وہ خون آلود ہاتھ احمد آبا دکے چار سالہ شہباز کا ہوگا، احمد آبا د کے’’شمشان گھاٹ‘‘ سے ساٹھ کلومیٹر دور مدرسہ بزم صداقت میں بنائے گئے مہاجر کیمپ میں چار سالہ شہباز سے اس فوٹو گرافر کی اس حال میں ملاقات ہوئی تھی کہ اس نے صرف ایک جینز پہن رکھی تھی اور وہ دیوار سے ٹیک لگائے گہری سوچ میں گم تھا، اس کے چہرے پر خوف جم کر رہ گیا تھا بالکل اسی طرح جیسے گال پر چٹاخ کی آواز سے کوئی زوردار تھپڑ مارے تو ہاتھ کا نقشہ گال پر نقش ہو کر رہ جائے۔ میرا خیال ہے کہ لہو میں لتھڑے ہوئے تھپڑ کا نقش احمد آباد کے شہباز کا ہی ہوگا جو احمد آباد کے شمشمان گھاٹ میں زندہ جلنے سے بچ گیا تھا۔
اس سے پہلے کے سیلانی بات آگے بڑھائے، آپ کو احمد آباد کے شمشمان گھاٹ کی کہانی بھی سناڈالے لیکن ایک منٹ، ایک منٹ، بس ایک منٹ! شمشمان گھاٹ میں تو مردے جلائے جا تے ہیں، زندوں کو کب جلایا جاتا ہے؟۔ مجھے ذرا لغت دیکھنے دیں، کسی صاحب علم سے بھی بات کر لینے دیں کہ جہاں زندہ جلائے جائیں اسے کیا کہا جائے گا؟
بڑی معذرت! آپ کو تھوڑا انتظار کرنا پڑا، کم از کم اردو لغت اس معاملے میں چپ ہے، اس کے حافظے میں ایسی کسی جگہ کا نام نہیں جہاں زندہ انسانوں کو جلایا جاتا ہو، سیلانی بھی ایسی کسی جگہ کا نام پتہ ڈھونڈ کر نہیں لا سکا کہ یہ سب انسانیت سے بعید ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ایسا انسانوں نے ہی کیا؟ ڈرے سہمے کمزوروں کو گھروں کے کھڑکیاں دروازے بند کر کے پٹرول اور آگ بھڑکانے والا کیمیکل چھڑک کر آگ لگائی گئی اور باہرانسانیت کی چھاتیوں پر ننگے پیروں سے کھڑے ہو کر برچھیاں، ترشول، بندوقیں، خنجر اور تلواریں لے کر پہرہ دیا گیا کہ اگر کوئی آگ کی لپیٹوں سے نکل بھی آئے تو یہیں اس سالے مسلے کو کاٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے اور یقین کیجیے ایسا ہی کیا گیا، حاملہ عورتوں کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے گھروں سے باہر لایا گیا اور ان کا پیٹ چاک کر کے دہکتے الاؤ میں بچے اچھال اچھال کر ’’جے ماتا‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔ آپ کو یقین نہیں تونیٹ پر http://muslimmirror.com/eng/can-we-forget-these-images-of-muslims-genocide-of-gujarat-2002/ پر جائیے اور 2002ء میں احمد آباد کے ’’مسلوں‘‘پر کیا بیتی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجیے، ان ہی تصاویر میں آپ کو شہباز بھی دکھائی دے گا، وہی شہباز جس کے خون میں لتھڑے ہوئے ہاتھ کے تھپڑ کا میں ذکر کر رہا ہوں کہ شائد یہ وہی ہاتھ ہو۔
بھارتی گجرات کے شہر احمد آباد میں 2002ء ہندو بلوائی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے، بستیوں کی بستیاں جلا ڈالی تھیں، ہندو انتہا پسند ترشول اور تلواریں لے کر مسلمانوں کے علاقوں میں گھس گئے اور اس وقت تک باہر نہیں نکلے جب تک ان کے ترشولوں کی نوکوں اور تلواروں کی دھاروں سے مسلمانوں کا خون نہیں ٹپکنے لگا۔ یہ سب بھارتی پولیس کی نگرانی میں ہوا، کہتے ہیں کہ ان فسادات میں 2 ہزار مسلمانوں کا قتال ہوا، ان فسادات میں کانگریس کے رکن اسمبلی احسان جعفری بھی زندہ جلا دیے گئے، 28 فروری 2002ء کو چمن پورہ میں ہندو بلوائیوں نے پورے علاقے کا گھیراؤ کیا اور ایک ایک کرکے سب گھروں کو آگ لگاتے گئے، کانگریسی رہنما احسان جعفری کا گھر بھی نہ چھوڑا گیا، ان کا مسلمان ہونا کانگریسی ہونے سے بڑا جرم تھا سو کیسے بخشا جاتا؟ انہیں بھی ان پناہ گزینوں کے ساتھ جلا دیا گیا جو ان کے گھرمیں پناہ لیے ہوئے تھے، بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندرا مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلی تھے، ان فسادات کے بعد ہی انہیں گجرات کے قصاب کا لقب دیا گیا تھا۔
