(ایک اخباری خبر سے اخذ کی گئی تحریر)
29 اگست 2016ء جنگ اخبار میں مصر سے اُڑتی اُڑتی تحقیق پہنچی ہے۔ عنوان ہے بیوی کی ماہانہ تنخواہ پر اختلاف مصر میں طلاقوں کی بڑی وجہ بن گیا۔
کچھ نکات دیکھتے ہیں :
● بیوی کی ماہانہ تنخواہ پر زوجین میں اختلاف
● بیوی کا شوہر پر طمع کا الزام لگانا
● شادی کی بنیادی وجہ میاں کی بیوی کی تنخواہ کی طرف کشش بتانا
● بیویوں کی جسمانی تشدد کے ساتھ معنوی اور مادی بلیک میلنگ کی شکایت
● شوہروں کا بیویوں سے رقم ہتھیانے کی کوشش کرنا
● ازدواجی زندگی پر اس کا اثر پڑنا
● میاں بیوی میں گرمجوشی کا فقدان ہوجانا
اگرچہ یہ سب نکات خواتین کا نقطہ نظر بیان کر رہے ہیں اور شوہر حضرات کے موقف کے بارے میں یہ تحقیق یا سروے خاموش ہے۔ طلاق لینے والی خواتین میں ایک سال سے کم ازدواجی زندگی سے لے کر دس سال تک کی ازدواجی زندگی گزارنے والی خواتین شامل ہیں۔ اسے مصر میں طلاقوں کی اہم ترین وجہ گردانا گیا ہے۔
..........................................
اسلام نے معاش کی ذمہ داری مرد کے ذمے عائد کی ہے اگرچہ سخت عذر کی صورت میں عورت بھی ملازمت کرسکتی ہے یا کچھ ایسے شعبے ہیں جن میں خواتین کا ہونا ناگزیر ہے اور انھیں ہم فرضِ کفایہ کا درجہ بھی دے سکتے ہیں مثلاً گائنی کا شعبہ اپنی خصوصیت کی وجہ سے اس بات کا غماز ہے کہ یہاں فقط خواتین موجود ہوں۔ بہرحال اس کا تعین بھی اسلام کی ہدایات کی روشنی میں کیا جائے گا لیکن محض شوقیہ طور پر ملازمت کرنا ”گھروں میں قرار پکڑو“ کی عمومی اسلامی ہدایت کی نفی ہے۔
آپ نے ISO Certification کا نام تو سنا ہوگا۔ یہ ایک سرٹیفکیٹ ہے جو ان اداروں کو دیا جاتا ہے جو انتظامی طور پر تمام پیشہ ورانہ قواعد و ضوابط کی بخوبی پابندی کرتے ہیں۔ اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ادارے میں کام کرنے والے ہر شخص کو بخوبی اپنی ذمہ داری اور کام کی جگہ کی آگہی ہو۔ ادارے اس سرٹیفکیٹ کو حاصل کرنا اپنا اعزاز تصور کرتے ہیں۔ لیکن اس بنیادی اصول کو ہم گھر کے نظام پر فراموش کر بیٹھتے ہیں، اسلام میں گھر کی اندر کی انتظامی ذمہ داری عورت کے ہاتھ میں ہے اور گھر کے باہر کے معاملات مرد کے ہاتھ میں ہیں، مصر میں یہی اصول جب یورپ کی تقلید میں الٹ کیا گیا تو نتیجہ سماجی ڈھانچے میں بڑے پیمانے کی طلاقوں کی دراڑوں کی صورت میں منتج ہوا۔
ابھی تو آغازِ تخریب ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
..........................................
اور بالکل یہی صورتحال پاکستان میں تیزی سے بڑھ رہی ہے، اگرچہ ہمارے ہاں مصر کی طرز کی تحقیق یا سروے کا اہتمام نہیں کیونکہ ہم مثلِ شتر مرغ ریت میں منہ دبانے کو فوقیت دیتے ہیں چاہے طوفان کتنا ہی خطرناک کیوں نہ ہو۔ عورت کی یہی معاشی خودمختاری ہے جو اس کے اندر سے شوہر اور اس مقدس رشتے کی وقعت نکال دیتی ہے اور حاکمیت کا لہجہ لیے قوام کی حیثیٹ اختیار کرلیتی ہے۔ اس کے گھر والے بھی اس بات پر خوش رہتے ہیں کہ طلاق ہو بھی جائے یا رشتہ نہ بھی ہو تو یہ اپنا انتظام خود ہی سنبھالے لے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا محض کمانا اس زندگی کا مقصد ہے اور اتنے پیارے تعلق کے جذبات و احساسات بے معنی ہیں۔ باتوں باتوں میں ڈونلڈ رمسفیلڈ کی زیرِ نگرانی کچھ سالوں پہلے کی رپورٹ یاد آگئی جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ملٹی نیشنل کمپنیز اور پرائیویٹ ادارے ملازمتوں میں ان لڑکوں کو فوقیت دیں جو مغرب سے نہ صرف ظاہراً متاثر ہیں بلکہ ان کے افکار و خیالات بھی مغرب سے میل کھاتے ہوں اورساتھ ساتھ خواتین کوفوقیت دی جائے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کسی بھی پرائیویٹ ادارے میں چلے جائیں تو خواتین کی بڑی تعداد نظر آئے گی، موبائل سیکٹر تو بھرا ہوا ہے اور لڑکے جو اصل معاشی کفالت کے ذمہ دار ہیں، وہ ڈگریاں لیے جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں۔
..........................................
جذباتیت سے نہ سوچیں، ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں کہ خواتین کی معاشی خود کفالت جو شوقیہ کے زمرے میں آتی ہو، کیا وہ معاشرتی اور سماجی ڈھانچے کو تیزی سے نقصان نہیں پہنچا رہی؟ مصر کی خواتین نے شوہر چھوڑنا تو گوارا کرلیا لیکن نوکری چھوڑنا گوارا نہ کی۔ اور آخر میں مصر کی طلاق یافتہ خواتین کی بات بھی پڑھتے جائیں۔ 80 فیصد طلاق حاصل کرنے والی خواتین نے کورٹ کے سامنے بیان دیا کہ انہیں ازدواجی رشتے میں بندھنے پر ندامت ہے اور وہ دوبارہ سے ازدواجی زندگی کی طرف نہ لوٹنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
؎
کیا یہی ہے مغربی معاشرت کا کمال
مرد بےکار و زن تہی آغوش!
تبصرہ لکھیے