ہوم << پاکستان کو تقسیم کرنے کی سازش شروع(قسط اول)-ضیاء شاہد

پاکستان کو تقسیم کرنے کی سازش شروع(قسط اول)-ضیاء شاہد

nterf
گزشتہ دِنوں سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان عرف باچا خان یا بادشاہ خاں کے پوتے خان عبدالولی خان کے بیٹے جناب اسفند یار ولی نے اعلان کیا کہ وہ افغانی پیدا ہوئے، افغانی ہیں اور افغانی رہیں گے، اِس سے پہلے بلوچی گاندھی جناب عبدالصمد اچکزئی کے صاحبزادے اور قومی اسمبلی کے رکن جناب محمود اچکزئی یہ فرما چکے ہیں کہ ”کے پی“ کے (جس کا سابقہ نام صوبہ سرحد تھا) افغانستان کا حصہ ہے، اُدھر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بار بار بھارتی خفیہ ایجنسی” را“ سے حکومت پاکستان کے خلاف مدد کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ہمارے نمائندے نے انٹرویو بھیجا ہے جس میں لندن میں مقیم خان آف قلات نے ہندوستان ٹائمز کو انٹرویو دیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی کو بلوچستان کی آزادی کے لئے مدد کرنی چاہئے
اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ضرورت پڑی تو اسرائیل سے بھی مدد لیں گے اور یہ بھی فرمایا کہ اگر چین کی گوادر تک اقتصادی راہداری بن گئی تو چین اور پاکستان کا بھارت کے گرد گھیرا تنگ ہو جائے گا لہٰذا بھارت کو بلوچستان کی مدد کرنی چاہئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کو اتنے برس گزر چکے، پہلے نسل اور زبان کی بنیاد پر مشرقی پاکستان الگ ہوا، اَب موجودہ پاکستان کے کونے کونے سے وطن دشمن اور بھارت کے ایجنٹ اپنے اپنے علاقوں کو آزادی دِلانے کے لئے دو قومی نظریے کے خلاف نسل اور زبان کی بنیاد پر الگ ریاستوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں۔ اِن کا پس منظر کیا ہے اور انہیں بھارت کی خفیہ ایجنسی”را“ کی امداد کیوں حاصل ہے۔ اس موضوع پر ہم یہ قسط وار سلسلہ مضامین شروع کر رہے ہیں۔ آیئے دیکھیں باری باری اِن نام نہاد لیڈروں کے پس منظر سے واقفیت حاصل کریں۔
عبدالغفار خان عرف باچا خان نے کم و بیش ایک صدی قبل سابقہ صوبہ سرحد (موجودہ ”کے پی کے“) میں خدائی خدمت گار تحریک کی بنیاد رکھی، باچا خان، خان عبدالولی خان کے والد اور اسفند یار ولی کے دادا تھے، ان کا تعلق عثمان زئی قبیلے سے تھا اور عام طور پر وہ انگریز کے خلاف جدوجہد آزادی کے حوالے سے مشہور ہیں تاہم یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ غفار خاں برصغیر کی تقسیم کے مخالف، پاکستان کے نظریئے کے دشمن اور کانگرس اور گاندھی سے بہت قریب تھے۔ چنانچہ قیام پاکستان سے قبل ہی اُنہیں ”سرحدی گاندھی“ اور محمود اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی کو ”بلوچی گاندھی“ کہا جاتا تھا، عبدالصمد اچکزئی بھی قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ غفار خان پختونستان کے قیام کے حامی تھے، اُن کے بھائی عبدالقدیر خان انگریز کے وظیفہ خوار تھے جو اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے، یہ حقیقت بہت دلچسپ ہے کہ غفار خان زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکے اِس لئے اُنہوں نے مدرسہ بنا لیا۔
یہاں اِس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ خیال کچھ درست نہیں کہ یہ خاندان انگریزوں کا شروع سے دشمن تھا کیونکہ غفار خان کے والد بہرام خان نے انگریزوں کے لئے ”غدر“ جسے ہم ”جنگ آزادی“ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور جو 1857ءمیں ہوا، انگریزی افواج کے لئے شاندار خدمات انجام دیں۔ جس کے بدلے میں انگریز نے اُنہیں دھڑا دھڑ زمینیں عطا کیں، غفار خان کا خاندان آج تک اُنہی زمینوں پر قابض چلا آ رہا ہے۔
غفار خان نے ”اصلاحِ افغان سوسائٹی“ بنائی اور ”پشتون اسمبلی“ کے قیام کے لئے جدوجہد کی اور اس سلسلے میں جیل بھی گئے اُن کے والد بہرام خان کا 1920ءمیں انتقال ہوا، خاندان کے افراد کے مطابق اُنہیں 1857ءکے واقعات یاد تھے کیونکہ اُن دِنوں وہ نوجوان تھے۔
1945ءمیں خان غازی قابلی نے ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا ”تحریک خدائی خدمت گار‘’ اُسے نرائن دت سیگل اینڈ سنز نے چھاپا تھا، خان غازی نے اس کتاب کی تیاری کے لئے سرحد کا دورہ بھی کیا اور بہت سے لوگوں سے غفار خان سمیت ملے، وہ کتاب کے صفحہ 14 پر لکھتے ہیں۔
”خان عبدالغفار خان کے والد بہرام خان کو انگریزوں نے سینکڑوں ایکڑ زمین دے کر جاگیر دار بنایا علاقے کے انگریز افسران اُنہیں چچا کہتے تھے بہرام خان اور اُن کے لوگوں نے 1857ءکے غدر کو ناکام بنانے میں انگریزوں کی بہت مدد کی۔“
اِس واقعے کی تصدیق ایک اور مصنف ڈاکٹرشیر بہادر خان نے اپنی کتاب ”دیدہ و شنیدہ“ میں بھی کی ہے جسے ”دارالشفا ایبٹ آباد“ نے چھاپا ہے۔ بھارتی اخبار ”ہندوستان ٹائمز“ یکم جنوری 1986ءکو لکھتا ہے:
”خان عبدالغفار خان کے والد بہرام خان اپنے گاﺅں کے مکھیا تھے یعنی نمبردار، 1857ءکی جنگ آزادی میں حریت پسندوں کے خلاف انگریزوں کو مدد دی اور اس کے بدلے میں بہرام خان نے بھاری جاگیر حاصل کی۔“
ان اقتباسات سے ثابت ہوتا ہے کہ ولی خان کا خاندان انگریز کا پروردہ تھا اور غفار خان کے باپ کو انگریز نے جاگیردار بنایا تھا۔ ولی خان کے تایا یعنی غفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی بیوی انگریز تھیں اور اُن کے بچے بھی انگلستان میں پڑھتے تھے، انگریزوں سے اُن کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ ڈاکٹر خان صاحب کی بیوی اور بچے کے لئے انگریز حکومت خصوصی وظیفہ دیتی تھی۔ انگریز حکومت کی سرکاری خط و کتابت سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔
”جب ایک افسر نے اس رقم کے بارے میں سوال کیا تو مسٹر ہیلمٹ نے سیکرٹری سرحد حکومت کو لکھا کہ یہ رقم ڈاکٹر خان صاحب کی بیوی اور بچے کے لئے انگریزوں کی طرف سے دی جا رہی ہے۔“
واضح رہے کہ ڈاکٹر خان صاحب کا نام خان عبدالجبار خان تھا گویا یہ بات واضح ہے کہ ولی خان کے دادا بہرام خان نے زمین انگریزوں سے 1857ءکی جنگ آزادی میں حریت پسندوں کی مخالفت اور انگریز سرکار کی حمایت کے بدلے حاصل کی اور غفار خان صاحب کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب انگریزی حکومت سے خطاب یافتہ بھی تھے اور اُن کی بیوی اور بچوں کو برطانوی ہند کی مرکزی حکومت سے خصوصی وظیفے کے طور پر بھاری رقم ملتی تھی۔
غفار خان گاندھی کے فلسفے کے پرچارک تھے، انہوں نے 1929ءمیں گاندھی جی سے ملاقات کی۔ غفار خان کی آپ بیتی میں اس ملاقات کا ذکر موجود ہے۔ کانگرس نے 1931ءمیں غفار خان کو صدارت کی پیش کش بھی کی لیکن غفار خان نے یہ کہہ کر معذرت کی کہ سرحد میں میرا کام ”خدائی خدمتگار“ تنظیم کو منظم کرنا ہے جو پختونوں کی آزاد ریاست کے لئے کام کر رہی ہے تاہم اُنہیں کانگرس کی ورکنگ کمیٹی کا ممبر ضرور بنایا گیا۔

