تین ستمبر کو بنگلہ دیش کے شہر غازی پور میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما میر قاسم کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ میر قاسم پر الزام تھاکہ انہوں نے1971ءمیںالبدر کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی سلامتی کی جنگ لڑی۔ جس دن میر قاسم کو پھانسی پر لٹکایا گیا اس دن لاہور میں عمران خان جبکہ راولپنڈی میں ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید احمد کی طرف سے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف احتجاج کیا جارہا تھا۔ کسی کو میر قاسم کی پھانسی کے خلاف احتجاج یاد نہ رہا۔ اس پھانسی پر پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے ایک کمزور سا مذمتی بیان جاری کیا گیا جس میں ایک دفعہ پھر صرف یہ کہا گیا کہ1974ءمیں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کی جارہی ہے جس کے تحت1971ءکے واقعات کو بھول کر آگے بڑھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں ہیومن رائٹس واچ کا ذکر نہیں کیا جس کے ایشیاء کےڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کی طرف سے میر قاسم کو دی جانے والی پھانسی کی سزا کو انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا اور کہا کہ میر قاسم کا فیئر ٹرائل نہیں ہوا۔ میر قاسم کو چودہ مختلف مقدمات میں72سال قید اور پھانسی کی سزا دی گئی۔ اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو اغواء اور تشدد کے تین مقدامات میں سزا معطل کردی گئی اور قتل کے دو مقدمات میں سزا بھی ختم کردی گئی البتہ ایک مقدمے میں پھانسی کی سزا برقرار رکھی گئی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سریندرا کمار سنہا نے میر قاسم کے خلاف پیش کئے جانے والے شواہد اور گواہوں کے بیانات پر کھلم کھلا عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اٹارنی جنرل محبوب عالم کو کہا کہ آپ کرائمز ٹربیونل کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ یہ پہلو انتہائی اہم ہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے ہمیشہ 1971ءمیں ہونے والے جرائم کی مذمت کی اور 1971ءکے جرائم میں ملوث افراد کا ٹرائل کرنے کی حمایت کی لیکن حسینہ واجد کی حکومت نے جس انداز میں ٹرائل شروع کئے اور سیاسی مخالفین کو پھانسیوں پر لٹکانا شروع کیا اس پر ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی سمیت انسانی حقوق کے کئی عالمی ادارے بھی چیخ اٹھے ہیں۔ بنگلہ دیش حکومت نے ڈیلی اسٹار ڈھاکہ کے لبرل اور سیکولر ایڈیٹر محفوظ انعام پر غداری کے مقدمات بنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ بنگلہ دیش میں جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کی جارہی ہے۔ میں نے ذاتی طور پر1971ءمیں اس وقت کے مشرقی پاکستان میں ہونے والے فوجی آپریشن پر ہمیشہ تنقید کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت ظلم کی یاد میں مزید ظلم کرے اور ناانصافی کے نام پر مزید ناانصافی کرے۔ ان اقدامات سے خطے میں مزید نفرتیں جنم لیں گی اور نوجوان نسل میں انتہا پسندی فروغ پائے گی، لہٰذا بنگلہ دیش میں ہونے والی ناانصافی پر آواز اٹھانا کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں بلکہ اس پورے خطے کو انتہا پسندی سے بچانے کی کوشش ہے۔
بنگلہ دیش میں ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں ناانصافی نہیں ہوتی۔ تین ستمبر کو لاہور اور راولپنڈی میں اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج پر کئی اعتراضات کئے جاسکتے ہیں لیکن کیا یہ درست نہیں کہ2014ءمیں لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر پولیس نے گولیاں برسائیں اور14بے گناہ مرد و خواتین مرغابیوں کی طرح مارے گئے؟ عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کے انداز سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن دو سال گزرنے کے باوجود ان کی جماعت کے مقتولین کو انصاف نہیں ملا اور اگر وہ بار بار احتجاج کریں تو یہ ان کا حق ہے۔ تین ستمبر کو ڈاکٹر طاہر القادری اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد نے راولپنڈی میں احتجاج کیا۔ دونوں مل کر بڑی تعداد میں لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب رہے۔ لوگوں کو سڑکوں پر آنے سے روکنے کے لئے راولپنڈی اور لاہور کی سڑکوں کو کنٹینروں سے بند کیا گیا لیکن اس کے باوجود دونوں شہروں میں رات گئے تک ہزاروں افراد وفاقی و صوبائی حکومت کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔
2014ءمیں عمران خان اور طاہر القادری سڑکوں پر آئے تو اکثر اپوزیشن جماعتوں کا خیال تھا کہ یہ دونوں جمہوریت کے خلاف کسی سازش کا حصہ ہیں۔2014ء میں جب عمران خان اور طاہر القادری نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دھرنادیا تو پیپلز پارٹی سمیت کئی دیگر جماعتوں نے پارلیمنٹ ہائوس کے اندر وزیر اعظم نواز شریف کا ساتھ دیا۔ جماعت اسلامی نے مذاکرات کے ذریعے حکومت اور سڑکوں پر موجود مظاہرین میں پل بننے کی کوشش کی۔ 2016ءمیں صورتحال مختلف ہے، پاناما پیپرز کے معاملے پر پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی نو جماعتیں یکساں موقف رکھتی ہیں۔ تین ستمبر کو لاہور میں تحریک انصاف کی احتساب ریلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین کی شرکت بہت اہم ہے۔
آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی بھی وفاقی حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کی تیاری کررہی ہے اور قربانی کی عید کے بعد پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں قربتیں بڑھ سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی صرف یہ چاہتی ہے کہ اپوزیشن کے احتجاج کے نتیجے میں جمہوریت کو کوئی خطرہ پیدا نہ ہوجائے۔ تحریک انصاف کی قیادت نے پیپلز پارٹی کو یقین دلایا ہے کہ اس کے احتجاج کا مقصد صرف اور صرف کرپشن میں ملوث طاقتور افراد کا احتساب اور2018ءمیں صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔ یہ دونوں جماعتیں دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گی۔ حکومت کے خلاف سیاسی دبائو کے ساتھ ساتھ قانونی دبائو بھی بڑھایا جائے گا۔حکومت کو معاملہ فہمی سے کام لینا ہوگا۔ حکومت اس غلط فہمی سے نکل آئے کہ چند اہم عہدوں پر نئی تقرریوں سے اس کے مسائل ختم ہوجائیں گے۔2014ءاور2016ءمیں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دو سال کے دوران غیر ملکی دشمنوں نے پاکستان کے گرد اپنا گھیرا تنگ کردیا ہے اور پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کے لئے بڑے بڑے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں داخلی استحکام کی ضرورت ہے لیکن پاناما پیپرز کے معاملے میں حکومت کا غیر لچکدار رویہ صرف حکومت کے لئے نہیں بلکہ داخلی استحکام کے لئے بھی خطرات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا حالات کی نزاکت حکومت کے رویے میں لچک کا تقاضا کرتی ہے۔
تین ستمبر کی رات عمران خان نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ ان کے خاندان نے لندن میں جو جائیداد خریدی اس کی دستاویزات دکھادیں، یہ بتادیں کہ اس جائیداد کو خریدنے کے لئے پیسہ کہاں سے آیا، یہ پیسہ ملک سے باہر کیسے گیا اور جس پیسے سے جائیداد خریدی گئی اس پر ٹیکس دیا گیا یا نہیں؟ یہ بڑے سادہ سے سوالات ہیں۔ حکومت کچھ سوالات کا جواب دے چکی ہے اور کچھ کا جواب دے سکتی ہے لیکن نجانے کیوں پاناما پیپرز پر اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات میں لچک کیوں نہ دکھائی گئی۔ حکومت سے گزارش ہے کہ ضمنی انتخابات میں فتح کے نشے سے چھٹکارا پائے اور عمران خان کے سوالات کا ٹھوس شواہد کی مدد سے جواب دے بصورت دیگر قربانی کی عید کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد تشکیل پانے والا ہے اور حکومت کے اندر بھی بغاوت ہوسکتی ہے۔ جمہوریت قائم رہے گی لیکن چہروں میں تبدیلی کا دبائو بڑھنے والا ہے۔
تبصرہ لکھیے