ہوم << پاکستان سے محبت کرنے کا ارادہ ہو تو بھارت ضرورجانا چاہیے - اخترعباس

پاکستان سے محبت کرنے کا ارادہ ہو تو بھارت ضرورجانا چاہیے - اخترعباس

اختر عباس ڈرائیور کا رنگ فق ہوچکا تھا۔ شملہ کی پوری خوبصورتی اور موسم کی خوشگواری کا احساس رخصت ہونے میں بس چند لمحے لگے۔ ہم ابھی تک اس پارسی خاتون کے چہکنے اور بھٹو صاحب کی اندرا گاندھی سے دوستی اور شخصی التفات کے واقعات کے تجزیے میں مصروف تھے جو اس نے آنکھوں دیکھے بیان کیے تھے اور جو اس نے خود بھری محفل میں بھٹو صاحب سے سوال کرکے سنے تھے۔ اسی نے ہمیں سٹیٹ گیسٹ ہائوس شملہ کے اس کمرے سے متعارف کرایا جہاں شملہ مذاکرات (جولائی 72ء) ناکامی سے دوچار ہونے والے تھے اور پھر دونوں سربراہان کمرے سے اُٹھ کر سائیڈ لان میں ٹہلنے کے بہانے آ گئے تھے۔ اس سیر کے دوران کیسے مذاکرات کا پانسہ پلٹا اور ہر چیز دونوں کے بیچ کیسے طے ہوئی اس راز کو کوئی نہ پاسکا۔ اس کی وہ گفتگو اور بیان کردہ واقعات ان تاریخی لمحات کا ایک نیا زاویہ سامنے لارہی تھی، ہم نے اس دوران اس تاریخی کمرے میں گروپ فوٹو بنوانے کے بعد دونوں وزرائےاعظم کے لیے مخصوص نشستوں پر خصوصی اجازت سے بیٹھ بیٹھ کر تصویریں بنوائیں۔ ان دنوں بھارتی حکام، صحافیوں کے پاکستانی وفد کی پذیرائی اور راہنمائی اتنے اہتمام سے کر رہے تھے کہ شملہ پریس کلب کے صدر دنیش گپتا کی باتوں کی تلخی بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی کہ جب اس نے یہ کہا کہ ’’ابھی دونوں ملکوں کے تعلقات چاہے حکومت کی سطح پر ہوں یا عوام کی سطح پر، اس میں وہ گہرائی نہیں آئی کہ پائیدار اور قابلِ اعتبار کہلا سکیں، ایک بم دھماکا، دہشت گردی کا کوئی ایک واقعہ تعلقات کی ساری خوشی اور اس گرم جوشی کی جان لے سکتا ہے۔‘‘ بات تلخ مگر سچ تھی اور آنے والے چند ماہ بعد ’پیپل ٹو پیپل کانٹیکٹ‘ (People to people contact) کا نعرہ اور مظاہرہ یوں ختم ہوا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ اس بات کو دس برس ہونے کو آئے، ستمبر 2016ء اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے تو برادر عامر خاکوانی کے امیتابھ بچن کے جواب میں لکھے ایک خط نے اس دن کی یاد تازہ کردی جو ہم نے شملہ میں گزارے تھے
وی آئی پی بس کے ڈرائیور کی بےبسی بھری بڑبڑاہٹ پہلے میں نے سنی، ’’سر بریک کام نہیں کر رہے‘‘. وہ انڈین ٹورازم ہوٹل سے گاڑی ریورس کر رہا تھا اور میں اور حامد ریاض ڈوگر اس کے بالکل قریب بیٹھے تھے، وہ پہلی بار پہاڑی علاقے میں بس چلا رہا تھا۔ شملہ بالکل ہمارے مری کی طرح ہے۔ بلندی 6 ہزار فٹ سے کہیں زیادہ ہے اور خوبصورتی ایسی کہ انگریز حکومت نے اسے موسم سرما کا پایۂ تخت بنا لیا تھا اور ریل کو اتنی سہولت اور آسانی کے ساتھ اس اونچائی تک لے گیا تھا کہ وائسرائے ہند کا خصوصی سیلون اور سیاح بڑے سکون سے وہاں پہنچ جاتے تھے. ہم بھی قریباََ دو ہفتوں سے پنجاب، ہریانہ اور ہماچل کے دورے پر تھے اور پروٹوکول کے خوب مزے لے رہے تھے۔ پنجاب اور ہریانہ کے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کی دعوتیں اس پر سوا تھیں۔ ہر جگہ لمبی تقریروں کے بعد شاندار کھانا کھلایا جاتا تھا اور دوستی کی باتیں کی جاتی تھیں اور ہم سب ان پر پوری آمادگی سے سر ہلاتے تھے مگر اس لمحے سب بےکار جانے والا تھا، ڈرائیور کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور پائوں تیز تیز چل رہے تھے۔ آگے چلنے والی پولیس کی گاڑی کے حکام اس کیفیت سے بےخبر اور رونما ہونے والے حادثے سے بےنیاز تھے کہ بس میں ڈرائیور پر کیا گزر رہی ہے؟ وہ ذرا فاصلے پر بس کے ریورس ہونے کے منتظر تھے۔ ڈرائیور جانتا تھا کہ کوئی لمحہ جاتا ہے وی آئی پی بس اس کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اس نے بچنے کا آخری موقع جانتے ہوئے بس کو پولیس کی گاڑی سے جا ٹکرایا، پولیس وین ایک دوسری بس کے نیچے جاگھسی۔ ڈرائیور کی قسمت اچھی تھی ورنہ ٹانگیں کاٹ کر نکالنا پڑتا۔ سب لوگ کلمہ پڑھتے ہوئے نیچے اتر آئے۔ فکر مند منتظمین نے جلد ہی دوسری گاڑی کا انتظام کرلیا۔ اس دوران پنجابی سکھ ڈرائیور کی آہ و بکا کم ہونے میں نہیں آرہی تھی۔
’’ جناب یہ لوگ مجھے مار دیں گے، آپ ساتھ لے کر ہی جائیں۔‘‘
وہ بےچارہ بھی کیا کرتا، زندگی کی لکیر پر پولیس کی گاڑی کھڑی تھی، بچنے کے لیے ٹکرانا پڑا۔ ابھی وہاں سے رخصت ہی ہوئے تھے کہ پاکستان سے ٹیلی فون آنے شروع ہوگئے، پتا چلا جیو پر پٹی چل رہی ہے کہ شملہ میں صحافیوں کی بس حادثے کا شکار ہونے سے بال بال بچ گئی۔ یوں لگا کہ جیو کے فرض شناس رپورٹر نے شکر کا سانس لینے سے پہلے ہی خبر بھجوا دی تھی۔ یہ ہو تی ہے پروفیشنل ایفی شنسی جس کا اس نے مظاہرہ کیا تھا۔ یہ اسی آخری دورے کی بات ہے، اس کے بعد عوامی سطح پر کوئی بڑا رابطہ ہی نہ ہو سکا۔
شملہ جانے سے پہلے ہم چندی گڑھ میں اراکین اسمبلی کے لیے بنائے گئے ہاسٹل میں ٹھہرائے گئے تھے۔ پنج دریا کانفرنس کے موقع پر دوپہر کا کھانا اگر کانگریس کی طرف سے ہوتا تو رات کا کھانا بی جے پی کے کسی راہنما کی طرف سے۔ بعض جگہوں پہ یہ بھی ہوا کہ کھانا اگر ایک پارٹی کے راہنما کی طرف سے تھا تو کھانے سے پہلے شراب کا اہتمام دوسری پارٹی کے راہنما نے کیا۔ یہ معمول پورے دورے کے دوران جاری رہا۔
ہندی اخبار دینک بھاسکر (Dainik Bhaskar) کے بیورو چیف شامی سارن (Shami Sarin) نے ایک روز مجھ سے پوچھا آپ کو یہ دورہ کیسا لگا؟
میرا جواب اس کی توقع کے برعکس تھا۔ اس کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ ’’پاکستان سے محبت کرنے کا ارادہ ہو تو بھارت ضرور آنا چاہیے۔ ایک بے پروا اور روایتی حب الوطنی سے بےنیاز آدمی کا دل بھی واپسی تک ملک کی محبت سے آدھے سے زیادہ بھر جائے گا۔‘‘ سارن جس کا اخبار چندی گڑھ، ہماچل، ہریانہ، مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ سے چھپتا تھا، نے پوچھا کیوں؟
