کیایہ اس کی دوسری غلطی ہے جس نے اسے عالم اور پریچر سے دہشت گرد اور قاتل گروہ کا سربراہ بنا دیا ہے؟
بہت کم ہوتا ہے کہ کسی ایک سفر سے اس قدر سوال وابستہ ہوں. انقرہ جاتے ہوئے سچ پوچھیں تو دل وسوسوں، ذہن خدشوں اور جیبیں سوالوں سے بھری تھیں. میرے دوستوں، اخباری احباب اور قارئین سبھی ترکی کے صدر رجب طیب ادرگان کی سلامتی، 15جولائی کی ناکام بغاوت کے پس پردہ اصل حقائق اور مستقبل کے امکانات بارے بات کرنے کے بعد صرف اسی کے متعلق جاننا چاہتے ہیں کہ فتح اللہ کون ہے؟ تین دہائیوں کے کمائے اور بنائے نام اور مرتبے کو یوں ایک دم اس قدر زوال کیسے آیا؟ اگر یہ بغاوت کامیاب ہوجاتی تو ترکی میں اسی کے نام کا وہی سکہ چل رہا ہوتا جس کی اثر پذیری نے تین سال قبل حاقان فیدان کو پریشان کر دیا تھا ۔ طیب اردگان اس لحاظ سے بےحد خوش بخت ثابت ہوا ہے کہ اپنے طویل دور اقتدار میں اسے محبت کرنے والے اور بےپناہ وفادار لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد میسر آئی ہے. حاقان اس کے پیچھے ایک سد سکندری بن کر کھڑا ہے، اسی کی رپورٹس پر ترکی کی تعلیم، سول سروسز میں آمد، ججز کے انتخاب اور فوج و پولیس میں شامل ہونے والے پورے نظام کو 2013ء میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ لمحہ گولن تحریک سے اردگان کی سیاسی دوری کا نہیں بلکہ دشمنی کے آغاز کا تھا۔ اس کے تیزی سے طے پانے والے اثر پذیری کے سفر کی راہ میں یہ شدید ترین رکاوٹ آگئی تھی جو فوجی صدر کنعان ایورن کے زمانے سے ملنے والی آسانی کے بعد سے برق رفتاری سے جاری تھا اور جس سے تنگ آ کر طیب اردگان نے اسے ایک متوازی نظام حکومت کا نام دیا تھا جو ہر جگہ اس کے آڑے آرہا تھا۔ ترکی سے دور بیٹھ کر اس کی سیاست، مزاج، اثرات اور چیلنجز کا اندازہ لگانا اس لیے بھی مشکل ہے کہ ہم صرف تجزیے اور جائزے کے سمندر کی اوپر کی سطح پر تیرنے کے مزے لینے میں آسانی پاتے ہیں۔ 15جولائی کی شب میں نے بھی اس عالم میں گزاری تھی کہ کسی پل چین نہیں تھا، ترکی میں ہونے والی بغاوت کی کامیابی مصر کی طرح جمہوریت کی موت اور اسلامسٹوں کی تین نسلوں کی بربادی پر منتج ہونی تھی کہ اس خطے کی روایات ایسی ہی خوفناک ہیں۔
فتح اللہ کی زندگی میں دو دنوں کی بڑی اہمیت ہے۔
ایک مارچ 1971ء کا وہ دن جب اسے فوجی دبائو پر ملکی نظام کو تبدیل کرنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب گولن کو پہلی بار یہ خیال آیا کہ بیوروکریسی اور فوج میں اثر پذیری کس قدر لازم ہے۔ وہ دوبارہ اس بےعزتی کو نہیں سہنا چاہتا تھا اور اپنی من پسند تبدیلی کے لیے مضبوط سہاروں کے ساتھ آگے بڑھنے کا خواہاں تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب وہ ازمیر میں شیخ فتح اللہ کے نام سے ایک بڑے حلقے کا رہنما بن چکا تھا۔ ایک عالم، ایک دانشور جسے لوگ شوق اور حیرت سے سننے لگے تھے اور دوسرا موقع 15جولائی 2016ء کی رات آیا جب اس نے زیراثر فوجی افسروں کی مدد سے ملک میں تبدیلی کی دوسری کوشش کی جو نہ صرف چند گھنٹوں میں ناکامی کا منہ دیکھنے پر مجبور ہو گئی بلکہ اس کے ساتھ ہی فتح الہ گولن کے لیے ترکی کی سر زمین ہی نہیں بلکہ وہاں بسنے والا قریبا ہر دل تنگ ہوگیا. یہ بغاوت اس کے لیے ایک نیا اور بہت برا تعارف بھی بن گئی۔ وہ کل تک ایک دانشور، پریچر اور عالم کے طور پر جانا جاتا تھا، آج وہ FETO نام کی دہشت گرد تنظیم کی سربراہی پر فائز ایک ناپسندیدہ ترین فرد قرار پایا جس کی سرکوبی کے لیے پوری پارلیمنٹ، تمام کمالسٹ،سیکولر اور نیشنلسٹ اور اسلامسٹ یکسو ہیں۔
آج اس کے حق میں کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی اور کوئی نہیں جانتا کہ ایسا خوف سے ہے یا دکھ اور تکلیف سے. فتح اللہ کے حامی فوجیوں نے جس بےدردی سے سویلینز کو مارا، ان کی تمام گفتگو، وٹس اپ میسجز، ایس ایم ایس گروپس، سب سامنے آنے کے بعد نفرت کم ہو تی دکھائی نہیں دے رہی۔ فوج کے سربراہ کا اغوا اور اسے فتح اللہ گولن سے بات کرانے اور تعاون پر مجبور کرنے والے اس کے اپنے سٹاف افسروں کی گرفتاری کے بعد دھوکہ دینے اور فوج کا نائب سالار ہونے کے باعث اپنے ہی سربراہ کی جاسوسی کرنے والے جنرل کے انکشافات نے لوگوں کو ششدر کر کے رکھ دیا ہے. 14جولائی کی شام اگر حاقان فیدان جا کر فوجی سربراہ سے نہ ملا ہوتا، کچھ ہو رہا ہے جیسے کسی بےنامی خدشے اور خطرے کو محسوس کرنے کا نہ بتایا ہوتا، اور فوج کے سربراہ کی طرف سے تمام ملٹری موومنٹس کو فوری روکنے کا حکم جاری نہ کروایا ہوتا، اور باغی اپنے وقت مقررہ پر صبح تین بجے ملک پر قبضہ کر لیتے تو خاکم بدہن طیب اردگان کے قتل کے بعد آج ترکی کا نقشہ کس قدر ہولناک ہوتا؟ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا. ایک دہائی کی محنت، مقبولیت اور خدمت سب دھری کی دھری رہ جاتیں۔ موت اسے چھو کر گزر گئی، وہ ایک بہادر اور نڈر رہنماکے طور پر پورے تر کی کا رہنما قرار پایا۔ یہ بغاوت فتح اللہ کے ماننے والے اور انقلاب کے لیے سرگرمی دکھانے والے اور تعاون کرنے والے 30ہزار سے زائد لوگوں کے جیل جانے کا باعث ٹھہرا۔
ٖFETO کی گردن پران 238 بےگناہوں کا خون ہے جو گولیوں کا نشانہ بنے، ٹینکوں کے نیچے کچلےگئے اور خاص طور پر استنبول کی وہ لڑکی جسے بے رحم فوجیوں نے ایک نہیں دو نہیں تین بار کچلا، کسی کی ٹانگ کے اوپر سے ٹینک گزرا تو کسی کے سینے گولیوں سے چھلنی ہوئے۔171 عام شہری موت اور شہادت کے گھاٹ اترے جو اپنی حکومت کو بچانے اور باغیوں کو روکنے کی جدوجہد کا رزق ہوئے۔ 63 پولیس کے جوان ان باغیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور خود ان کے اپنے 4 فوجی جوان جو ان سے تعاون پر تیار نہ ہوئے اور موت کے گھاٹ اتار دیے گئے. عام لوگوں کے لیے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر قیمت پر کامیابی پانے کے لیے گولن لوگوں کے اس بےرحمانہ چہرے کا تصور کرنا اب بھی آسان نہیں ہے، جس طرح ہمارے لیے یہاں بیٹھ کرگولن کے خلاف کچھ پڑھنا مشکل ہوتا رہا ہے، مگر انہوں نے 15جولائی کی وہ خوفناک رات تل تل مرتے اور پل پل کوشش کرتے گزاری ہے جو انہیں یہ سب بھولنے نہیں دیتی۔
