گاڑی کینٹ کے علاقے سے گزر رہی ہے، شہداء کی تصاویر اور قومی پرچم نے ہر چوک میں ایک سماں سا با ندھ رکھا ہے، آرمی گراؤنڈ کے چاروں اطراف پہ سجاوٹ ہو رہی ہے، تقریب کی تیاریاں جاری ہیں۔
لبِ سڑک ایک بورڈ آویزاں ہے جس کا کیپشن ہے”آج کا شہید“ روز اس پر چہرہ بدل جاتا ہے لیکن عزم، ہمت، حوصلہ اور قربانی کی ترجمان ایک زندہ و جاوید اور جواں مسکراہٹ ہر چہرے پر یکساں ہوتی ہے۔ جسم مٹی کے سپرد ہو جاتا ہے، روح ابدی منزل کے طرف رواں ہو جاتی ہے، ان کا لہو بہت سوں کی رگوں میں دوڑنے لگتا ہے اور وہ امر ہو جاتے ہیں۔ حیات اسے ہی کہتے ہیں۔
گاڑی کچھ اور آگے بڑھ چکی ہے، یہاں چھاؤنی کی حدود ختم ہو رہی ہیں، چوراہے پہ ایک بڑی سکرین لگائی گئی ہے اس پر کارگل پر ایک فلم چل رہی ہے، بہت سے نوجوان اپنی سواریاں ایک طرف کھڑی کر کے جذب کے عالم میں یہ ڈاکومنٹری دیکھنے میں محو ہیں۔ ذرا آگے ملٹری ہسپتال سے ملحقہ باہر کے میدان میں ایک جنگی طیارے کا ماڈل کھڑا ہے۔
مجھے کم و بیش تیس سال پہلے کا ایک منظر نظر آنے لگا ہے، ملتان کا آرمی گراؤنڈ ہے، چار بچے اپنے امی ابو کی انگلی تھامے بےقرار نگاہیں آسمان کی جانب اُ ٹھائے کھڑے ہیں، یہاں صرف وہی نہیں سینکڑوں کی تعداد میں بچے بوڑھے اور جوان اس گراؤنڈ میں سر اوپر اُ ٹھائے منتظر ہیں، ان کے چہرے دمک رہے ہیں، وہ آج کسی خاص دن کی یاد میں خاص مقصد لیے آئے ہیں، یکایک فضا جنگی طیاروں کی گونج سے لرز اُٹھتی ہے، ہر طرف اللہ اکبر کے نعرے ہیں، تالیوں کا شور ہے، جنگی طیارے قلابازیاں کھاتے کرتب دکھاتے پل میں اوپر اور پل میں نیچے آتے نگاہوں سے اوجھل ہو گئے ہیں، سارے ہجوم کے ساتھ وہ چاروں بچے بھی ابھی تک ٹرانس میں ہیں، دل کی خواہش ہے کہ پھر یہ نظارہ دیکھیں
”پورا لاہور اپنے گھر کی چھتوں پہ کھڑا نعرہ تکبیر لگا رہا تھا، ریڈیو سے مساجد سے بار بار اعلان کیا جا رہا تھا کہ اپنے گھروں کی محفوظ جگہوں پہ چلے جائیں، دشمن کے طیارے کسی بھی وقت حملہ آور ہو سکتے ہیں لیکن پاکستانی عوام ہر ڈر سے بے نیاز تھی، پھر ایم ایم عالم نے وہ کر دکھایا جو کسی کے گمان میں نہ تھا“.
وہ چاروں بچے امی ابو سے یہ باتیں سنتے ہوئے ولولہ تازہ لیے گھر لوٹ آتے ہیں۔
اللہ اکبر اللہ اکبر
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقتِ شہادت ہے آیا
اللہ اکبر
یہ ترانہ فل والیوم میں سنائی دے رہا ہے
ساتھیو ! دفاع تو جاری ہے۔
یہ صرف ستمبر کی کہانی نہیں روز کی کہانی ہے
ہماری بارڈر لائنز ہماری راہ تک رہی ہیں۔
کئی مورچے اور بے شمار محاذ ہیں.
عزیز بھٹی شہید جیسے جواں سالوں اور جواں جذبوں کی منتظر ہماری نظریاتی اور جغرافیائی سرحدیں۔
خود سے سوال کریں کہ کون کہاں کس محاذ پر دشمن کی یلغار کو روک سکتا ہے؟
کون کہاں کس مورچے پر وطن کا دفاع کرے گا؟
دشمن ہماری ہر صف میں گھس چکا ہے،
تعلیم، تہذیب، ثقافت، اقدار و روایات، سیاست، میڈیا،
آپ کہاں کیا کریں گے؟ کیا کر سکتے ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ اگر اب تک نہ ہو سکا تو آئیے
اس سفر کا آغاز اپنی ذات سے کرتے ہیں۔
اس پاک دھرتی کو دشمن کے حوالے نہ کریں۔
ہمیں اپنے دشمن کو پہچاننا ہے ،
لا الہ الااللہ کے سلوگن کو پھر سے زندہ کرنا ہے۔
نوجوان نسل کو سراب سے نکالنا ہے،
ان کے یر غمال بنائے گئے ذہن و قلب کو اللہ، رسول صلی علی وسلم اور ملک و ملت کی محبتوں سے زندگی کی جانب لانا ہے۔
آئو آج کے دن عہد کریں کہ ہم اس دھرتی پہ بہنے والے خون کو رائیگاں نہ جانے دیں گے.
ہم دفاع کریں گے، اپنی ذات سے لے کر اپنے اس گھر کی چار دیواری تک ہم دشمن کو مات دیں گے۔ ان شاء اللہ۔
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
ترے بیٹے ترے جانباز چلے آتے ہیں
تری بنیاد میں ہے لاکھوں شہیدوں کا لہو
ہم تجھے گنج دو عالم سے گراں پاتے ہیں
تبصرہ لکھیے