غفار خان اگرچہ دینی مدرسے کے بانی تھے لیکن خیالات کے اعتبار سے انتہائی آزاد خیال تھے اور مذہب پر اُن کا یقین بھی کچھ زیادہ مضبوط نہ تھا جس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ جب اُن کی بھتیجی کی سکھ نوجوان جسونت سنگھ سے شادی کا مسئلہ کھڑا ہوا جو ڈاکٹر خان صاحب کی انگریز بیوی سے پیدا ہوئی تھی تو غفار خان نے کھل کر اس کی حمایت کی۔ یہ 1942ءکا ذکر ہے ڈاکٹر خان صاحب کی بیٹی کا نام مریم تھا، مفتی مدر اراللہ مدرار جو جمعیت علمائے اسلام صوبہ سرحد کے سابق سیکرٹری تھے جنہوں نے بعد ازاں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ اپنی کتاب ”خان عبدالغفار خان، سیاست اور عقائد“ میں اس واقعے کے بارے میں تفصیل سے لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر خان صاحب نے مریم کی جسونت سنگھ سے شادی کے بارے میں کہا تھا ”میرا آشیرباد مریم کے ساتھ ہے جس نے اپنی پسند سے شادی کی ہے۔“ اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر ہَے کہ ڈاکٹر خان صاحب کے بیٹے نے ایک غیر مسلم پارسی لڑکی صوفیہ سے بیاہ رچایا۔
(جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ خبریں

Comments

Click here to post a comment