ہوم << علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان الرحمن رضی

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان الرحمن رضی

رضوان رضی دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کے‌‌‌ لیے چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزارشریف کے سرحدی گائوں حیراتان کی خشک بندرگاہ پر پہنچی ہے۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہے ہیں۔ کل ہی بھارتیوں کے زیرانتظام افغان فوج کے سماجی رابطے کی ویب سائٹ، ٹوئٹر کے ذریعے اطلاع ملی ہے کہ ایران کا افغانستان کے سرحد ی گائوں ’خاف‘ تک ریلوے لائن بچھانے کا کام تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور افغانستان کے عبداللہ عبداللہ نے چاہ بہار بندرگاہ کو جلد از جلد شروع کرنے پر زور دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین اور روس کے بعد اب ایران بھی افغانستان کے ساتھ براستہ ریلوے لائن منسلک ہو گیا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت خطے کے باقی ممالک، بشمول بھارت، افغانستان کے ساتھ کسی نہ کسی طور تیزی سے جُڑ رہے ہیں، انہوں نے افغان طالب علموں کے لیے تعلیمی وظائف کا اعلان کر دیا ہے، جبکہ ہمارے ہاں ایسا کوئی تکلف نہیں ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے جن سرحدی علاقوں نے قدرتی طور پر افغانوں کے لیے تعلیمی بیس کیمپ بننا تھا، وہاں ہم نے ایران کے زیراثر قبائل کو بسا کر، نہ ختم ہونے والی فرقہ ورانہ جنگ میں دھکیل دیا ہے۔ افغانستان کی فوج کے افسران کی تربیت بھارت میں ہو رہی ہے، حالانکہ ہماری تو افغان پالیسی رہی ہی ہماری فوج کے ہاتھ میں ہے تو پھر یہ کیا ہے؟ پاکستان کے دینی مدارس سے چن چن کر نکالے گئے افغان طلبہ کو بھارتی مسلم دینی اداروں میں دھڑا دھڑ داخلے دیے جا رہے ہیں۔ جب افغانستان کے ساتھ مختلف مسائل کے باعث طورخم اور چمن کے بارڈر بند ہوتے ہیں تو ایران اپنے بارڈر کھول دیتا ہے اور بھارت ہوائی جہازوں کے ذریعے وہاں سے مال اور مسافر اٹھاتا ہے۔ ایسے میں میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر کچھ عناصرایسے بھی پیدا ہو گئے ہیں جو مسلسل افغان مہاجرین کے نام پر افغان قوم کو گالم گلوچ کر تے رہتے ہیں تاکہ گذشتہ چالیس سال کی میزبانی سے جو گڈ وِل افغانوں کی نوجوان نسل میں پیدا ہوئی ہے، اس کا بیڑہ غرق کیا جا سکے۔ یہ لوگ کون ہیں؟ ان کو پہچاننے اور قومی زندگی سے تلف کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں یہ کسی مشرقی یا مغربی ہمسایہ ملک کے گھس بیٹھیے ایجنٹ تو نہیں؟
یہاں اس بات کا تذکرہ بہت ضروری ہے کہ ان دو مزید ریل رابطوں کے قائم ہونے سے قبل افغانستان تک ریل کے صرف دو ہی راستے ہوا کرتے تھے، ایک طورخم تک کا راستہ اور دوسرا چمن کا راستہ۔ ان دونوں راستوں پر ٹرین چلا کرتی تھی۔ لیکن جب مرحوم ضیاء الحق کے دور میں پاک فوج نے امریکیوں کو افغانستان کے لیے خدمات پیش کیں اور اشیاء کی نقل و حمل کے کاروبار میں چھلانگ لگائی تو بہانہ روس کے خلاف افغان جنگ کا بنایا اور پشاور سے طورخم اور کوئٹہ سے چمن کے ریلوے لائنوں کو سامان کی نقل و حمل کے لیے بالکل ہی ترک کردیا۔ حالاں کہ دنیا بھر میں ایسے ریل راستے جن پر مال گاڑیاں نہ دوڑیں وہاں ریلوے کا کاروبار ہمیشہ گھاٹے کا سودا ہوا کرتا ہے۔ اب صرف اس ریلوے پٹڑی کو زندہ رکھنے کے لیے پشاور سے لنڈی کوتل تک ایک ٹرین کبھی کبھار چلائی جاتی ہے یا شاید وہ بھی نہیں۔ پہلے اسے دونوں افغان جنگوں کا بہانہ بنا کر بند رکھا گیا اور اب تخریب کاری کا۔ اس کی بعض برانچ لائنوں کو یا تو مقامی افراد اکھاڑ کر لے گئے ہیں یا پھر ان کو ویسے ہی نئے منصوبوں کے تحت سڑکیں بناتے وقت انہیں زمین میں دفن کر دیا گیا ہے۔