میرا جواب تھا ’’جب سے ہم آئے ہیں کسی بھارتی اخبار کے صحافی سے لے کر کسی عام بھارتی نے بھی اپنے ملک کے خلاف کچھ کہا ہے نہ اپنی کسی ناپسندیدہ سیاسی پارٹی اور اس کے راہنما کے خلاف ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات کی ہے۔ خدا جانے آپ سب کیسے جانتے ہیں کہ مہمانوں سے کیا بات کرنی ہے؟ کس حدتک کرنی ہے؟ آپ ہی نہیں آپ کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا بھی، سچ کہوں تو مجھے لگتا ہے یہ روایتی دیش بھگتی سے زیادہ کھلی آنکھوں اور اپنی مرضی سے اپنی مٹی سے کیےگئے پیار کا عملی اظہار ہے۔‘‘
میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو اگلی بات کہنے سے روکا کہ ’’ہمارے ہاں سے جانے والے ہر وفد کے اراکین کے بارے میں ہمارے ہندو گائیڈ ہر ہوٹل میں داخلے کے وقت بڑی معصومیت سے بتاتے تھے۔ فلاں صاحب یہاں گرے تھے اور اس ہوٹل کی لابی سے فلاں عظیم رائٹر اور صحافی کو الٹیاں کرتے ہم اُٹھا کر لے گئے تھے۔ ہمارے وفد کے کئی لوگ وہاں نجی اور بڑی محفلوں میں توجہ پانے کے لیے اپنے ہی ملک اور لوگوں کے خلاف یوں بات کر رہے ہوتے جیسے کسی بڑے سے شکایت کرتے ہیں۔ ان سے وہاں جگہ جگہ شکایت کرکے داد لینے کی آرزو ہی سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی۔ ابھی میں پوری یکسوئی سے سوچتا ہوں جیسے حج کے موقع پر بریفنگ اور میڈیکل چیک اپ کا سرکاری انتظام کیا جاتا ہے۔ بےشک یار لوگوں نے اس کا کاغذی خانہ پُری کے لیے متبادل نکال لیا ہے مگر پھر بھی میری دلی آرزو اور بھرپور خواہش ہے کہ بھارت جانے والوں کو چاہے وہ اکیلا ہو یا وفد کی صورت، اسے سرحد پار کرنے سے پہلے Do's اور Do'nts ضرور بتائے جائیں۔ اس سے کم سے کم یہ تو ضرور ہوگا کہ واہگہ پار کرتے ہی جن پیاسوں کی زبانیں لٹک جاتی ہیں اور متلاشی نگاہیں اپنی سوچ کے مطابق ہر درخت کے ساتھ لٹکی اور دکان پر رکھی مفت میں ملنے والی شراب کی بوتلیں ڈھونڈتی ہیں اور نہ پاکر ان کے بارے میں اشتیاق بھرے سوال پوچھ پوچھ کر خود شرمندہ ہوتے اور ہم سفروں کو شرمندہ کرتے ہیں، وہ باز آجائیں گے۔
بھارتی میزبانوں کی ایک اچھی بات جو مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اپنےگندے کپڑے تو ہمارے سامنے بالکل نہیں دھوتے، ملکی سلامتی سے متعلق اپنے اداروں کے بارے میں بات کرنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امن کے دنوں میں ہندوستان جانے والوں پر اگر یہ حقیقت واضح ہو تو یقین مانیے وہ لمحاتی دوستی کی نمائشی مسکراہٹ لینے کے لیے اپنے وطن کے حوالے سے کی گئی تلخ اور خلاف ِحقیقت باتوں کا سلیقے سے جواب دینے کا موقع کبھی نہ گنوائیں۔
