ہوم << افسر امروہوی کی وفات - شاہ اجمل فاروق ندوی

افسر امروہوی کی وفات - شاہ اجمل فاروق ندوی

اجمل فاروق ندوی 31 مارچ 2016ء کو اس خبر نے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ عہد حاضر کے عظیم شاعر اور البیلے نعت گو مرزا افسر حسن بیگ افسر امروہوی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ وہ 9؍ مئی 1942 کو پیدا ہوئے تھے۔ اس طرح انھوں نے تقریباً 74 سال اس دنیا میں گزارے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کی وفات پر علماء جمع ہوئے اور پیشہ ور غسل دلانے والوں سے غسل دلوانے کے بجائے خود غسل دیا۔ غسل سے فارغ ہوئے توایک عالم نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا : ابو حنیفہ! اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ رسول کریم ﷺ نے اس دنیا کو چھوڑا تو علم میں عبداللہ ابن مسعود ؓ ان کے جانشین ہوئے۔ ابن مسعود نے دنیا کو چھوڑا تو ان کے جانشین ہوئے علقمہ۔ علقمہ نے دنیا کو چھوڑا تو ان کے جانشین ہوئے ابراہیم نخعی۔ ابراہیم نخعی نے دنیا کو چھوڑا تو ان کے جانشین ہوئے حماد۔ حماد نے دنیا کو چھوڑا تو آپ ان کے جانشین ہوئے۔ لیکن آپ اس حال میں دنیا کو چھوڑ کر جا رہے ہیں کہ آپ کا کوئی حقیقی جانشین نہیں۔ ہم پوری ذمے داری کے ساتھ یہ بات افسر امروہوی کے لیے بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’حضرت افسر! آپ دنیائے نعت کو اس حال میں چھوڑ کر گئے ہیں کہ آپ کا کوئی جانشین اور کوئی ثانی نہیں ۔‘‘
افسر امروہوی کی شخصیت کے دو پہلو بہت ممتاز تھے۔ ایک ان کی نکتہ سنجی و بذلہ سنجی اور دوسرے ان کی منفرد نعت گوئی۔ ان کی ظرافت اور ذہانت کے دسیوں واقعات امروہے کے خواص و عوام کے حافظے میں تادیر محفوظ رہیں گے۔ ان کی شخصیت میں سنجیدگی کے ساتھ ظرافت، رکھ رکھاؤ کے ساتھ بےتکلفی اس طرح گھلی ملی ہوئی تھی کہ ان سے ایک بار ملنے والا بار بار ملنے کی خواہش کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ ہمارے گھر تشریف لائے۔ میں نے دروازہ کھولا اور بٹھا لیا۔ والد صاحب اوپر تھے۔ ان کو آنے میں چند منٹ لگے۔ اس درمیان افسر صاحب نے میز پر والد صاحب کی دو تین ایسی تصانیف دیکھیں، جو اُن کے پاس نہیں تھیں۔ اس درمیان والد صاحب بھی تشریف لے آئے اور زینے سے اترتے اترتے سلام کرکے خیریت دریافت کی۔ افسر صاحب نے فوراً فرمایا: ’’خیریت ویریت بعد میں، پہلے اِن کتابوں پر میرا نام لکھو۔‘‘ جب تمام کتابوں پر اپنا نام لکھوا کر بیگ میں رکھ لیں، اُس کے بعد ہی دوسری باتیں کیں۔