امریکہ کی ریاست پنسلوینیا کے شہر سالس برگ میں فتح اللہ گولن اب بھی اسی 400 ایکڑ کی ذاتی سٹیٹ کے 3200 کنال کے گھر میں ”سادگی“ کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے۔ مگر پہلی بار اسے اپنے معتقدین کے علاوہ ان ناقدین کی شدید نفرت کا سامنا ہے جن کے 238 لوگ FETO کے حامیوں کی گولیوں، ٹینکوں کے گولوں اور ہیلی کاپٹروں کی اندھی بمباری سے موت کی نذر ہوگئے۔
فتح اللہ گولن نے تاریخ کے ایک متنازعہ کردار بننے سے قبل برس ہا برس بڑی عزت اور وقعت کی زندگی بسر کی۔ ترکی کے لوگ اب اسے ایک باغی اور غدار کا استعارہ جانتے ہیں۔ اس کو ماننے والے یا تو جیلوں میں ہیں یا زیر زمین خوف کی زندگی بسر کر نے پر مجبور ہیں۔ 65 کتابوں کے مصنف فتح اللہ گولن کی 13 کتابیں خود ہماری زبان اردو میں دستیاب ہیں۔ ان کتابوں میں اس نے جو کچھ لکھا اس ناکام بغاوت نے وہ سب کچھ حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ ترکی والوں کا کہنا ہے کہ اس کے ماننے والوں اور پیروکاروں نے در پردہ غیرقانونی کام کیا جس کی قانون اجازت نہیں دیتا۔ جنود الحق اور جیش النور کے نام سے اس کے زیر قیادت دو خفیہ تحریکیں کام کر رہی تھیں جنہوں نے اس کو آج کی تاریخ کا حسن صبا بنا دیا۔ اس نام کا پس منظر ہماری تاریخ میں بہت برا اور قابل نفرت ہے۔ اور ترکی میں آج اس کے لیے دہشت گرد تنظیم کے سربراہ کے بعد ایک یہی نام استعمال ہوتا ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ اس نے ایک نیا مذہب ایجاد کیا ہے جس میں اس کے پیروکاروں کو کچھ عرصے بعد ان کے شیخ کی طرف سے ہر عبادت معاف کر دی جاتی ہے، اس کی گواہی ہمارے ہاں بھی ان کے سکولوں میں پڑھانے والے کئی اساتذہ نے دی کہ ہم نے انہیں کبھی عبادت کرتے یا اسلام کی دعوت دیتے نہیں دیکھا۔ سلامت پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان جنہیں اسلام ہی کے باعث معزولی کا زخم سہنا پڑا تھا، کے ایک دست راست نے جو ترکی میں چیریٹی کے سب سے بڑے ادارے cansuyu کے سربراہ تھے، ایک ملاقات میں کہا کہ استاد اربکان نے 1998ء میں میں کہا تھا کہ اگر لوگوں نے فتح اللہ کا اسلام لے لیا تو دس پندرہ سالوں بعد تم اصل اسلام کی شکل دیکھنے کو ترس جائو گے۔ فتح اللہ کی اشیرباد پر ہی حکومت نے اربکان صاحب کی سعادت پارٹی پر پابندی لگا ئی تھی۔ اصل میں یہ فتنہ ہے اور اب قوم اس کو قابو کرنے پر متفق ہے۔ اس کی نظر میں اسلام کی ہر پابندی ناروا ہے، یہ اپنے پیروکاروں پر سے شراب کی پابندی بھی ہٹا دیتا ہے اور اس کے ساتھ باقی بھی اس نے ایک نیا مذہب ایجاد کیا ہے جو لاالہ اللہ تک ہے. اس کا کہنا یہ ہے کہ عیسی بھی اللہ کے نبی، موسی بھی اور محمد بھی اور انہی کے ماننے والے آپس میں لڑتے ہیں تو ہم سب ابراہیم خلیل اللہ پر متفق ہوجاتے ہیں. یہ امریکہ میں بین المذاہب ڈائیلاگ کا سرخیل ہے اور کہتا ہے کہ بین الاقوامی ہارمنی کے لیے محمد اور اس کے دین سے دوری لازم ہے۔