گئے ماہ وسال نے بڑی وضاحت سے سمجھایا ہے کہ اپنے ملک، نام، مقام، تاریخ اور تہذیب کی عزت کرنے والے ہی دوسروں کی نگاہوں میں باعزت ہوتے ہیں، خود کو کم تر کہنے یا برا سمجھنے، برا کہنے کی لت اور عادت میں مبتلا کسی فرد یا قوم کی دوسرے بھلا کیونکر عزت کرسکتے ہیں؟ وہ بھی ہم میں سے ہی ہیں کہ وہاں جاکر یوں بچھ بچھ جاتے ہیں جیسے کمر میں ریڑھ کی ہڈی ہی نہ رہی ہو اور ان کی محبت اور توجہ میں مرے جارہے ہوں۔
ان کے چھوٹے بڑے لوگ کتنے سالوں سے ہمارے ہاں آرہے ہیں، مجال ہے کبھی اپنے نظام اور لوگوں کی خرابیوں پر اخباری انٹرویو اور بیان دیے ہوں جبکہ ہماری لکیر کو مٹانے کے لیے ان کا شوق خوب جوبن پر رہتا ہے۔ وہاں جا کر کھانے پینے کے دوران آدابِ محفل کا خیال اور احساس بھی سیکھنے اور کرنے کی چیز ہے، وہاں محفلوں اور تقریبات میں کھانا دھیرے دھیرے چلتی قطار میں کھڑے ہوکر لیا جاتا ہے۔ قطار توڑ کر اچانک ڈونگوں پر جا پڑنے کا منظر شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملا ہو۔ دوران گفتگو لوگ ہلکی پھلکی سماجی، ادبی گفتگو کرتے ہیں۔ ہماری طرح ہر لمحے سیاسی واقعات اور شخصیات کو موضوع گفتگو نہیں بناتے۔ بھارت میں’’مصنوعی لکیر‘‘ کا ذکر کچھ اس تواتر اور تسلسل سے ہر دورے کے دوران ہوتا ہے کہ ہمارے بعض نرم دل احبابِ صحافت اور اربابِ سیاست کو بھی وہ آہستہ آہستہ مصنوعی ہی لگنے لگتی ہے۔ اس مصنوعی لکیر کے بارے میں ’’اُس پار سے‘‘ آنے والے مہمان بھی بطور خاص ہمیں یقین دلایا کرتے ہیں، بلکہ اسی بات کو بتانے، سمجھانے اور یقین دلانے کے لیے کبھی بڑی باقاعدگی سے دوروں کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ ان کی تقریروں، ظہرانوں اور عشائیوں میں اسی بات کا ذکر پیرائے بدل بدل کر ہوتا تھا۔ پاکستانی قوم بالخصوص اور ہمارے بڑے بڑے سیاسی لیڈر بالعموم بڑے بامروت اور مہمان نواز ثابت ہوتے ہیں۔ کسی کے اظہار خیال میں نہ مخل ہوتے ہیں، نہ تردید کرتے ہیں، نہ تصحیح کرتے ہیں۔ ہماری بنیاد اور اصل کے بارے ایسی لایعنی باتوں کے مواقع پر ہم جس طرح سوڈو دانشوروں کی طرح جھوٹا مسکراتے اور وسعتِ قلب کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں، وہ منظر تو ریکارڈ کرکے کسی فلم یا ٹیلی ویژن سوپ کا حصہ بنا دینا چاہیے تاکہ دیکھنے والوں کو کچھ تو عبرت ہو۔ اس برس 6 ستمبر منانے کی عجیب ہی شان تھی، اس نے کتنی ہی پرانی یادیں تازہ کردیں. آج جب ہمارے فوجی جوان اپنی جنگ ستمبر کی یادیں تازہ کر رہے ہیں، ایک شاندار یاد نے میرا بھی دامن پکڑ کر یاد دلایا، دلائل کی اس جنگ کا جو ہم نے انہی کی سرزمین پر لڑی، اس کا ذکر بھی لازم اور واجب ہے۔