ایک مرتبہ ہم یومِ صدیق اکبرؓ کے موقع پر امروہے پہنچے۔ دوپہر کا کھانا حضرت سیفی امروہوی کے ہاں کھایا۔ گرمی کا موسم تھا اور سیفی صاحب کے آم کھلانے کا انداز بھی بڑا عجیب تھا۔ کئی قسموں کے آم اپنے پاس رکھتے اور الگ الگ اقسام کا ایک ایک آم کاٹ کر پیش کرتے۔ جب مہمان تین چار قسموں کے آم چکھ لیتا تو اُس سے اُن کے درمیان فرق معلوم کرتے۔ مہمان نوازی کے اس نازک مرحلے سے گزر کر ہم افسر صاحب کے ہاں پہنچے۔ آرام کرنے کو کہا تو ہم نے منع کردیا کہ عصر ہونے میں کچھ دیر ہے۔ بس ملاقات مقصد ہے۔ بات چیت کے آغاز میں جیسے ہی انہیں پتا چلا کہ ہم سیفی صاحب کے ہاں سے آم کھا کر آرہے ہیں تو بڑی سنجیدگی سے بولے: ’’ اوفوہ۔۔۔ پھر تو آپ لوگوں کو آرام کی سخت ضرورت ہے۔‘‘ زبردستی لٹا دیا اور لیٹ کر باتیں کرنے لگے۔ اسی درمیان ہم لوگوں کی آنکھ لگ گئی۔ کچھ دیر سو کر اٹھے تو افسر صاحب مجھے بیت الخلا تک لے گئے اور فرمایا: ’’استنجے سے فارغ ہو جاؤ تو وہاں وضو کرلینا۔‘‘ میں نے کہا کہ استنجے کا تقاضا نہیں ہے۔ مزاحیہ انداز میں آنکھیں دکھا کر بولے: ’’ ارے ! وہ سونا بھی بھلا کوئی سونا ہے، جس کے بعد استنجا نہ کیا جائے۔ استنجا تو سونے کا جز ہے۔‘‘ یہ کہہ کر میرا ہاتھ پکڑ کر بیت الخلا کے اندر کھڑا کر دیا۔‘‘
دو چار سال پہلے امروہے کی کسی محفل میں افسر صاحب نے اپنا کلام سنایا۔ محفل میں شہر کے ایک معزز شیعہ دانشور بھی موجود تھے۔ محفل ختم ہوئی تو انھوں نے افسر صاحب کو کلام کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا: ’’ماشاء اللہ آپ کی شاعری میں اب شیعیت کا رنگ جھلکنے لگا ہے۔‘‘ افسر صاحب نے بے ساختہ فرمایا:’’ ہاں بچپن میں ایک نجومی نے مجھ سے کہا تھا کہ تیرا آخر بہت خراب ہوگا۔‘‘ اس بے ساختہ جواب پر پوری محفل قہقہ زار بن گئی اور یہ واقعہ مہینوں شہر میں موضوع گفتگو بنا رہا۔ افسر امروہوی کی ذہانت اور ظرافت کے ایسے واقعات امروہے والوں سے معلوم کر کے جمع کیے جائیں تو مناسب ضخامت کی ایک دل چسپ کتاب تیار ہوسکتی ہے۔
افسر امروہوی کی شخصیت کا دوسرا تاب ناک پہلو ہے اُن کی منفرد اور بالکل الگ رنگ ڈھنگ کی نعتیہ شاعری۔ ہم نے اپنی کتاب ’’اردو نعت کے سات رنگ‘‘ میں تفصیل کے ساتھ اُن کی نعتیہ شاعری کے فکری و فنی پہلووں پر گفتگو کی ہے۔ الحمد للہ وفات سے چند روز پہلے انہوں نے وہ کتاب دیکھ کر دعاؤں سے نوازا تھا۔ یہاں اُن کی شاعری پر گفتگو کا موقع نہیں ہے، اس لیے بس دو پہلووں کی طرف اشارے پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ اُن کی نعتیہ شاعری کا سب سے روشن پہلو ہے نکتہ سنجی۔ وہ اپنی نعتوں میں بات سے بات نکالنے اور سامنے کی بات سے دور کی کوڑی نکالنے کا ہنر خوب جانتے تھے۔ اُن کی نعتوں میں یہ وصف اتنا نمایاں ہے کہ معاصر نعت گویوں میں مشکل ہی سے کوئی ان کے ہم پلہ نظر آئے گا۔ اس نکتہ سنجی کی چند مثالیں دیکھیے:
چل کر غزل سے آئو جو نعتِ حضور تک