تاہم ہمیں ریلوے کے حکام نے بتایا ہے کہ کوئٹہ سے چمن تک ایک مسافر ٹرین روزانہ چلتی ہے جس میں مسافر کم اور (سمگلنگ کا) سامان زیادہ ہوتا ہے۔ اس ٹرین کو ایک نجی ٹھیکیدار چلاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں ٹکٹ کوئی نہیں خریدتا۔ ریلوے نے ایک آدھ دفعہ اسے بھی بند کرنے کی کوشش کی تو اس سے مستفید ہونے والے کوئٹہ کے پختون بپھر گئے کہ یہ تجارت (دراصل سمگلنگ ) کرنا ان کا قانونی اور نسلی حق ہے اور ایسا کرنے کا حق انہیں بھٹو مرحوم نے ایک تاریخی جلسے میں اعلان کرتے ہوئے دیا تھا جس میں انہوں نے اُس وقت کے افغان صدر کے گنجے سر پر ہل چلانے کی بڑھک لگائی تھی۔ بعد کی آنے والی حکومتوں نے عافیت اسی میں جانی کہ اسے نہ چھیڑا جائے اور اسے ایسے ہی چلتے رہنے دیا جائے۔ اگر طورخم اور چمن کی سرحدوں تک افغان راہداری تجارت کے کنٹینرز بذریعہ ریل بھجوائے جائیں تو پاکستان کی قومی شاہراہوں پر رش کم ہوگا بلکہ سمگلنگ کی روک تھام میں بھی مدد ملے گی اور ان روٹس پر ریلوے بھی منافع بخش ادارہ بن جائے گا۔
حکومتِ پاکستا ن کے مختلف عہدیداروں اور ہمارے فوجی اداروں کے مختلف ادوار کے رویوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج ہم اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ کابل میں پاکستان مخالف جذبات کیوں پائے جاتے ہیں۔ وہاں پر پاکستان کے خلاف نعرے لگانے والوں اور ہمارا قومی پرچم جلانے والوں کی سیاسی و معاشرتی اوقات اتنی ہی ہو جتنی پشاور میں اے این پی کی یا پھر کوئٹہ میں ہزارہ کی۔ یعنی اقلیت ہونے کے باوجود ، انتہائی اہم عہدوں پر قابض ہونے کی وجہ سے انتہائی موثر! لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہم پہلے سے موجود زمینی اور نسلی رابطوں کو غیر موثر یا بند کرنے پر کیوں مُصر ہیں؟
ویسے قیامِ پاکستان کے وقت جب ہمیں مغربی پاکستان کی ریلوے ملی تھی تو اس کے اُس وقت تک کے مجوزہ منصوبوں میں ریلوے کے رابطوں کو طورخم سے جلال آباد تک اور چمن سے قندھار تک بڑھانا شامل تھا۔ ریلوے کے ان رابطوں میں اس توسیع کے بغیر ہم ان روٹس سے کمائی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے کیوں کہ دنیا بھر میں ریلوے کو منافع میں چلانے کا ایک ہی اصول ہے یعنی مسافروں کے علاوہ صرف سامان کی نقل و حمل۔ دنیا میں ریلوے کے صرف وہی روٹس کامیاب مانے جاتے ہیں جن پر مال گاڑیاں چلائی جا رہی ہوں، صرف مسافر ڈھو کے کوئی بھی ریل چلانے والا ادارہ کبھی بھی منافع کمانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ چین شاہراہِ ریشم کے جن بھی راستوں پر ریلو ے کو بحال کر رہا ہے، وہاں پر وہ مسافر ٹرینوں کے بجائے مال گاڑیاں چلا رہا ہے۔ لیکن وہ کیا ہے کہ ستر سال گذر گئے، ہم نے اس کے بالکل برعکس کیا ہے، مال گاڑیاں بند کی ہیں اور مسافر ٹرینیں چلائی ہیں۔ جس کی وجہ سے آج بھی تمام تر دعووں کے باوجود ریلوے کا خسارہ چھتیس ارب روپے ہے اور اس بات پر خوش ہیں کہ کم از کم چل تو رہا ہے۔ یہ تو نہیں ہو رہا کہ زرداری دور کی طرح سولہ ارب روپے کا خسارہ بھی ہو اور کوئی ٹرین بھی وقت پر نہ چل پا رہی ہو؟
اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ ہماری روڈ ٹرانسپورٹ میں اس قدر منافع بخش ہو گئی ہے کہ ترجیح یا تو منشیات سمگلنگ میں ہے یا پھر سڑک کی ٹرانسپورٹ میں۔ ایک ٹرک والا ایندھن کی قیمتوں میں ہوشربا کمی کے باعث چھ سے آٹھ ماہ میں اپنے ٹرک کی قیمت واپس وصول کر لیتا ہے۔ دنیا کے کس کاروبار میں ایسا ہوتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ایک سابق آرمی چیف کے بھائیوں پر زمینوں کے کاروبار میں پیسے بنانے کے علاوہ ٹرکوں کے ذریعے افغانستان میں ایساف اور نیٹو افواج کو نقل و حمل کی خدمات پر پیسے کمانے کا الزام بھی ہے۔ اور وہ جو چند جرنیلوں کو’نشانِ عبرت‘ بنانے کے تاریخی واقعات میڈیا کے ذریعے قوم کے کانوں میں سے اتارے جا رہے ہیں، وہ بھی اسی ٹرانسپورٹ کے شعبے سے ہی تعلق رکھتے تھے۔
ایسے میں کیا وہ وقت نہیں آیا کہ ہم افغانستان کے ساتھ کسی بھی ہمسایہ ملک یا اس کی کسی بھی پراکسی کے اثر سے نکل کر اپنی آزادانہ دوطرفہ تعلقات کی پالیسی کو ازسرِ نو تشکیل دیں؟