اس دورے کے دوران ایک روز مشرقی پنجاب کی ڈپٹی چیف منسٹر سردارنی راجندر کور مٹھل کے گھر کھانے پر مدعو تھے۔ بھارت میں یہ ہمارا آخری دن اور آخری دعوت تھی، جو ناشتے سے شروع ہو کر لنچ تک چلی۔ سردارنی نے میزبانی بھی بہت دل سے کی اور تقریر بھی اسی جذبے سے کی، پھر اچانک یہ بتاتے بتاتے کہ 1947ء میں، ان کا جنم لاہور کی ایک جیل میں ہوا تھا، جہاں ان کی ماتا جی جنگ آزادی کی وجہ سے قید تھیں، وہ کہنے لگیں’’1947ء ایک خوفناک خواب تھا، ہمیں اب اس کو بھول جانا چاہیے، تب سے ہمارا پنجاب ادھورا اور نامکمل ہوگیا ہے، ہمیں اس کو مکمل کرنا چاہیے. ان کے الفاظ تھے’’ادھورے پنجاب نوں مکمل کرن لئی ساڈھے بازو تہاڈے لئی کھلے نیں‘‘ (ادھورے پنجاب کو مکمل کرنے کے لیے ہمارے بازو آپ کو گلے لگانے کے لیے کھلے ہیں)
یہ سن کر میں بےاختیار مسکرادیا۔ اتنی سنجیدہ تقریر کے جواب میں مسکراہٹ پر حامد ریاض ڈوگر [لاہور میں جسارت کراچی کے بیورو چیف] نے پوچھا: کیا ہوا؟ میں نے انھیں لان کے ایک کھلے حصے کی طرف لے جاکر بتایا کہ 1980ء کی دہائی میں جب لاہور کے سابق اور مستقبل کے میئر خواجہ حسان، پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے نائب صدر تھے، انھوں نے بھی سال اوّل کے ایک استقبالیہ میں، جہاں چھ سات ہزار لڑکے لڑکیاں جمع تھے، اسی طرح کا جملہ کہا تھا ’’ہمارے دل ہی نہیں، بازو بھی میری بہنو! آپ کے لیے کھلے ہیں۔‘‘ اس جملے کے بعد مسکرانے کی باری حاضرین کی تھی، وہ جملہ برس ہا برس تک دہرایا جاتا رہا۔ ہوا یوں کہ دعوت کے رسمی اختتام کے لیے پنجاب اسمبلی کے سپیکر بھی مدعو تھے۔ اعلان ہوا کہ اب کانگریسی رہنما اور سپیکر ڈاکٹر کیول کرشن خطاب فرمائیں گے۔ کچھ حاضرین کرسیوں پر بیٹھے جوس پی رہے تھے، کچھ مکئی اور ساگ کھا رہے تھے اور باقی دائرے میں بڑے احترام اور مروت سے کھڑے تھے۔ ڈاکٹر کیول نے تو آغاز ہی مصنوعی لکیر سے کیا… کہنے لگے ’’دو قومی نظریہ، انگریزوں کی پھیلائی ہوئی سازش تھی، ہم ایک ہی قوم کے لوگ ہیں۔ اس مصنوعی لکیر کے باعث الگ الگ ہوگئے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ سامراج کے بنائے ہوئے دو قومی نظریے اور مصنوعی لکیر کو بھلا کر ہاتھ ملا کر آگے بڑھیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب تو ابھی اور آگے بڑھنے والے تھے، مگر حافظ شفیق الرحمن، حامد ریاض ڈوگر، امجد وڑائچ، شفیق پسروری اور ظہیر بابر کے منہ بن گئے۔ حافظ صاحب نے تو غصے میں بڑبڑانا شروع کردیا۔ ’’آپ دو قومی نظریے کے بارے میں ایسی بات کر کیسے سکتے ہیں؟‘‘ فضا میں بڑبڑاہٹ بڑھ گئی تو ڈاکٹر صاحب نے کسی بدمزگی سے بچنے کے لیے اپنی گفتگو ختم کر دی۔ وہ جونہی تقریر سے فارغ ہوئے تو سیدھے ہمارے والی رائونڈ ٹیبل پر آ کر بیٹھ گئے، جس پر ہم کل چودہ افراد بیٹھے تھے جن میں کانگریس کے کئی اہم راہنما بھی تھے. میں نے آگے بڑھ کر تعارف کرایا اور ساتھ بیٹھ گیا اور کہا ڈاکٹر صاحب یہ بھی خوب رہی، عزت اور مذہبی آزادی کے ساتھ جینے کے حق کے لیے ملک کی تقسیم ہوئی تو وہ بقول آپ کے مصنوعی لکیر ہے اور آپ اسے انگریز کی سازش کہتے ہیں۔ دو قومی نظریے کو بھی برا بھلا کہتے ہیں، اس حوالے سے میرا ایک سوال ہے.
