ہوم << روایتی کساں اور زراعت ! مولوی روکڑا

روایتی کساں اور زراعت ! مولوی روکڑا

میں نے خود کبھی کھیتی باڑی نہیں کی، اور ہماری جو بھی زمین ہے اللہ کے کرم سے اس پر نہ کبھی گھر والوں نے کچھ اگایا ہے اور نہ ہی آنے والی نسل کا کوئی ایسا پروگرام ہے، زمین ٹھیکے پر دے دینا اور سال میں اپنا حصہ لے لینا کتنا آسان ہے، لیکن پھر بھی میں زراعت پر بھاشن دینے لگا ہوں. امید ہے کوئی کسان کا بچہ مجھے آڑے ہاتھوں نہیں لے گا. چونکہ میرا تعلق چکوال سے ہے لہذا میں صرف چکوال کے ہی کسانوں کی بات کروں گا بلکہ چکوال کے جس گاؤں سے تعلق ہے، وہاں کے ہی کسانوں پر کچھ تبصرہ کرنے لگا ہوں!
ہمارے گاؤں میں کوئی نہر ہے نہ ٹیوب ویل کا کوئی خاص نظام. فصل کا سب دارومدار بارش پر ہے. کبھی بارش ضرورت سے زیادہ ہو جاتی ہے تو بھی فصلیں برباد اور کبھی ضرورت سے کم ہوتی ہے تو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے. بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی شاید چکوالیوں کو عادت نہیں. گاؤں میں رشتہ دار کسانوں اور دیگر کو دو ہی فصلوں کی بوائی اور کٹائی کرتے دیکھ رہا ہوں، ایک چکوال کی مشہور فصل، مونگ پھلی اور دوسری گندم، ان کے درمیان کے وقت میں کوئی سرسوں اگا لیتا ہے یا تھوڑی بہت مکئی.
کسانوں کا حال یہ ہے کہ پورا سال کام کرتے ہیں مگر بچت صرف کھوتی کی کھرلی کے برابر ہوتی ہے. اگر قسمت سے کسان کے بچے نے میٹرک کر لیا یا تو وہ فوج میں چلا جاتا ہے یا پھر کچھ قرض لے کر دبئی، اگر ان دونوں میں سے کوئی کام نہ ہو سکے تو پھر کراچی تو اپنا دبئی ہے ہی، اور جس کسان کے بچے زیادہ پڑھ جاتے ہیں یا تو وہ کچھ نہیں کرتے یا پھر شہر چلے جاتے ہیں. مزے کی بات یہ ہے کہ کسان کے بچوں کو کھیتی باڑی میں کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی زراعت میں محکمہ زراعت کوئی کام کر رہا ہے جس سے نوجوانوں کو ایک نئی سوچ اور تحقیق ملے اور وہ زراعت کے میدان میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے سکیں.
گاؤں میں کئی سالوں سے صرف مونگ پھلی اور گندم ہی اگائی جا رہی تھی مگر اس سے کوئی خاص بچت نہیں ہوتی تھی. دو تین سال پہلے ایک کسان نے اپنی زمین پر ٹیوب ویل لگوایا اور انگور کا باغ لگا دیا. شروع میں تو سب لوگوں نے کہا کہ بارانی زمین میں انگور کا باغ نہیں اگ سکتا، لیکن اس شخص نے محنت کی اور اٹھارہ لاکھ کا پہلا سیزن اس نے ایک کنال سے بھی کم رقبے سے کمایا. اب کچھ اور کسانوں نے بھی انگور اگانے کی ٹھان لی ہے. اسی طرح پنجاب حکومت نے تلہ گنگ کے علاقے میں زیتون کی فصل اگانے میں کسانوں کی حوصلہ افزئی کی ہے، اور سنا ہے کہ حکومت کی طرف سے ”زیتون ویلی“ بنانے کا بھی ارادہ ہے.
اور آخری بات کہ پاکستانیوں بلکہ گاؤں کے پاکستانیوں اور کسانوں کے بچوں سے گزارش ہے کہ دبئی یا کراچی جانے سے آپ کی زمینیں برباد ہوں گی اور بوڑھے ماں باپ کی محنتیں رائیگاں جائیں گی جب تک کہ آپ لوگ نئی سوچ کے ساتھ زراعت میں دلچسپی نہیں لو گے گھر کے حالات نہیں بدلیں گے. کم از کم اپنے والدین کو مشورے تو دے سکتے ہو. ایک بات اور بھی کنفرم ہے کہ اگر پاکستان کے ہر گھر کے ساتھ بھی فیکٹری لگا دی جائے تب بھی پاکستان میں انڈسٹریل revolution نہیں آ سکتا کیوں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زرعی ملک کا دارومدار زراعت اور کسان پر ہی ہوتا ہے.