’باتونی لڑکی‘ رئیس صدیقی کی بچوں کی کہانیوں پر مبنی تصنیف ہے. رئیس صدیقی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے. چونکہ اکثر وبیشتر ان کی کہانیاں ملک وبیرون ملک کے مقتدر اخبارات ورسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بچوں کی ضروریات کو ذہن میں رکھ کرتخلیق کیا گیا ادب، ادب اطفال یا بچوں کا ادب کہلاتا ہے۔ تقریباً ہر زبان میں اس کی تخلیق ہوئی ہے۔ اردو زبان میں ادبِ اطفال کی جانب جن ادیبوں نے توجہ دی، ان میں رئیس صدیقی کا نام نمایاں ہے۔ اس سے قبل بھی ادب اطفال پر ان کی کئی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں۔ بچے کسی بھی ملک و قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، ان کی بہتر تعلیم وتربیت ہی قوم کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے۔ رئیس صدیقی نے اپنی کتاب میں بچوں کے لیے جو کہانیاں تخلیق کی ہیں، وہ ان کی کمال ہنرمندی ظاہر کرتی ہے۔
بچوں کا ادب ، ادب کی ایک مشکل ترین صنف سمجھی جاتی ہے، کیوں کہ یہ ادب ایک مقصدی ادب ہوتا ہے، اس کے ذریعے بچوں کو مسرت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان میں تخیل کی صلاحیت پیداکرنے، جذبہ اور حوصلہ پروان چڑھانے، مختلف النوع تجربات سے روشناس کرانے، دنیا اور لوگوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے، ان میں ثقافتی و تہذیبی ورثے کو منتقل کرنے اوراخلاقی اوصاف کے نشوونما کی کوشش کی جاتی ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے اس ترقیاتی دور میں بچوں کے ادب پر بہت کم توجہ دی جا رہی ہے، بچوں کا ادب بہت کم تخلیق ہو پارہا ہے، البتہ بچوں کے لیے ادبی رسالے مسلسل شائع ہو رہے ہیں، بھارت میں ’پیام تعلیم‘، ’ہلال‘،’امنگ‘ ،’اچھا ساتھی ‘اور قومی کونسل کا ’’رسالہ بچوں کی دنیا‘‘ اہمیت کے حامل ہیں۔
دور حاضر میں کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائیل، ٹیب پر بچےگیمز کھیلنے میں مشغول ہیں جس سے ان کے اندر چڑچڑاہٹ پیدا ہو رہی ہے۔ ٹکنالوجی کا استعمال ہونا چاہیے، مگر ٹکنالوجی ہم پر حاوی ہو رہی ہے جو کہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ایسے میں والدین کا فریضہ ہونا چاہیے کہ اپنی اولاد کو اردو زبان و ادب سے واقف کروائیں، ساتھ ہی اردو لٹریچر اپنے بچوں کو مطالعہ کے لیے فراہم کریں تاکہ ان کے اخلاق و آداب سنوار سکیں۔ زیرنظر کتاب کو تخلیق کرنے کا مقصد مصنف کے مدنظر بچوں کے ادب کی اہمیت کو اجاگر کرنا ساتھ ہی ان میں اخلاقیات کو فروغ دینا شامل ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ اگر کسی پودے کی ابتدائی نشو و نما کے دوران اس کا مکمل دھیان رکھا جاتا ہے تبھی وہ پھل دار اور تناور درخت کی صورت اختیار کر پاتا ہے، اس لیے اخلاقیات کی نشو نما کے لیے بھی کم عمری میں ہی توجہ دینا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ عہد میں ہمارے اسلاف، بچوں کے لیے ایسے لٹریچر کی فراہمی پر بہت زیادہ توجہ دیا کرتے تھے جو ان کی اخلاقی ترقی کا ضامن بن سکے۔
ادب اطفال پر جہاں ماضی میں مائل خیر آبادی، حفیظ جالندھری، علامہ اقبال اور ماہر القادری جیسے کہنہ مشق ادباء و شعراء نے کام کیا، وہیں دورِ جدید میں رئیس صدیقی اس ضرورت کی تکمیل کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ادب اطفال سے ہماری ادبی دنیا خاصی کمی کا شکار ہے۔ عموماً یہ شکایت کی جاتی ہے کہ ہمارے ادیب حضرات بچوں کا ادب تخلیق کرنے کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے اور پرانی کتابوں میں الف لیلیٰ کے قصے، سند باد جہازی اور ابن بطوطہ کے سفرنامے اور شیخ چلی کے واقعات کے علاوہ عہد وسطیٰ میں کوئی ایسی کتاب معرض وجود میں نہیں آئی جو بچوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہو۔ غرضیکہ بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے کی طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی تھی۔ مگر قابل مبارکباد ہیں ادب اطفال کے معمار رئیس صدیقی صاحب کہ انہوں نے اس طرف توجہ کی اور متواتر طور پر بچوں کے لیے گلشن ادب کی آبیاری میں خود کو وقف کر دیا اور ان کے زرخیز ذہن نے 52 کہانیوں پر مشتمل ایک کتاب کو تخلیق کیا جو نصیحت آموز کہانیوں سے پر ہے، بلکہ بچوں میں اچھے اخلاق، راست گوئی، محنت و لگن، ایمانداری و خود اعتمادی اور بری عادتوں سے اجتناب جیسی اچھی صفات سے بچوں کو متعارف کرنے کے لیے کہانیوں اور واقعات کا سہارا لیا گیا ہے، کیونکہ بچوں کا ذہن اسے جلدی قبول کرتا ہے اور اسے دیر تک محفوظ رکھتا ہے۔
رئیس صدیقی نے بچوں کے ذوق وشوق کا خیال کرتے ہوئے ان کی دلچسپی کا سامان فراہم کیا ہے۔ اپنی کہانیوں کے ذریعے انھوں نے بچوں کومختلف میدانوں سے آشناکرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ بچوں کا ادب تخلیق کرنامشکل مرحلہ ہوتا ہے، کیونکہ اس کے لیے جہاں بچوں کی نفسیات، رجحانات، اور معاشرت وماحول کا دقیق علم درکار ہے، وہیں ان تمام چیزوں کو بچوں کی سطح پر اتر کر بیان کرنے کا اور سمجھانے کا فن بھی نہایت ضروری ہے، جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔کتاب کا نام بھی ان کی ایک کہانی ’باتونی لڑکی‘ کا عنوان ہے۔ کتاب میں شامل کہانیوں کے ذریعے بچوں کو جہاں کائنات کی نئی جہات سے واقفیت حاصل ہوگی، وہیں ان کے اندر ملکی اور قومی خدمت کا جذبہ بھی پروان چڑھے گا۔اس کتاب کی ہر کہانی آخر میں پڑھنے والے کو ایک پیغام دیتی ہے اور تخلیق کار کا اسلوب اور طرز تحریر بھی بڑا شائستہ، شگفتہ اور شستہ ہے۔کتاب میں شامل سبھی کہانیاں سبق آموز ہیں۔ توقع ہے کہ رئیس صدیقی کی دیگر تصانیف کی طرح اسے بھی عام قبولیت ملے گی۔
نام کتاب: باتونی لڑکی
ناشرومصنف: رئیس صدیقی
ضخامت: 144 صفحات
قیمت: 150روپے
ملنے کاپتہ: مکتبہ جامعہ لمٹیڈ، اردوبازار جامع مسجد، دہلی
تبصرہ نگار: محمد جسیم الدین، نئی دہلی
تبصرہ لکھیے