’’ڈاکٹر صاحب! پنجاب اور ہریانہ کا دارالحکومت ایک ہی شہر ہے، پھر صوبے الگ الگ کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟‘‘ انھوں نے اس بے ضررسے سوال کو سنا اور بولے:’’اصل میں ہمارے ہاں 1966ء میں بہت ہنگامے ہوئے تھے، جن میں10 ہزار کے قریب لوگ مارے گئے۔ مردم شماری میں پنجاب اور ہریانہ کی آبادی کی زبان الگ الگ قرار دے دی گئی تھی۔ ہریانہ میں زیادہ ہندو آبادی ہے، ان کی زبان پنجابی نہیں ہے، ان کا خیال تھا کہ پنجاب ان کا استحصال کررہا ہے، اس لیے بڑی سوچ بچار کے بعد صوبے الگ الگ بنا دیے گئے۔ دوسرا کوئی موزوں شہر تھا نہیں، اس لیے چندی گڑھ ہی دونوں صوبوں کا دارالحکومت قرار دے دیا گیا۔‘‘ کیا اس تقسیم میں بھی انگریز کا کوئی مشورہ تھا؟ میں نے پوچھا تو انہوں نے بدمزہ ہو کر کہا، ’’نہیں تو یہ ہمارا اپنا ہی فیصلہ تھا، جب دو بھائی مل کر نہ رہ سکیں تو پھر انہیں اکٹھے رکھنا ممکن نہیں رہتا۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا ’’ 1947ء میں بھی تو ایسا ہی تھا جب دو قومیں مل کر نہ رہ سکیں تو الگ الگ ہو گئیں اور دو نئے ملک بن گئے. آپ نے اس میں تو انگریز کی سازش ڈھونڈ لی، اسے دو بھائیوں کا حق کیوں نہ جانا، یہ بھی تو برسوں کے تجربات کے بعد ہی فیصلہ کیا گیا تھا کہ اب اکٹھے نہیں رہا جا سکتا.‘‘
لیفٹیننٹ کرنل(ر) سی ڈی سنگھ کمبوہ نے جو تب وہاں پنجاب ہیلتھ فائونڈیشن کے چیئرمین تھے، بعد میں صحت کے وزیر بنے، اور لاہور بھی آئے، نے میری طرف دیکھا اور بولے’’بس کر یار! توں تے سپیکر صاحب نوں لاجواب کر دِتّا اے۔‘‘
(بس کریار! اس موضوع پر بہت بات ہوگئی، آپ نے تو سپیکر صاحب کو لاجواب کردیا ہے)
میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم نے اتنی لمبی لمبی تقریریں بڑے صبر سے سنی ہیں، اب کچھ غصہ تو نکال لینے دیں، اس پر وہ خاموش ہوگئے، اس دوران ہمارے دو تین ساتھی بھی بول پڑے، بالکل بالکل، کئی ایک ساتھیوں نے باقاعدہ ساتھ دیا۔ میں نے اسی معصومیت سے پوچھا: ڈاکٹر صاحب! 14ضلعوں پر مشتمل مشرقی پنجاب کو دو نہیں تین صوبوں میں تقسیم کیا گیا۔ ہماچل پردیش (پہاڑی علاقہ)، ہریانہ (ہندو اکثریت کا علاقہ) اور پنجاب (پنجابی اکثریت کا علاقہ) جب ان کو الگ الگ کیا گیا تو انگریز کو گئے 19سال ہوگئے تھے۔ کیا یہ تقسیم بھی انگریزی سازش تھی؟‘‘
بولے’’نہیں نہیں! یہ تو انتظامی تقسیم تھی.‘‘
اب ان کے چہرے پر پسینے کے قطرے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے بات مکمل کرتے ہوئے کہا:
