ہوم << عالمی یوم حجاب-ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی

عالمی یوم حجاب-ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی

dr-samiha
حجاب مسلمان عورت کے لیے ایک ایسا فریضہ ہے جو وہ احکام الٰہی کے تحت ادا کرتی ہے۔ مگر آج اسے مسئلہ بناکر اچھالا جارہاہے۔ قرآن کریم جو ہر مسلمان کے لیے قانون کا درجہ رکھتاہے۔اس میں سب سے پہلے سورة الاحزاب میں آیت حجاب نازل ہوئی ۔
”اے لوگوجو ایمان لائے ہو ، نبی کے گھر وں میں بلااجازت نہ چلے آیا کرو۔ نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو۔ ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آﺅ مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہوجاﺅ۔ باتیں کرنے میں نہ لگے رہو۔ تمہاری یہ حرکتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا۔ نبی کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے مانگا کرو۔ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسول کو تکلیف دو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو۔ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ تم خواہ کوئی بات ظاہر کرویا چھپاﺅ اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔“
اس کے بعد حجاب کا حکم قرآن کریم کی سورة النور کی آیت نمبر۳۱میں نازل ہوا۔
”اور اے نبی مومن عورتوں سے کہہ دوکہ اپنی نظریں بچا کر رکھیںاور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناﺅ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی چادروں کے آنچل ڈالے رکھیں۔“
پھر دوسراحکم سورة الاحزاب میں نازل ہوا ۔
اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادر وں کے پلو لٹکا لیا کرو۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔
ان آیات اور احادیث کے بعد کسی مسلمان میں یہ جرا¿ت نہیں ہوتی کہ وہ حجاب کو کلچر، روایت یامعاشرتی اور سماجی رویہ قرار دیں ۔ یہ واضح قرآنی و الٰہی حکم ہے جسے مسلمان عورت بڑے افتخار کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔
موجودہ دور میں عالمی استعماری قوتوں نے زبردست پروپیگنڈہ مہم جاری کررکھی ہے۔ مغربی ممالک میں حجاب کے خلا ف بڑھتے ہوئے اس جحان کو مدنظر رکھتے ہوئے برطانوی مسلمانوں کی تنظیم ”مسلم ایسوسی ایشن آف برٹن “ نے عالمی سطح پر لندن سے حجاب کانفرنس کااہتمام کیا تاکہ دنیا کو یہ باور کرایاجاسکے کہ مسلمان عورتیں حجاب کسی جبریا دباﺅ کی وجہ سے نہیں لیتیں بلکہ وہ اپنی مرضی سے مذہب اسلام کے احکام پر عمل پیرا ہونے میں آزاد ہیں۔ 12جولائی کو ہونے والی اس کانفرنس کے مہمان خصوصی علامہ یوسف القرضاوی تھے۔ اس کے علاوہ 14ممالک کے مندوبین نے کانفرنس میں شرکت کی ۔اسی کانفرنس میں یہ فیصلہ بھی کیاگیاکہ 4ستمبر کو عالمی یوم حجاب کے طور پر منایا جائے گا۔ واضح رہے کہ فرانس نے سکول میں حجاب لینے پر پابندی عائد کردی ہے جس کااطلاق ستمبر سے ہوگا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ مغربی ممالک میں اسلامی شعار کو اپنانے کا رجحان موجودہ نسل میں تیزی سے پروان چڑھ رہاہے جوکہ مغربی ذرائع ابلاغ اور وہاں کی حکومتوں کے لیے تشویش کا باعث بناہواہے کیونکہ یہاں مسلمانوں کی وہ پہلی نسل جو مختلف اسلامی ممالک سے ہجرت کرکے آئی تھی ، ان میں یہ رجحان نہیں پایاجاتاتھا۔ اس طرح یہ اس بات کااشارہ ہے کہ مغربی ممالک میں آباد مسلمانوں کی موجودہ نسل تیزی سے اسلام کی طرف لوٹ رہی ہے۔ یہ جہاں ایک خوش آئند پیش رفت ہے ، حجاب یا دیگر مذہبی شعار کااستعمال دباﺅ یا زیادتی کی وجہ سے نہیں کیاجاتاجیساکہ حجاب مخالف پراپیگنڈے کے ذریعے باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ یہ ہر فرد کا آزادانہ فیصلہ ہوتاہے اور یہ مسلمان عورت کا حق بھی اور اس کا افتخار جو وہ اللہ کا حکم سمجھ کر قبول کرتی ہے۔ جیسے اسے نماز اور روز ے کا حکم دیا گیاہے۔ اسی طرح اسے حجاب کا حکم بھی دیا گیاہے جسے وہ پورا کرکے احکام الٰہی کی پابندی کرتی ہے۔
فرانس میں اسکارف پر پابندی :
مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پندرھویں اور سولہویں صدی میں ہی فرانس منتقل ہوگئی تھی۔ 1492ءمیں سقوط غرناطہ کے بعد اندلس میں ان کا جینا دوبھر کردیا گیا تو 3لاکھ افراد ملک بدری پر مجبور ہوگئے ، جب کہ اس سے کئی گنا بڑی آبادی شہید کردی گئی ۔ گزشتہ صدی کے آغاز میں سمندر پار پڑوسی ممالک پر فرانسیسی استعمار منظم ثقافتی حملوں اور قرب مکانی کی وجہ سے بھی ان ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ فرانس میں جابسے۔ عالمی جنگوں کے خاتمے کے بعد فرانس کی تعمیر نو کے لیے مطلوب افرادی قوت بھی زیادہ تر یہیں سے حاصل کی گئی۔
برنرسٹازلے کمیٹی نے 11ستمبر2003ءکو اپنی رپورٹ میں ایک طرف تو دینی ”علامت قرار دیتے ہوئے حجاب کو ممنوع قرار دے دیا ۔ ساتھ ہی مسلمان کمیونٹی کے لیے عید الاضحی اور مسیحیوں کے لیے عید غفران کو سرکاری چھٹی قرار دینے کی سفارش کی تاکہ مذاہب کی آزادی کا تاثر باقی رہے۔“
یہ سفارشات تیار کرتے اور حکومت کی طرف سے انہیں منظور کرتے ہوئے جس بڑی حقیقت کو فراموش کرنے کی کوشش کی گئی وہ اسلام میں حجاب کی حیثیت و اہمیت ہے۔ فرانسیسی حکمران یقیناً جانتے ہوں گے کہ اسلامی حجاب، صلیب یا یہودی کیپا کی طرح کوئی علامت نہیں ، خالق کی طرف سے قرآن کریم وسنت نبوی میں دیا جانے والا صریح حکم ہے۔ مسلمانوں میں یہ فقہی اختلاف رہاہے کہ حجاب کی کیفیت و حدود کیا ہوں ، چہرے کو ڈھانپا جائے ، لیکن کوئی بھی مسلمان اس امر قرآنی کا انکار نہیںکرسکتا کہ خواتین اپنی چادریں (سرکے علاوہ ) اپنے سینوں پر بھی ڈالے رکھیں۔
اس عجیب فرانسیسی فیصلے پر مختلف اطراف کا ردعمل بھی عجیب تھا۔ صدر بش نے جو مسلمانوں کے خلاف پالیسیوں کے سرخیل ہیں۔ اسکارف کے حق میں بات کی اور کہاکہ مسلم خواتین کو یہ حق ملناچاہیے کہ اپنے مذہب کے مطابق سرپر اسکارف رکھ سکیں ، ا مریکہ میں بھی اس کی آزادی ہے۔ 17جنوری 2004ءکو یورپ کی اکثر اور لبنان ، اُردن ، ترکی ، عراق سمیت متعد د ممالک میں ہزاروں خواتین کے مظاہروں اور اجتماعات میں موقف کا اعادہ کیاگیا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام تر پابندیوں اور تعذیب اور سزاﺅں کے باوجود اسکارف رکھنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہواہے۔ حکمران اس اضافے پر حیران و ششدر ہیں ۔ عام مسلمانوں کے دل میں یہ احساس قوی تر ہواہے کہ فرانس میں لگنے والی اس پابندی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا گیا ، تو یہ وبادیگر مغربی ممالک میں بھی پھیلتی چلی جائے گی ۔ اب بیلجیم سے بھی صدا اٹھی ہے کہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈوں کی تصویر میں تمام خواتین کاننگے سر ہوناضروری ہے۔فرانس میں اس پابندی پر احتجاج اس متعدی امراض کو پھیلنے سے روکنے کی ایک لازمی تدبیر بھی ہے۔