ضروری نہیں کہ سائنس ہی آپ کو بتائے کہ انسان اور مٹی کا ڈی این اے ایک ہے. کچھ لوگوں کے رویے آپ کا ایسا حال کرتے ہیں کہ ایمان تازہ ہو جاتا ہے کہ واقعی انسان بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے. تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت انسان ہر تقریب کا مزہ کسی نہ کسی صورت کرکرا فرماتے ہیں، یہ کرکراپن بھی مٹی ہی کی صلاحیت ہے.
مزید برآں جس ڈگر پر قدم رنجا فرماتے ہیں الفاظ اور لہجے کی وہ دھول اڑاتے ہیں کہ گویا بلندی پر براجمان مٹی کا بےمہار تودا پستی کو چھونے کی تمنا میں بے تاب، کھاتا ہوا پیچ و تاب، لڑھک پڑا ہو اور سامنے والے کی مٹی پلید کے علاوہ اس کا نظام تنفس تک اس گرد میں اٹ کر چوک ہو کر رہ جائے، وہ تو اللہ کے فضل سے آنسوؤں کی بروقت برسات اس بگولے پر برس کر مطلع صاف کرنے کا از خود نوٹس لے لیتی ہے ورنہ اگلا مٹی کا مادھو اس سنگریزی کی لپیٹ میں آکر خاک ہی ہو کر رہ جائے.
لیکن ایک قابل غور بات یہ ہے کہ جب آندھی کے جھکڑ چلیں تو آپ کی خیر اور عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ منہ آنکھ کان سب کو نہ صرف بند رکھا جائے بلکہ خوب اچھے سے لپیٹ لیا جائے (برا نہ سنو نہ دیکھو نہ بولو)۔ اور جب آندھی تھم جائے تو بغیر اسے کوسے تمام گرد کی جھاڑ پونچھ دھلائی کر لی جائے (رات گئی بات گئی). بھلا جن علاقوں میں کثرت سے آندھیاں چلتی ہیں، وہاں رہنے والے قدرت کے اس نظام سے لڑتے تو نہیں اور نہ ہی خود کو علاقہ بدر کر لیتے ہیں بلکہ وہ احتیاط سے کام لیتے ہوئے آندھی کی زد میں آنے والی چیزوں کو بحفاظت رکھتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بات بخوبی جان لیتے ہیں کہ اس علاقے میں پیدا ہونے والے پھلوں کی نشوونما کے لیے قدرت کی طرف سے موسم کا یہی تغیر بارآور ہے.
مانا کہ مٹی کی ایک قسم گارا ہے.
تو کیا اس سے کسی صورت چھٹکارا ہے؟
ہر شے میں قدرت نے رکھا کچھ فائدہ کچھ خسارہ ہے.
بس کس طرح اسے کام میں لیں یہ فیصلہ ہمارا ہے.
یہ بات سراسر ہم پر منحصر ہے کہ اس گارے کو ایک ایک اینٹ جوڑ کر گھر بنانے کے کام لے آئیں کیونکہ بہرحال گارا نرم ہوتا ہے اینٹیں نہیں اور جوڑے رکھنے کا کام یہی کر سکتا ہے پانی نہیں، خشک مٹی نہیں خود اینٹیں بھی نہیں، تنہا آپ بھی نہیں، گھر بنانے کے اس عمل میں آپ کے ہاتھ پاؤں سبھی اس گارے میں سنیں گے ضرور لیکن ادھورے کام سے فرار ! یہ تو نادانوں کا ہے شعار، ممکن کیا ہے؟ فقط انتظار.
اور وہ بھی صبر و امید کے ساتھ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں اور کیونکہ رب کے سوا کوئی سہارا نہیں، اسی لیے ساتھ ہی اس دوران دعا بھی جاری رہے کہ جو لیپائی آپ نے کی ہے، اس پر برسات نہ ہو کیونکہ ہر چیز میں خیر و شر موجود ہے تو اس دم کی برسات آپ کے حق میں رحمت کے بجائے انتہائی زحمت ثابت ہو سکتی ہے. ( اپنے گھر کے معاملات میں کسی”دانشمند“ کو مداخلت نہ کرنے دیں) ابھی کسی کا بھی ہاتھ لگے تو گیلی نازک دیواریںگرنے کا ڈر ہے، ابھی تو فقط رحمت کی چھاؤں، محبت کی تپش کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اور یہ عمل مشکل تو ہے پر ناممکن ہرگز نہیں اور دعا نماز اور صبر سے مدد لے لی جائے تو باذن اللہ مشکل بھی جلد ہی آسانی میں بدل جاتی ہے. پھر مزید اہم ترین چیز ہے مثبت مصروفیت، اگر آپ ان گیلی دیواروں کے سوکھنے کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے انتظار کرتے رہے تو وقت طویل ہونے کے ساتھ ہی آنکھیں اور احساس پتھرا کر رہ جائیں گے، جبکہ امید ہے کہ مصروفیت اس تمام کوفت سے بچا لے گی. کتنا تضاد ہے ناں ہماری سوچ میں کہ ہم مشکل کے آسانی میں بدل جانے پر ویسا یقین ہرگز نہیں رکھ پاتے جیسا خود اپنے گناہوں کے مغفرت کی صورت ان کے نیکیوں میں بدل جانے پر۔
تو پھر یقین رکھیں، خود پر نہ سہی، دوسرے پر بھی نہ سہی، لیکن اپنے رب پر جو دن کو رات اور مردہ کو زندہ میں بدلنے سے لے کر ہر چیزپر قادر ہے. رب تعالٰی کسی کی پرخلوص محنت اور صبر کو ضائع نہیں کرتا، جو گارا کل تک ناکارہ تھا وہ سوکھ جانے پر ان شاءاللہ جہاں آپ کی حکمت، محنت، استقامت اور لگن سے بنائے گھر کو قلعہ کی سی مضبوطی اور حصار فراہم کرے گا، وہیں ان شاءاللہ ایسا پاک بھی ہو چکا ہوگا کہ اس مٹی سے تیمم کیا جا سکے۔
تبصرہ لکھیے