’’ڈاکٹر صاحب! یہ زیادتی نہیں ہے کہ ہمارے لاکھوں لوگوں کی جانیں گئیں، آزادی کے لیے ، اور یہ ریت پر کھنچی لکیر ہے نہ پانی پر بنی لکیر، اسے دکھ، درد اور قربانیوں کی ایک لازوال تحریک نے جنم دیا تھا، تاکہ ہم آزادی، وقار اور خوشحالی سے اپنے دین اور تہذیب کے مطابق جی سکیں۔ مروت اپنی جگہ پر بجا، مگر تاریخ کا ریکارڈ درست رکھنا بھی ضروری ہے، نئے نئے دوستوں کے لیے پرانی تاریخ سے نہ انکار ممکن ہے، نہ تبدیلی، یہ اتفاقیہ لکیر تھی، نہ انتظامی۔ یہ ٓازادی تھی سر. شملہ میں بس کا ایک ڈرائیور زندگی کی لکیر کی تلاش میں پولیس کی گاڑی کو جا ٹکراتا ہے، یہاں تو پوری مسلمان قوم انگریزوں اور ان کے دوستوں سے جا ٹکرائی تھی تب جا کر یہ لکیر واضح ہوئی تھی۔ یہ ہماری زندگی کی لکیر ہے اور بھلا اپنی زندگی کی لکیر سے انکار کیونکر ممکن ہے.‘‘
کھانے کے دوران بھی اس موضوع پر گفتگو جاری رہی، مگر اب اس کا لہجہ اور ٹون بدلی ہوئی تھی۔ سربجیت بندھائک بے اختیار بول اُٹھا: ’’تقسیم ایک سچ ہے، لکیر ایک حقیقت ہے، مصنوعی نہیں ہے، یہ خود انسانوں نے انسانوں سے تنگ آکر بنائی تھی اور یہ بنی رہے گی۔ اس کو حقیقت مان کر ہی بات کرنی چاہیے۔‘‘
اس گفتگو کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ امرتسر میں جب الوداعی دعوت اور گفتگو ہو رہی تھی تو چندی گڑھ پریس کلب کے صدر رمیش چودھری، (ڈیلی ٹربیون) نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’لکیر کو مصنوعی کہنے اور مٹانے کی باتیں کرنے سے دوستی نہیں بڑھے گی، بلکہ دوریاں بڑھیں گی، اس لیے حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ دونوں ملکوں کی الگ الگ حیثیت ہے، اس کو مان کر ہی دوستی ہوسکتی ہے۔‘‘
کتنا اچھا ہو کہ ہمارے ہاں نئے نئے ابھرتے دانشوروں کو بھی یہ ہمیشہ یاد رہے کہ ہمارے وطن کی آزادی اور علیحدگی کی یہ لکیر مصنوعی نہیں ہے، یہ پوری تہذیب اور تمدن کی حفاظت کا معاملہ ہے،ہماری نسلوں کی بقا کا مسئلہ ہے جیسا کہ عامر خاکوانی نے اپنی بیٹی کے نام خط میں لکھا۔ نہ تو دوچار مسکراتے چہروں کے کہنے سے یہ آزادی اور فکری اختلاف مصنوعی ہوجائے گا، اور نہ ہی صبح شام بھارتی ڈراموں اور اداکاروں کی خوبصورتی کا احساس اسے بھلانے میں کامیاب ہو سکتا ہے. اس کی بڑی بھاری قیمت اس قوم کے بڑوں نے دی ہوئی ہے. اب بھی جب کبھی کسی نئے نئے بنتے اور ابھرتے دانشور کو اس حوالے سے وطن عزیز کی تاریخ اور لکیر پر نادانی سے بات کرتے اور بےاصل دلائل کے پردوں میں پناہ لیتے دیکھتا ہوں تو پورے دل سے کہتا ہوں بھائی! تو کسی روز انڈیا ہو آ، دو چار دن وہاں رہ آئو تمہیں علم ہو جائے گا کہ ہم ان سے کیوں اور کس قدر مختلف ہیں اور ان سے علیحدگی کے لیے جان و مال کی کتنی قربانیاں دی تھیں جسے تم کتنی معصومیت اور آسانی سے انگریز کی سازش قرار دے کر اپنی پوری تاریخ کی نفی کر دیتے ہو۔ ایسے کسی دانشور سے کبھی آپ کی ملاقات ہو تو تو لمحہ بھر کو محسوس کیجیے گا کہ یہ بالکل اس بس ڈرائیور کی طرح کے ہوتے ہیں جن کے دلائل کی بریکیں کام نہیں کر رہی ہوتیں اور وہ پوری گبھراہٹ میں اپنے دلائل کی گاڑی کسی نہ کسی حقیقت کے نیچے دے مارتے ہیں اور پھر اس پرشرمندہ بھی نہیں ہوتے۔

Comments

Click here to post a comment