اک سلسلہ ہے بے خبری سے شعور تک
طیبہ کو محبت کا مے خانہ کہا جائے
یہ کہہ کے مرا مشرب رندانہ کہا جائے
الفت شہِ والا کی جب مول ہے جنت کا
نعت شہِ والا کو بیعانہ کہا جائے
دہر میں سایہ نہ تھا یا تھا یہ تم جانو مگر
حشر میں تو سائبانی ہے مرے آقا کی ذات
رب ہے رب العالمیں وہ رحمت للعالمیں
اس کا ثانی بھی نہیں اور ان کا ثانی بھی نہیں
جشنِ نظارہ مدینے میں چلے جانے کا نام
دیدۂ حسرت وہاں سے لوٹ کر آنے کا نام
لائیے امسال طیبہ سے غبارِ کارواں
اور اگلے سال میرِ کارواں ہوجائیے
کررہا ہوں میں گزر اوقات ان کے نام پر
کوئی معمولی نہ سمجھے اب مری اوقات کو
آنکھ اگر برسے تو رحمت بھی برستی ہے میاں
گھر بلا لیتی ہے یہ برسات اُس برسات کو
میں بھی کہہ سکتا ہوں سایہ ہی نہیں تھا تیرا
مسئلہ یہ ہے کہ صدیق کو پھر کیا لکھوں
افسر امروہوی کی نعت کا ایک روشن پہلو اور بھی ہے۔ ان کی نعتوں میں رسول کریم ﷺ سے ربط و تعلق، بے تکلفی کی حد تک پہنچ گیا ہے، لیکن بے تکلفی گستاخی اور بےادبی کی سرحدوں سے میلوں دور ہے۔ یہ رسول کریم ﷺ سے ان کی والہانہ محبت کی علامت ہے۔ اس بے تکلفانہ لیکن کامل مؤدبانہ انداز کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
عادت میں تمہارے نہ قرینے میں تمہارے
ہم پھر بھی تو کچھ لگتے ہیں رشتے میں تمہارے
یہاں تو التجا کر لوں درِ اقدس پہ جانے کی
وہاں پر ضد پکڑ لوں گا کبھی واپس نہ آنے کی
جب شفاعت کے لیے محشر میں آئیں گے رسول
میرا ایماں ہے مجھے پہچان جائیں گے رسول
مجھ کو رسوائی سے محشر میں بچائیں گے رسول
دیکھ لینا اپنی کملی میں چھپائیں گے رسول
جب مرے دامن میں بس دھبے ہی پائیں گے رسول
کان تو کھینچیں گے لیکن بخشوائیں گے رسول
ہم نے اختصار کے پیش نظر حضرت افسر امروہوی کی شخصیت اور نعت، دونوں کے دو دو پہلووں کی پر مختصراً روشنی ڈالی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اُن کی شخصیت کے بھی متعدد پہلو ہیں اور ان کی نعتیہ شاعری کے بھی۔ وہ تمام پہلو اہم ہیں، لیکن یہ دو پہلو ایسے ہیں، جو اُن کی وفات کے حادثے کو سانحہ اور اس پر ہونے والے غم کو کرب و الم میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ ادبی دنیا اور بالخصوص امروہے کی علمی و ادبی مجلسیں برسوں اِس مرنجا مرنج شخصیت کو تلاش کرتی رہیں گی۔ دنیائے نعت ایسے منفرد لب ولہجے کی تلاش میں سر پٹختی پھرے گی، لیکن شاید پھر ایسا البیلا نعت گو نصیب نہ ہو۔ بس ! اب اپنے اس قطعے پر بات ختم کرتا ہوں:
ملکِ سخن کے قائد و رہبر چلے گئے
وہ باغِ مصحفی کے گلِ تر چلے گئے
کہرام کیوں بپا ہے یہ دنیائے نعت میں
ملکِ عدم کو حضرتِ افسر چلے گئے
(شاہ اجمل فاروق ندوی، ماہنامہ المؤمنات لکھنؤ کے چیف ایڈیٹر اور ماہنامہ تسنیم دہلی کے ایڈیٹر ہیں)