حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ سنت جو اپنی سب سے قیمتی چیز اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے کامیاب امتحان کے بعد انعام کی صورت میں اللہ ربالعزت کی طرف سے ہمیں ملی تھی قربانی کہلاتی ہے.
عید الاضحی کے قریب آتے ہی ہمارے دلوں میں جانوروں کے لیے سوئی ہوئی محبت اچانک صرف جاگتی ہی نہیں بلکہ ٹھاٹھیں مارنے لگتی ہے اور کئی کئی دن پہلے ہی گھر گھر قربانی کے جانوروں کے بارے میں تبصرے شروع ہو جاتے اور اس کے ساتھ ساتھ پھر سڑک چلتے ”بھائی کتنے میں بنا“ جیسی آوازیں ہمیں عام سنائی دینے لگتی ہیں. خاص کر بچوں میں قربانی کا شوق اور ولولہ دیدنی ہوتا ہے.
کل قریب بارہ بجے قربانی کا جانور خریدنے کی نیت سے چاچو خالد میں اور میرے اک دوست عثمان نے منڈی پر چڑھائی کا قصد کیا. مویشی منڈی کے دروازے پر پہنچتے ہی ہر طرف سے اڑتی گرد و غبار دیکھ کر کیپ رومال یا ماسک ساتھ نہ لے جانے کی اک بڑی غلطی کا احساس ہوا مگر تب کیا کیا جا سکتا تھا. اللہ کا نام لے کر میدان کارزار میں اترے، اک بیوپاری پھر دوسرے پھر تیسرے اور چوتھے سے ریٹ سنتے بلکہ یوں کہیے کانوں کی لوئے گرم کرواتے آگے کی جانب بڑے ہی حوصلے سے پیش قدمی کر رہے تھے کہ اسی لمحے نصرت کی مشہور زمانہ غزل جو کچھ یوں میرے ہونٹوں پہ جاری ہو گئی
ہر بلا سر پہ آ جائے لیکن
بیوپاریوں سے اللہ بچائے
قصہ مختصر دوپہر بارہ سے شام چار بجے تک مویشی منڈی ساہیوال کی خاصی وافر مقدار میں خاک چھان کر خالی ہاتھ بوجھل دل کے ساتھ باھر نکلے. موٹر سائیکل اسٹینڈ کی طرف بڑھتے ہوئے پیچھے سے اک نوجوان کی آواز ”پاجی ویکھ لو دوندا اے“ کانوں میں پڑی مڑ کر دیکھا تو بھورے رنگ کا چھوٹے چھوٹے سینگوں والا بھوک سے نڈھال مگر اچھے ڈیل ڈول کا مالک التجائی بلکہ لجائی نظروں سے ہمیں دیکھ رہا تھا بس پھر اس سے آگے کا احوال فیض احمد فیض کے اس مشہور شعر جو کچھ ترمیم کے ساتھ پیش خدمت ہے میں درج کر کے بات سمیٹتا ہوں. ع
نظروں ہی نظروں میں اس نے ایسے بھلے سخن کہے
ہم نے تو نوجوان کے قدموں میں سارا ہی مال رکھ دیا
اور جوابا اس نے بھی فوری ویڑے کا رسہ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا.
تبصرہ لکھیے