میرے لیے ان کی باتیں نئی تھیں اور میں نے ان کے حوالے سے کچھ بھی پڑھ یا سن نہیں رکھا تھا اس لیے خا،موش رہا، ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ اس قدر جھوٹے ہیں کہ جو کہیں اس کے الٹ چلو اور الٹ ہی مانو۔ ہمارے ساتھ دو نوجوان ٹرانسلیٹر تھے، ایک پاکستانی جو اب مستقل وہیں انقرہ میں مقیم ہے عمر فاروق، اور دوسرا ترکی شہری بہرام جو بہت عمدہ انگریزی بولتا تھا اور ملکوں ملکوں گھوما ہوا تھا، دونوں باتیں سنتے اور ترجمہ کرتے ہوئے بالکل نارمل تھے، اس کا واضح مطلب جو میں نے لیا وہ یہ تھا کہ یہ وہاں کی عام گفتگو رہتی ہوگی جو انہوں نے کسی حیرت کا اظہار نہیں کیا۔ مگر ہمارے میزبان نے ایک اور عجیب بات کہی کہ اس بغاوت نے اردگان کو ہمارا رئیس بنا دیا ہے، ہم نے اس سے اپنے سارے اختلاف ختم کردیے ہیں، وہی آج کے ترکی کا محافظ اور قائد ہے جس پر پوری قوم متفق اور متحد ہے. پاک ترک سکولوں کے بارے میں میں نے پوچھا تو بولے استاد اربکان نے کہا تھا کہ ان کے سکولوں میں اپنے بچوں کو بھیجو گے تو وہ صیہونی بنیں گے، پھر پچھتائو گے.
ترکی کے صوبے ارض روم ERZURUM کی ایک بستی کوروجک KORUCUK میں 27 اپریل1941ء کو پیدا ہونے والے فتح اللہ نے اپنی والدہ سے سے قرآن پڑھا اور والد رامز انندی سے دینی علوم کے ابتدائی اسباق۔ چند برسوں بعد اسے شیخ محمد لطفی اچھے لگنے لگے اور پھر یہ چاہت عثمان بکتاش کی تعلیمات کی قبولیت میں ڈھل گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے بچپن ہی سے فتح اللہ گولن نے بدیع الزماں سعید نورسی کو بھی چاہا جنہیں اتاترک نے دین سے محبت کے جرم میں جیل میں ڈالے رکھا اور ان کے ماننے والے سینکڑوں کو پھانسی کے گھاٹ کی زینت بنا دیا۔ فتح اللہ نے 19سال کی عمر میں مغربی ترکی کے شہر میں جامع مسجد اوچ شرملی کی امامت سنبھالی اور 1970ء تک اس کی شہرت ازمیر تک پہنچ گئی۔ اس کی خطابت پسند کی جانے لگی۔ لوگ اس کی باتوں اور خیالات کی طرف متوجہ ہونے لگے تھے تب اس نے پہلی غلطی کی اور اقتدار کی غلام گردشوں میں تبدیلی کے نام پر داخلے کا راستہ ڈھونڈنا چاہا اور گرفتار کر لیا گیا۔
1980ء کی دہائی میں اس نے نہایت حکمت سے ایک متبادل طریق کار اختیار کیا اور فوج اور بیوروکریسی میں موثر سمجھے جانے والے لوگوں کی مدد سے ’’حزمت‘‘ کے نام سے خدمت تحریک کا آغاز کیا۔ حزمت نے اسے شہرت اور قبولیت کی نئی بلندیوں سے ہمکنار کیا۔ وہ بڑے بڑے بزنس مین کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ اور پھر اسی دنیا کا ایک مضبوط نام بھی۔ وہ 8 ٹی وی چینلوں کا مالک بنا اور کتنے ہی بزنس کے اداروں کا بھی۔ 2013ء کی اس کی مصدقہ اور مستند رپورٹ کے مطابق اس کی سالانہ آمدنی 30بلین ڈالر قریبا 3000 کھرب روپے تک جا پہنچی تھی۔ امریکہ میں اس کے 129سکولز تھے جن کی آمدنی 400 ملین ڈالر تھی۔ اس وقت اس نے اپنے تعلقات کی حدود کو صہیونی لابی تک ہی وسیع نہیں کیا بلکہ 1998ء میں پوپ جان پال کی دعوت پر ملاقات کی اور پہلی بار وہ متنازعہ فتوی جاری کیا کہ جنت میں صرف مسلمان ہی نہیں ہوں گے بلکہ عیسائی اور یہودی بھی جگہ پائیں گے۔
