ہوم << کیا پاکستان میں”دوہری حکومت“ (Diarchy) کا نظام ہے؟ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

کیا پاکستان میں”دوہری حکومت“ (Diarchy) کا نظام ہے؟ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

محمد مشتاق ”دوہری حکومت“ یا diarchy کا نظام انگریزوں نے ہندوستان میں ”قانونِ حکومتِ ہند 1919ء“ کے ذریعے صوبوں کی سطح پر متعارف کروایا جس کی رو سے حکومت کے دو نظام بیک وقت قائم کیے گئے:
ایک جانب گورنر اور اس کی مجلس مشاورت ہوتی تھی اور دوسری جانب وزیر اعلیٰ اور اس کی کابینہ۔
قانون سازی کے لیے صوبے کے اختیارات کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا:
”محفوظ امور“ (reserved subjects) جن پر صرف گورنر اور اس کی کونسل کا اختیار تھا؛ اور
”منتقل شدہ امور“ (transferred subjects) جو وزیراعلیٰ اور اس کی کابینہ کی طرف منتقل کیے گئے تھے۔
گورنر بمع کونسل کسی کو جواب دہ نہیں تھا جبکہ وزیراعلیٰ بمع کابینہ صوبائی اسمبلی کے سامنے جواب دہ تھا۔
1935ء کے قانونِ حکومتِ ہند کے ذریعے صوبوں میں یہ دوہری حکومت ختم کردی گئی لیکن مرکز میں اسے نافذ کیا گیا اور وہاں اسی طرح گورنرجنرل ان کونسل کے پاس ”محفوظ شدہ امور“ تھے جبکہ وزرا کے پاس کچھ ”منتقل شدہ امور“ ہوتے تھے۔ یہی 1935ء کا قانون بعض ترامیم کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان کے لیے عبوری دستور کے طور پر رائج کیا گیا۔
1956ء میں ہم نے اپنا پہلا دستور نافذ کیا تو بظاہر ”دوہری حکومت“ سے مرکز میں بھی نجات پالی لیکن دو سال بعد ہی فوج نے آ کر اس دستور سے ہی قوم کو نجات دلا دی۔
پھر 1962ء میں فوج نے قوم کو دوسرے دستور کا تحفہ دیا جس میں تمام اختیارات فاتح صدر کی طرف اسی طرح جاتے تھے جیسے فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرف تمام سڑکیں جاتی ہیں۔ پتہ نہیں کیا ہوا لیکن 1969ء میں فوج کو ضروری محسوس ہوا کہ اپنے ہی بنائے گئے دستور سے قوم کو نجات دلائے، اور یوں فقہی اصطلاح میں ہبہ سے رجوع کرلیا!
فوج نے ہی ایک عارضی بندوبست کے طور پر 1970ء میں Legal Framework Order دیا اور پھر کسی وجہ سے پاکستان آدھا رہ گیا تو 1972ء میں اسی آرڈر میں کچھ ترامیم کرکے عبوری دستور کے طور پر نافذ کیا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ ایک سویلین کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی مان لیا اور صدر بھی۔
بہرحال 1973ء میں ایک اور دستور قوم کو دیا گیا جس پر سیاسی جماعتوں کا تقریباً اتفاق بھی ہوا لیکن ایک دفعہ پھر قوم کو اس دستور سے بھی نجات دلانے کےلیے 1977ء میں فوج کو مجبور ہوکر آنا پڑا۔ دستور کا آپریشن کلین اپ کرچکنے کے بعد 1985ء میں ایک دفعہ پھر فوج نے قوم کو دستور کا تحفہ دیا لیکن جب قوم نے اس تحفے کی قدر نہیں کی اور بالخصوص تیرھویں اور چودھویں ترمیم کے ذریعے اس کا حلیہ مسخ کردیا تو 1999ء میں پھر فوج کو مجبور ہوکر قوم کو نجات دلانے کے لیے آنا پڑا۔ مذہبی و سیاسی جماعتوں کی آشیرباد سے بالآخر فوج 2003ء میں قوم کو ایک دفعہ پھر دستور کا تحفہ سترھویں ترمیم سمیت دینے میں کامیاب ہوگئی لیکن پھر چند قدر ناشناس ججوں سے نمٹنے کے لیے 2007ء میں فوج کو اپنے ہی دیے گئے تحفے کو پھر کچھ مدت کے لیے واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔
پلوں کے نیچے جب بہت سا پانی بہہ گیا، اور کچھ پانی پلوں کے اوپر بھی آگیا، تو پھر بالآخر فوجی صدر نے گارڈ آف آنر لینے کا فیصلہ کرلیا اور اس کے جانے کے بعد 2010ء میں اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے دستور کا حلیہ پھر تبدیل کرلیا گیا۔ نوبحال شدہ ججوں نے پارلیمنٹ کو پھر انیسویں ترمیم پر بھی مجبور کیا اور اس کے بعد بیسویں ترمیم بھی کرنی پڑی لیکن تاریخ کا اہم موڑ تب آیا جب دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے اکیسویں ترمیم کی ضرورت پڑ گئی اور دو سال کے لیے فوجی عدالتیں بھی بنالی گئیں۔ اب جبکہ وہ دو سال کی مدت بھی پوری ہوگئی اور فوج کے سربراہ کی ریٹائرمنٹ کا وقت بھی قریب آگیا ہے تو کئی لوگ افواہیں پھیلانے میں لگ گئے ہیں کہ قوم کو ایک دفعہ پھر دستور سے نجات دلانے کی ضرورت ہے۔
اس وقت سوال یہ ہے کہ جب خارجی و داخلی امور پر بیان بازی سے لے کر کرکٹ کوچنگ اور چلغوزے کی کاشت تک کے امور ”محفوظ شدہ امور“ میں شامل ہوگئے ہیں تو وزیراعظم اور اس کی کابینہ کے پاس ”منتقل شدہ امور“ میں کیا رہ گیا ہے؟ کیا 1919ء سے 2016ء تک کے اس سفر میں ہم واپس اس جگہ پر آگئے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا؟ یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے!
(ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد میں قانون کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)

Comments

Click here to post a comment