ہوم << راجہ صاحب محمود آباد کی یاد میں خون کے آنسو - زوہیب زیبی

راجہ صاحب محمود آباد کی یاد میں خون کے آنسو - زوہیب زیبی

زوہیب زیبیوائے حسرتا کہ اس گونگی بہری قوم نے ایک بار پھر سے اپنے ساتھ وہی سلوک کیا جسے مہذب قومیں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے یا کسی قوم کی فکری غذا بند کر کے اسے جہالت کی موت مارنے کے مترادف قرار دیتی ہیں۔ یہ قصہ ہے ”راجہ صاحب محمود آباد“ جیسے لیجنڈری شخص کی ساری زندگی کی محنت اور گرانقدر مالی اثاثے سے حاصل کردہ ایک عظیم دور کے لوگوں کی لکھی گئی کتب سے تیار شدہ لائبریری کے کوڑیوں کے عوض اجاڑ دیے جانے کا۔
کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جس کا تاریخ و جدوجہد ِقیام پاکستان میں انتہائی کلیدی کردار رہا ہو، جن کے بارے میں کہا جاتا ہو کہ پاکستان، سرسيد احمد خان کي تعليمي خدمات اور قائداعظم کي رہنمائي راجہ صاحب محمود آباد کي دولت کی مرہونِ منت ہے۔ راجہ امیر احمد خان آف محمود آباد (یو پی) برصغیر کے بہت بڑے جاگیردار، ریاست محمود آباد کے والی، قائداعظم کے معتمد رفیق اور مسلم لیگ کے سرگرم رہنما جنھوں نے تحريکِ پاکستان ميں اپنی دريا دلی کے جوہر دکھاتے ہوئے اتنی دولت لٹائی کہ اس کی مثال مشکل ہے۔ گاندھي جي، جواہر لال نہرو، مولانا محمد علي، مولانا شوکت علي، مولانا حسرت موہاني، چودھري خليق الزماں، غرض کہ ہندوستان کا ہرشعلہ بياں مقرر اور صاحب علم و ذوق شخص ان کي رہائش گاہ ’’قيصر باغ‘‘ لکھنو ميں محفلوں کو گرماتا رہا۔
آپ کے والد گرامی امیر حسن خان بھی مایہ ناز شخصیت کے حامل تھے۔ ايک دفعہ کانپور مسجد کے حادثے ميں گرفتار ہونے والے مسلمانوں کي ضمانت کے طور پر اپنی پوری رياست پيش کردی تھی۔ لوگوں نے کہا بھی ’’آپ بلاامتياز سب کی ضمانت دے رہے ہيں، ان کی اکثريت سے آپ واقف بھی نہيں ہيں.‘‘ تو آپ نے کہا ’’ايک مسلمان کو بچانے کے لیے ميری رياست ختم ہوجائے تو ميں اسے معمولی سمجھوں گا۔ اور يہ سينکڑوں کی تعداد ميں ہيں۔ ان کے تحفظ کے لیے ميں اپنی جان اور آن کے لیے بھی خطرہ مول لے سکتا ہوں، رياست کيا چيز ہے‘‘۔
اسی محسن پاکستان کی اس سنہری دور میں بنائی گئی لائبریری کو راجہ صاحب کی پوتی نے ردّی کے بھاؤ ایک کباڑی کو بیچ دیا۔ جانتے بھی ہو یہ ظلم ِعظیم کتنے ٹکوں کی خاطر ڈھایا گیا؟؟ پڑھو گے تو آنکھوں کے آگے اندھیرا چھائے گا۔ جس قدیم کتابوں کے بیوپاری نے اس ردّی والے سے یہ لائبریری خریدی، اس کا بیان ہے کہ میں نے یہ کتب خانہ صرف 23 ہزار روپے میں خریدا ہے۔ اور کتب جانتے ہو کتنی تھیں؟ اتنی کہ ایک مکمل سوزوکی (پک اپ) بھر گئی۔ سوچتا ہوں کہ اگر ردّی والا اپنا منافع رکھنے کے بعد یہ سینکڑوں کتب صرف مبلغ 23 ہزار میں بیچ رہا ہے تو بھلا راجہ صاحب کی پوتی نے اس ردی والے کو یہ کتب کتنے ہزار میں بیچی ہوں گی؟
اگر ابھی بھی دل ڈوبتا محسوس نہ ہو تو اس پر مستزاد یہ بھی جان لو کہ اس محسن پاکستان کی لائبریری انتہائی قیمتی، وقیع اور نایاب کتب سے بھری ہوئی تھی۔ راوی کہتا ہے کہ ان کتابوں میں اردو ادب کے ایسے ایسے دواوین موجود تھے کہ جن کا کبھی ذکر تک نہیں سنا. تاریخی اعتبار سے گراں قدر کتب اور نہ جانے کن کن موضوعات پر دنیا بھر سے اس دریا دل اور علم دوست راجہ نے کتب کو جمع کیا ہوا تھا۔ اور اگر اب بھی دل میں کتب کی وقعت کے بارے کوئی خلش ہو تو اتنا جان لو کہ بعد میں ایک رفیق نے اس کتب سے بھری سوزوکی میں سے چند کتب 70 ہزار میں خریدی تھیں۔
سلام ہے اس شخص پر جس نے اپنے بیٹے کی ولادت کی خوشی میں کوئی غیرشرعی اور نمود و نمائش والا کام کرنے کے بجائے ریاست کی 24 تحصیلوں کے مرض موتیا میں مبتلا 1158 مریضوں کا مفت آپریشن کروایا، جس نے تحریک پاکستان کے تحت مسلم لیگ کے تمام جلسوں کا خرچ اٹھایا، اور قربانی کی داستان یہیں پر ختم نہیں کی بلکہ قیام پاکستان کی خاطر اپنی ریاست کو ختم کردیا اور صرف اتنا ہی نہیں، اس ملک پر اپنا سب کچھ لٹانے کے بعد آخر کی زندگی جو پہلے لندن میں گزرتی رہی تھی، اسی ملک پاکستان میں جو کی روٹی کھاتے اور بسوں میں سفر کرتے کسمپرسی کی حالت میں گزار کر چل بسے۔
تف ہے ہم پر کہ ایسے عظیم شخص کے لگ بھگ 250 سالہ قدیم گنج گراں مایہ کو اتنے سکون سے لٹایا کہ دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو پائی۔ اور آج قسمت کا ماتم کرتے ہیں کہ ملک میں بڑے لوگ پیدا نہیں ہوتے۔
؎ تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
نوٹ : اس تحریر میں تاریخی مواد وکی پیڈیا سے لیا گیا ہے۔