ہوم << مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (1) - مولوی روکڑا

مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (1) - مولوی روکڑا

آج کل اگر کوئی دہشت گردی کی وجوہات پر سوال اٹھائے تو وہ ہمارے کچھ طبقوں کے لیے دہشت گرد سے کم نہیں ہے ! اور کوئی خاموشی سے اپنی زندگی گزار رہا ہو یا پھر دہشت گردی کے عوامل سے ہٹ کر کچھ دینی کام کر رہا ہو، اس کو بھی مشکوک نظروں سے دہشت گردوں کا سہولت کار وغیرہ سمجھا جاتا ہے. نائن الیون کے بعد تو دہشت گردی کا ٹھپہ جیسے ہر کسی نے اٹھا رکھا ہے اور جہاں کہیں کوئی داڑھی والا نظرآئے، اس کی کی توثیق دہشت گردی کی مہر سے کر دی جاتی ہے !
کسی بھی ملک میں خاص طور اکیسویں صدی میں اٹھنے والی تحریکوں، انقلابات، جنگوں وغیرہ سے دوسرے ممالک کے تھنک ٹینکوں نے اپنے قومی مفاد کے ”پوائنٹ اف انٹرسٹ“ کو ضرور تلاش کیا ! اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے مختلف حیلے ہتھکنڈے استعمال کیے ! تاکہ اپنا مفاد پورا کیے جا سکے ! وسیع تر قومی مفاد، اکنامک انٹرسٹ! قدرتی وسائل تک رسائی، ہتھیاروں کی صنعت کا فروغ، دوسری قوموں پر برتری کا حصول! ان مفادات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مختلف اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا رہا ہے تاکہ اپنے مفاد کےلیے کھیلی جانے والی ”ڈرٹی گیمز“ کا جواز پیش کیا جا سکے!
دوسرے ممالک کسی ملک میں اپنے مفاد تب ہی تلاش کر پاتے ہیں جب اس ملک کے اندرونی حالات خرابی کا شکار ہوں ! اتنی تمہید باندھنے کا مقصد یہ کہ میں ابھی پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی پر جو بات کرنے جا رہا ہوں، اس میں ہمارا بحثیت قوم کتنا کردار ہے اور اس کے علاوہ ایسے کون کون سے فیکٹر ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ملک میں انتہاپسندی مذہبی اور لبرل طبقے میں گھر کر گئی!
مفادات کا پس منظر!
پاکستان بنتے ہی اسے سب سے پہلا زخم کشمیر کا لگا جب انڈیا نے کشمیر میں اپنی فوج داخل کر دی! 1971ء میں ایک اور زخم بنگلہ دیش کی صورت میں لگا جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر پولیٹیکل اور اقتصادی زوال شروع ہوا اور ریاستی اداروں کی افادیت عوامی سطح پر ڈگمگانے لگی. کچھ ہی عرصۂ بعد سوویت افغان جنگ کا محاذ کھل گیا اور سوویت یونین کو افغانستان میں ہی روکنے کے لیے ریاستی ادارے سوچ بچار میں پڑ گئے، دوسرے ممالک نے بھی اپنا پوائنٹ آف انٹرسٹ تلاش کر لیا، امریکہ اس میں سرفہرست تھا. پاکستان جہاں افغان مزاحمت کو جہاں ریاستی سطح پر سپورٹ کیا، وہیں پاکستان سے انفرادی و تنظیمی قوت کو بھی تیار کیا گیا. اور اس انفرادی قوت کا حصول مذہبی طبقوں سے لیا گیا. لال مسجد جیسی مساجد اس وقت مجاہد بھرتی کرنے کے لیے استعمال ہوتی رہیں اور ان کو مغرب اور امریکہ میں فریڈم فائٹر، مجاہدین جیسے لقب سے نوازا گیا. سنی مجاہدین کو پاکستان، سعودی عرب، امریکہ اور اتحادی سپورٹ کرتے تھے جبکہ شیعہ دھڑوں کو ایران اور اتحادیوں کی سپورٹ حاصل تھی. سوویت یونین کی افغانستان میں شکست بعد ان دھڑوں کو اسلحہ سے لیس اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا، امریکہ عمیت عالمی برادری اور اتحادیوں نے آنکھیں پھیر لیں.
افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی ہوئی تو کشمیر نیا محاذ تھا، مجاہدین نے جس کا رخ کیا، حکومت و ریاست کی افغانستان جیسی اعلانیہ سپورٹ اور پالیسی تو یہاں میسر نہیں تھی مگر کسی نہ کسی سطح پر تائید و رضامندی اس میں شامل تھی، قوم نے یہاں بھی نہ صرف ساتھ دیا بلکہ شہروں سے گاؤں تک چندے بھی جمع ہوئے، اور پھر جو تنظیمیں سامنے آئیں، ان میں ہر وہ نوجوان شامل ہوا جو اپنے کشمیری بھائیوں بہنوں کے لیے دلی درد رکھتا تھا! مذہبی رجحان رکھنے والے نوجوان اس میں نمایاں اور آگے تھے. اس وقت ہمارے لبرل طبقے کے نوجوان دوسری قوموں کو نقالی کرنا سیکھ رہے تھے. بہرحال یہ تنظیمیں انڈیا کے مدمقابل ایک مزاحمتی فورس کی صورت میں سامنے آئیں، اس کی 7 لاکھ فوج کو وہاں انگیج کر لیا.
( جاری ہے )
دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں