیت ختم اور قطعیت ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ پراسس ہوتا ہے اور اتنا سادہ نہیں ہوتا کہ لفظ کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے اور باقی سارے قرائن ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ جنھیں ثانوی حیثیت دی جاتی ہے، درحقیقت انھی کے ذریعے تو لفظ کا مطلب متعین ہوتا ہے۔
ثلٰثۃ قروء کو ہی لے لیجیے۔ ثلاثۃ کو فقہائے کرام ”خاص“ (Specific) قرار دیتے ہیں اور مانتے ہیں کہ یہ قطعی الدلالہ ہے؛ اس کے معنی تین ہیں؛ نہ دو ، نہ چار، نہ ساڑھے تین۔ لفظ قرء البتہ فی الاصل ظنی الدلالہ ہے کیوں کہ لغت میں اس کا اطلاق حیض پر بھی ہوتا ہے اور قرء پر بھی۔ اسے اصطلاحاً مشترک (Equivocal) کہا جاتا ہے۔ تحقیق کے بعد کسی ایک مفہوم کا راجح ہونا معلوم ہوجائے تو اسے ”موول“ اور اس کوشش کو تاویل کہتے ہیں۔ یہاں دوسرے کسی احتمال کی نفی نہیں ہوتی لیکن اس میں کم زوری معلوم ہوتی ہے۔ جب ایک احتمال قطعی طور پر ثابت ہوجائے تو اسے ”مفسر“ اور اس کوشش کو تفسیر کہتے ہیں۔ موول ظنی ہوتا ہے، یعنی ظن غالب اس کے حق میں ہوتا ہے؛ مفسر قطعی ہوتا ہے، یعنی یہ مفہوم یقینی ہوتا ہے۔ گویا مفسر ہوجانے کی صورت میں equivocal لفظ unequivocal ہوجاتا ہے۔
یہ تفسیر ایک ہی نص کے کسی اور لفظ سے بھی ہوسکتی ہے اور اس صورت میں اسے مفسر بنفسہ کہا جاتا ہے جیسے قرآن میں ہے: عین جاریۃ۔ یہاں عین، جو مشترک تھا، جاریۃ کی وجہ سے مفسر ہوا۔ کبھی یہ تفسیر کسی دوسری نص، جیسے حدیث، سے بھی ہوتی ہے اور اس صورت میں اسے مفسر بغیرہ کہتے ہیں۔ جیسے "الربوٰ" کا مفہوم احادیثِ ربا نے یا ”الصلوٰۃ“ کا مفہوم احادیثِ نماز نے واضح کردیا ہے۔
فقہائے کرام مانتے ہیں کہ بعض الفاظ کا ابہام دور کرنے، یا کئی معانی میں کسی ایک کے تعین کے لیے لغوی تحقیق کافی ہوتی ہے ۔ یہ اس وقت جب لفظ خفی یا مشکل کی سطح کا ہو۔ البتہ وہ کہتے ہیں کہ لفظ جب مجمل کی سطح کا ہو تو اس کے مفہوم کے تعین کے لیے لغت کی طرف نہیں بلکہ شارع کی طرف جایا جائےگا۔ اسی لیے الربوٰ، الصلوٰۃ ، الزکوٰۃ اور اس طرح کی دیگر اصطلاحات کا مفہوم وہ لغت کے بجائے حدیث سے متعین کرتے ہیں۔
پس مسئلہ کی صحیح نوعیت یہ نہیں ہے کہ قرآن کی ساری آیات قطعی الدلالہ ہیں یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا پورے قرآن کی دلالت تنہا قرآن سے قطعی طور پر معلوم کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
مثال کے طور پر تمام فقہائے کرام مانتے ہیں کہ ابتدا میں وصیت فرض تھی کیوں کہ آیتِ وصیت میں ”کتب علیکم“ کے الفاظ ہیں جن سے فرضیت ہی ثابت ہوتی ہے ۔ البتہ بعد میں جب وراثت کی آیات آئیں تو ورثا کے حق میں وصیت ناجائز قرار پائی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر احادیث کو نظرانداز کیا جائے تو کیا آیات مواریث نے کوئی ایسی تصریح کی ہے کہ اب ورثا کے حق میں وصیت ناجائز ہوئی؟ فحوائےکلام اور دیگر قرائن کی بات الگ ہے۔ کہنے والا تو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ آیات مواریث نے وصیت کو تحفظ فراہم کیا ہے کیوں کہ ان میں بار بار تصریح کی گئی ہے کہ یہ حصص وصیت کے بعد کے ہیں۔ تاہم تمام فقہائے کرام مانتے ہیں کہ کسی وارث کے حق میں کی گئی وصیت ناجائز ہے (البتہ دیگر ورثا اس کی اجازت دیں تو حنفی فقہائے کرام کے نزدیک پھر اس کا نفاذ جائز ہوتا ہے)۔ فقہائے کرام کے اس موقف کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرار دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لیے کسی وارث کے حق میں وصیت نہ کی جائے۔