اس خون آلود تھپڑ والے ہاتھ کی تلاش سیلانی کو مقبوضہ کشمیر لےگئی جہاں زندگی کا بوجھ اتارنے کے لیے بھارتی سورما بلاجھجھک بندوقوں کے ٹرائیگر دبا دیتے ہیں، جولائی میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد ہونے والے ہنگاموں میں اب تک سو سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں، ایک بار ٹرائیگر دبانے سے 600 چھروں کی بوچھاڑ کرنے والی انتہائی خطرناک پیلٹ گن کے سینکڑوں ز خمی اسپتالوں میں اس حال میں لائے جاتے ہیں کہ یہ چھرے ان کے جسم میں اندر تک گھس چکے ہوتے ہیں، 700 کشمیری ان پیلٹ گنوں کے چھروں سے بینائی گنوا چکے ہیں، ان میں بارہ سالہ عبدالسلام بھی ہے، بارہ مولہ کا عبدالسلام اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا اور پانچ بہنوں کا لاڈلا بھائی ہے لیکن اس لاڈلے کا لاڈ کشمیر کی آزادی ہے، ہر کشمیری کی طرح اس کا خواب بھی پاکستان ہے، اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے بادامی آنکھوں والا عبدالسلام جدوجہد آزادی کا حصہ ہے، سرخ و سپید عبدالسلام کو جہادی نعرے ازبر ہیں، علاقے کا کوئی جلوس عبدالسلام کے بغیر سجتا تھا نہ نکلتا تھا، حریت پسند نوجوان جلوس نکالنے سے پہلے ہی اسے لینے کے لیے آجاتے یا پیغام بھجوادیتے، یہ کم عمر حریت پسند کشمیری مرغی کے دڑبے میں چھپایا ہوا سبز ہلالی پرچم نکال کر جلوس میں پہنچ جاتا، جہاں اسے کاندھوں پر بٹھا لیا جاتا اور عبدالسلام انگشت شہادت بلند کر کے تکبیر سے جو نعروں کا سلسلہ شروع کرتا تو کشمیریوں کا خون پارہ بن کر دوڑنے لگتا اور خاص کر جب عبدالسلام ماتھے پر سبز رومال باندھ کر ’’پاکستان سے رشتہ کیا۔۔۔‘‘کا نعرہ لگاتا تو دل سینوں سے نکلنے کو آجاتے، 18جولائی کو اس کم عمر حریت پسند کو بھارتی سورماؤں نے پیلٹ گن سے نشانہ بنا کر اس کی دونوں آنکھیں ویران کر دیں ،گن کے چھروں نے وہ بادامی آنکھیں پھوڑ دیں جو پاکستان کے خواب دیکھتی تھیں لیکن عبدالسلام کہتا ہے بھارتیوں فوجیوں نے دیر کردی، خواب میں دیکھ چکا ہوں، میرے خواب مجھ سے یہ کیا مودی کا باپ بھی نہیں چھین سکتا۔ میرا خیال ہے کہ وہ خون آلود تھپڑ اسی بہادر کشمیری بچے کا ہوگا۔
لیکن نہیں! یہ تھپڑ ان بھارتی ناریوں میں سے کسی کا ہوگا جو مودی کے راج میں اپنی عصمت گنوا چکی ہیں، جنہیں شراب کے نشے میں دھت غنڈے اسکول کالج دفتر سے آتے جاتے ہوئے اغواء کر کے لے جاتے ہیں اور وہ چیختی چلاتی رہ جاتی ہیں، ان کے سامنے ہاتھ جوڑتی پاؤں پڑتی رہ جاتی ہیں لیکن کسی کو ترس نہیں آتا، ان کی عصمتیں تار تار ہو جاتی ہیں، اس ظلم کے بعد کتنی ہی لڑکیاں گھر نہیں پہنچتیں، کوئی ریل کے سامنے آکر سینکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور کوئی دریا میں کود کر زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہے، جو جھکے ہوئے سر اور پھٹے ہوئے کپڑوں کے ساتھ گھر میں داخل ہوتی ہیں وہ ساری زندگی کسی کے سامنے نظر اٹھا کر بات نہیں کر سکتیں۔ بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2015ء میں چونتیس ہزار خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ بھارتی اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کے مطابق اوسطا روزآنہ 93 خواتین بھارت کے عیاش فطرت اوباشوں کے ہاتھوں اپنی عزتیں گنواتی ہیں۔ دہلی کا یہ حال ہے کہ اسے اب rape city کہا جانے لگا ہے، خون آلود تھپڑ پرنٹ کرنے والا انڈیا ٹوڈے کہتا ہے کہ دہلی میں کوئی دن نہیں جاتا جب چار خواتین اپنی عزتوں سے نہ جاتی ہوں۔ سیلانی کا خیال ہے کہ خون آلود تھپڑ کا وہ نقش دہلی کی سمیتا راج کا ہوگا، ائیر ہوسٹس بن کر دیس دیس گھومنے کے خواب دیکھنے والی سمیتا کی عزت آبرو کی رکھشا ریاست کی ذمہ داری تھی، وہ ایک معروف اور مصروف ڈاکٹر کی بیٹی تھی، اس کے پتا کے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ وہ جہاں لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھ رہا ہے، ان کے بیمار کمزور و جسموں سے چن چن کر بیماریاں نکال رہاہے، وہیں اس کی بیٹی کی روح گھائل کر دیا جائے گی، اسکول سے آتے ہوئے اس کی عزت لوٹ لی جائے گی اور یہ کام کوئی اور نہیں نشے میں دھت پولیس اہلکار کریں گے، سیلانی کا خیال ہے کہ وہ تھپڑ قانون کے محافظوں سے عزت گنوانے والی سمیتا راج کا ہی ہونا چاہئے۔
لیکن ’’انڈیا ٹوڈے‘‘سے غلطی ہوگئی، بھئی غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے، مان لیا کہ بھارت کا بڑا میگزین ہے، 1975ء سے نکل رہا ہے، اچھا خاصا دھندا کر رہا ہے، اب اس کے مالک نیوز چینل کے سیٹھ بھی ہوچکے ہیں لیکن ان سب باتوں سے غلطی کا امکان تو ختم نہیں ہوسکتا ناں. اس میگزین نے ستمبر 2016ء کی اشاعت میں پاکستان آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی پورے صفحے کی تصویر شائع کی ہے، سرورق کی تصویر میں راحیل شریف کے گال پر ہتھیلی کا سرخ نشان دکھایا گیا ہے، کہنے والے اسے ہندو بنیے کی پاک فوج سے ازلی نفرت کا اظہار کہہ رہے ہیں، کوئی کہہ رہا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو تڑی لگا دی ہے، کسی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر معنی خیز ٹائٹل اسٹوری ہے، بھارت نواز بدبدبا رہے ہیں کہ 15 اگست کو بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے اپنی تقریر میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر کرکے پاک آرمی کو تھپڑ مارا ہے۔ لیکن سیلانی کا خیال ہے کہ انڈیا ٹوڈے والوں سے غلطی ہوئی ہے، میگزین والے اپنے گجراتی قصاب کی تصویر لگانا چاہتے ہوں گے جس نے اپنی وزارت اعلی کے دور میں 2 ہزار مسلمان قتل کروائے۔ جو کشمیر ی بچوں بچیوں کی آنکھیں پھوڑ رہا ہے لیکن کشمیریوں کا پاکستان سے رشتہ نہیں توڑ پا رہا، جو سکھوں کی خالصہ تحریک سے پریشان ہے، جو آسام، جھاڑ کھنڈ، منی پور میں آزادی کی تحریکوں کو کچل رہا ہے، جس نے بھارت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے، جو ایمنسٹی انٹرنیشنل کے آئینہ دکھانے پر اس پر پابندی لگاچکا ہے، جو دلتوں، شودروں، اچھوتوں کے برابری کے حقوق کی مانگ سے ذات پات میں بٹے ہندو معاشرے کے بکھرنے سے خوفزدہ ہے، جس کے لیے بھوکا ننگا بھارت ایک چیلنج ہے، جس کے لیے ریل کی پٹریوں پر صبح سویرے لوٹے لے کر اکڑوں بیٹھنے والے بھارتیوں کے لیے بیت الخلا بنانا خواب ہے۔ یقینی طور پریہ تھپڑ احمدآباد کے شہباز، کشمیر کے عبدالسلام خالصہ تحریک میں مارے جانے والے کسی حریت پسند سردار کی بیٹی، دہلی کی سمیتا راج، ایمنسٹی انٹرنیشنل، لاتعلقی کے اظہار کے بعد کلبھوشن یادیو کی اہلیہ کاہوگا، ویسے یہ تھپڑ نریندر مودی کی اہلیہ کا بھی ہو سکتا ہے جسے دھتکار کر اس کا جیون مودی نے نرکھ بنا ڈالا۔ اس تھپڑ کا مستحق نریندر مودی سے زیادہ کون ہوسکتا ہے؟ یقینی طور پر انڈیا ٹوڈے والوں سے’’غلطی‘‘ ہوئی ہو گی، انڈیا ٹوڈے گجرات کے قصاب کو ٹائٹل پر لانا چاہتا ہوگا. سیلانی یہ سوچتا ہوا چشم تصور میں کشمیری عبدالسلام، احمد آباد کے شہباز اور دہلی کی سمیتا راج سے کرارا تھپڑ کھانے کے بعد گجرات کے قصاب کو اپنا سیاہ گال سہلاتا دیکھنے لگا اور کھی کھی کرتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
تبصرہ لکھیے