ہوم << ذرا پاکستان تک - حافظ یوسف سراج

ذرا پاکستان تک - حافظ یوسف سراج

یوسف سراج بچپن حرف و لفظ کے کھلونوں سے بہلایا اور لڑکپن زمین پر ننگے پاؤں کھڑے ہو کر آسمانِ صحافت کے ستاروں اور کہکشاؤں کو تکتے کاٹا۔ ایک تحریکی کمیونٹی کے ہفت روزہ کی کالم نگاری اور پھر اسی کے ادارتی صفحے کی ذمے داری بھی نبھائی، چنانچہ اب تو اپنے پاؤں کے بجائے پرائے کندھوں پراورگرد آلود عینکوں کی اوٹ سے ہی سہی، نوے سالہ بابوں کے بیت اللہ دیکھنے کی آخری خواہش کی طرح اس عاجز کی بھی بس کالم نگار بن کر مرنے کی خواہش ہی باقی رہ گئی تھی ؎
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
کالمی صفحے تک دراندازی کی کہانی بھی بڑی سادہ ہے۔ احسان صاحب ہمارے ہفت روزہ کے پیج میکر تھے۔ یہ پہلے ’پاکستان‘ میں تھے اور اب صحافت کی ’نئی بات ‘میں ہوتے تھے۔ بارہا ان سے گزارش کی کہ کوئی مناسب سا ہومیو پیتھک کالم لے جائیں اور کہیں ہمارا بھی عقدِ اولیں کروا ڈالیں، یعنی کہیں بھی! ان قریب البزرگی شادی کو ترسے تہمت بر جوانی نوجوانوں کی طرح، جو تھک تھکا کے شادی کروانے والی اماں کو بیزار لہجے میں کہتے ہیں کہ ’’اماں جی ! لڑکی ہو، زندہ ہو اور بس!‘‘ احسان صاحب ہفتے کے ہفتے آتے اور بس یہی ایک بات بھول جاتے۔ پھر ایک دن جانے انھیں یا براہِ راست اللہ ہی کو ہم پر ترس آیا۔ یہ کالم لے گئے اور وہ چھپ بھی گیا۔ یعنی عاقبت سنور گئی۔ ان دنوں ویسے بھی ’نئی بات ‘سمجھ کے شاید کالم نگار اس اخبار سے بدکتے تھے۔ اور ادھر اپنا یہ عالم تھاکہ ؎
پھرتے ہیں حشر میں تیرے داد خواہ خراب
تو پوچھتا نہیں تو کوئی پوچھتا نہیں
خیر ایسی محنت اور اس باقاعدگی سے لکھا کہ گویاایک بھی ناغہ ہو گیا تو، یا تو اہل ِصحافت ہماری کالم نگاری مشکوک قرار دے کرکوچۂ صحافت ہی سے عاق کر ڈالیں گے یا پھر عین ممکن ہے کہ اخبار ہی کا بھٹہ بیٹھ جائے۔ آخر نیا نیا ہی تو نکلا تھا۔ یہاں تو بعض دفعہ کسی چھوٹی سی حرکت پر بڑے بڑوں کی حرکت قلب بیٹھ جاتی ہے، اس میں تو پھر ایک کالم کے ناغے کی تاریخی و ناقابلِ تلافی وجہ ہوتی۔ خیال یہ بھی تھا کہ چونکہ اب باتصویر کالم نگار تو بن ہی گئے ہیں چنانچہ عطا صاحب کی صحافت و ادارت کا تو خیر اخلاقا، قانونا اور احتیاطا عین فرض ِاولیں ہی ہماری تشہیر و فلاح کے لیے اپنی جملہ صلاحتیں وقف فرما دینا ٹھہرا، کہ آخر ان کے اخبار کی بندش کو ہم ہی تو پھولے سانس سے کالم پر کالم لکھ لکھ کر ٹالے جاتے تھے۔ علاوہ ان کے لاکھانی صاحب، مجیب الرحمٰن شامی صاحب اور مرحوم نظامی صاحب (کہ اس وقت جناب مرحوم نہ تھے، قریب المرحوم تھے) کا خیرسگالی و معاملہ بندی کا فون اب آیا کہ اب آیا، چلیے میر شکیل الرحمٰن صاحب کا ذرا دیر سے سہی کہ مان لیجیے ذرا بڑا اخبار ہے ،اور پھرکراچی میں رہ کے ہماری نسبت وہ اہلِ زبان بھی ہیں، اور اہل ِ زبان کے بارے حفیظ غیر تائب نے بتا رکھا ہے کہ اہلِ زر کی طرح یہ بھی کب مانتے ہیں، اور پھر ویسے بھی لاہور کی نسبت کراچی سے فون کو آتے کچھ وقت تو لگتا ہی ہے نا۔ ویسے اتنی تو امید ہے، آپ بھی سمجھ دار ہی ہوں گے۔ خیر الحمدللہ پہلی ہی بارش میں امیدوں کے اس شجر سے بھی غلط فہمیوں کی ساری گرد دھل گئی ؎
مجھ کو معلوم ہے انجام اپنی کٹیا کا
زندگی اس کی بھی برسات کے آنے تک ہے
ممکن ہے حفیظ صاحب کے دور میں صحافت کا یا قلم کا یا شاعر کا کچھ زور شور چل چلا جاتا ہو یا عین ممکن ہے یہ محض ان کی اجتہادی و فقہی غلطی ہواور بس ۔القصہ، پلان بی کے تحت اب آ جا کے اہل صحافت کی اک پذیرائی کی موہوم سی امید بچی تھی، سو تھی۔ آہ مگر جلد ہی اس مسلک کی بےنیازی کا عالم بھی جدا دیکھ لیا، یہاں بھی بفضل اللہ یہ جانا کہ عام قارئین کے برعکس ان کے ہاں سے فیڈ بیک آنے کا مروجہ انحصار بھی پی آر شپ یعنی ذاتی روابط پر اور ادھر اپنا یہ عالم کہ
اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا!
لیکن پھر یوں ہوا کہ جس طرح بغیر کسی خاص جرم اور تیاری کے اُس بااختیار و خود مختار قوتِ قاہرہ نے اس بےسروساماں کو بحرِصحافت میں دھکا دینا منظور فرما لیا تھا، عین اسی طرح قدرت کاملہ والے رب نے انا کی عظمت اور مصروفیت کی چوٹی پر فائز لوگوں کی خورد نوازی اور اعلیٰ ظرفی کے ذریعے سے اپنی قدرت کے ظہور کابھی منصوبہ مرتب فرما لیا۔ اس خدائی منصوبے کے تحت جن شخصیات کو اپنا معمول چھوڑ کے یہ غیرمعمولی کام سرانجام دیناپڑا، ان میں حافظ شفیق الرحمٰن اور عطا الرحمٰن صاحبان کے علاوہ ڈاکٹر امجد ثاقب، افتخار مجاز، حسن نثار کے استاد اور کالم نگار ابرار بھٹی، عامر ہاشم خاکوانی، سعدا للہ شاہ، مزاح نگار گلِ نوخیز اختر اور ناصر ملک صاحبان کے نام نمایاں ہیں۔ اللہ ان سب کو اس سلسلے کی مزید پکڑ سے چھوٹ دے۔ ورلڈ کالمسٹ کلب کے رکن ِ رکین اور کالم نگارِ دل نشیں عبدالستار اعوان صاحب ایک سرکاری ادارے میں ہوتے ہیں۔ ایک دن فون پر فرمانے لگے کہ آج ان کے ادارے کے آفیسر نے ان سے خصوصا اس عاجز کے حج پر لکھے تمام کالم یکمشت مانگ لیے ہیں۔ اب جہاں سیاست میں کاغذاتِ نامزدگی کے وقت علاوہ زرِضمانت کے ایک دو لوگوں کی تائید سے آدمی ٹی وی پر اپنی ہار کا اعلان کروانے کا مستحق سمجھا جائے، وہاں خدائی نظام کے تسلط میں آئے اتنے جید لوگوں کی ضمانت کیا ہمارے کالم کی گاڑی کو رواں نہیں کر سکتی؟ کر سکتی تھی یا نہیں ہم نے مگر اسے رواں رکھا۔
جہاں تک کالم کے عنوان ’ذرا پاکستان تک‘ کی بات ہے تو اس سلسلے میں ہمارا فرض بات کو کھینچ تان کے شامی صاحب تک لے آنا ہے، آگے وہ پاکستان کے مالک، وہ جانیں اور ان کا پاکستان جانے۔ سب سے پہلے تو فنِ خطاطی کے منحرف اور مجتہد استاد رشید قمر کے ہاتھ سے لکھی پیشانی ’پاکستان ‘ نے ہمیں پاکستان کی طرف متوجہ کیا۔ شامی صاحب سے پہلی باقاعدہ بات ٹیلی فونک تھی اور یہ آنجناب کی نورِ نظر سویرا شامی صاحبہ کی شادی کے موقع پر تھی۔ شادی کارڈ کسی اور کاتب سے کتابت کروا کے قومی پریس پر چھپے تھے اور متداول کاتب نے اس پر ازراہِ غصہ ایک مذہبی نکتۂ اعتراض تلا ش کرکے سارے کارڈ شامی صاحب کی ایک جنبش لب سے مسترد کروا دیے تھے۔ اب مسئلہ اس پراجیکٹ کے ذمے دار کو تھا کہ گو خرچہ تو شامی صاحب کا ہی ہوتا، پر محنت انھیں پھر کرنا پڑتی۔ کسی طرح اس کی یہ بپتا اس عاجز تک پہنچی۔ چنانچہ فون ملاتے ہی عرض کی: شامی صاحب آپ کے ذوق جمال کا حسین مظہر شادی کارڈ اس وقت میرے ہاتھوں میں ہے۔ باقی کام آسان ثابت ہوا، مختصراً شامی صاحب کے پیسے اور ان صاحب کی محنت بچانے کا سہرا اس خاکسار کے سر بندھا۔ دوسری قدرے تفصیلی ملاقات سروسز کلب میں امجد ثاقب صاحب کی دعوت میں ہوئی۔ تقریب لیٹ تھی اور شامی صاحب کے قرب سے فائدہ اٹھاتا یہ شخص تھا۔ الحمدللہ یہیں اس خاکسار کا فون نمبر آنجناب کے قیمتی موبائل میں جا کے مزید قیمتی ہو گیا۔ لیجیے ناظرین ، آپ کو مرعوب و متاثر کرنے کے لیے جتنی پونجی پاس تھی۔ اس سے زیادہ لگا کے میں اپنا تماشا بنا چکا۔ اللہ کرے آپ تھوڑ ے کو بہت سمجھیں۔ اس سے زیادہ جھوٹ بولنا اور پاؤں پسارنا ویسے بھی ممکن نہیں۔آخر اس سے زیادہ کوئی شریف کالم نگار حیلوں بہانوں سے کس حد تک اپنی انا اور ایگو کی رہنمائی، خود ستائی اور خود نمائی کر سکتا ہے۔ اس سے زیادہ کی تو شاید شامی صاحب بھی اجازت نہیں دیں گے۔ ملتے ہیں باقاعدہ کالم پر ۔ان شااللہ!

ٹیگز