یہاں یہ بحث بھی کی جاتی ہے کہ کیا آیت ِوصیت کو آیاتِ مواریث نے منسوخ کیا ہے یا حدیث لا وصیۃ لوارث نے۔ لیکن میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ میں صرف یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حدیث لا وصیۃ لوارث نہ ہوتی تو کیا محض آیاتِ مواریث سے ورثا کے حق میں وصیت کے جواز کی منسوخی ثابت کی جاسکتی تھی؟ مولانا اصلاحی کا بیان کردہ یہ نکتہ بھی محض نکتہ ہی ہے کہ اللہ کی وصیت (یوصیکم اللہ ) کو انسان کی وصیت پر فوقیت حاصل ہے۔ جب تک حدیث لا وصیۃ لوارث ذہن میں نہ ہو، اس نکتے سے ورثا کے حق میں وصیت کا عدم جواز ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
اس سے زیادہ سنجیدہ مسئلہ ”غیر وارث“ راشتہ داروں کے حق میں وصیت کی فرضیت کا ہے۔ آیتِ وصیت کو اگر آیاتِ مواریث یا حدیث ِ لاوصیۃ لوارث نے منسوخ کیا ہے تو یہ تو بظاہر ”نسخِ جزئی“ ہے، یعنی وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت ناجائز ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا آیتِ وصیت کا اطلاق ان رشتہ داروں پر نہیں ہوتا جن کا وراثت میں حصہ نہ ہو؟ اگر ہوتا ہے اور یقیناً ہوتا ہے تو ان کے حق میں وصیت کی فرضیت تو آیاتِ مواریث یا حدیثِ لا وصیۃ لوارث سے منسوخ نہیں ہوسکتی ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ فقہائے کرام کی غالب اکثریت نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت جائز تو ہے لیکن فرض نہیں ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے بعض نے غیر ورثا کے حق میں وصیت کی، بعض نے اس کی شدید تاکید بھی کی اور بعض نے مال رکھنے کے باوجود غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت نہیں کی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت جائز تھی ، بعض کے نزدیک مستحب بھی تھی ، لیکن فرض بہرحال نہیں تھی ۔ اب دیکھیں یہاں مفروضہ کیا ہے ؟ یہ کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فرض نہیں چھوڑ سکتے تھے اور وہ قرآن کو ہم سے بہتر سمجھتے تھے۔ ان مفروضوں کے بعد ہی جب آیتِ وصیت اور دیگر نصوص کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں نظر آجاتا ہے کہ غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت کیوں فرض نہیں ؟
چناں چہ مسئلے کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ کہ کیا پورے قرآن کی دلالت تنہا قرآن سے قطعی طور پر معلوم کی جاسکتی ہے یا نہیں؟اسی وجہ سے یہ مسئلہ محض پورے قرآن کی دلالت کو قطعی ماننے یا نہ ماننے کا نہیں ہے بلکہ قرآن فہمی میں حدیث اور فہم ِ صحابہ کے مقام کے تعین کا بھی ہے ۔
ھذا ما عندی ، و العلم عند اللہ ۔
(ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، ایسوسی ایٹ پروفیسر قانون، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد)
تبصرہ لکھیے