اسی کی دہائی میں اس نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ چند اہم ممالک میں اپنے پاک ترک سکولز کا آغاز کیا جو ان دو دہائیوں میں ہر جگہ کی معاشرت میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق پاکستان میں تبدیلی کے لیے اس ٹیم کو گولن نے 25 سال کا عرصہ دیا تھا۔ یہاں پڑھے ہوئے بچے ترکی بھیجے جاتے ہیں۔ گولن تحریک سے وابستہ اداروں میں اعلیٰ تعلیم اور بعد میں اعلیٰ مناصب پاتے ہیں۔ یوں اس کے حامی دنیا کے کتنے ہی ملکوں میں پیدا ہوتے گئے۔ پاکستان سے ایک کثیر تعدا میں بزنس مین اور صحافی ترکی لے جائے جاتے رہے. یہ سبھی آج بھی پوری معصوومیت اور یکسوئی سے اس کا دم بھرتے ہیں کیونکہ ان کا تجربہ اور مشاہدہ آج کے ترکی سے مختلف تھا۔
ترکی کا کوئی محکمہ ایسا نہیں ہے جس میں گولن کے حامی اہم ترین عہدوں اور کلیدی ذمہ داریوں پر نہ ہوں۔ ہماری ترک وزیرداخلہ ایفکان الا سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے 74 شہروں کے پولیس سربراہوں کا گولن تحریک سے وابستہ ہونے کا انکشاف کیا۔ اس بات کو ترکی کے تمام اخبارات اور جرائد نے اگلے روز نمایاں خبر کے طور پر شائع کیا۔پاکستان واپس آ کر میں نے نیٹ سے گولن صاحب کی وڈیوز دیکھنی شروع کیں تو کچھ جناب طاہرالقادری جیسی بھی تھیں جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ مریخ سے ایک بچے نے آکر مجھے خوش خبری دی ہے کہ آخری فتح ہماری ہوگی، اسی طرح ایک میں وہ قرآن مجید کو ہاتھ میں لیے افسردہ کھڑے ہیں اور پس منظر میں رونے کی آوازیں آ رہی ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ آج قرآن کا باپ مرگیا ہے، اسے کوئی پڑھنے والا نہیں، اس لیے یہ روتا ہے. ان سے اس طرح کی بہت سی باتیں روایت کی جاتی ہیں جو ہمیں بھی ہضم ہونا مشکل ہیں.
1980ء تک فتح اللہ کی سوچ کا دائرہ اتنا وسیع ہو چکا تھا کہ اس نے جنرل کنعان ایورن کے مارشل لاء کی حمایت کی اور اس حمایت کے نتیجے میں اسے نہ صرف بےشمار سہولتیں مل گئیں بلکہ فوج کے اندر رسائی اور اثر پذیری کے لیے بھی یہ دور سنہری قرار پایا۔ 2013ء تک وہ طیب اردگان کا حامی تھا، پھر طیب اردگان نے اس کے عزائم دیکھتے ہوئے اسے ناقابل برداشت متوازی حکومتی نظام قرار دے کر اس سے اتحاد ختم کر دیا۔
فتح اللہ گولن نے عملا ہر اس کام کے الٹ کیا جو طیب اردگان نے کیا۔ طیب اردگان نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کی پھانسیوں کو ظالمانہ اور انسانیت کے تقاضوں کے برعکس اور انتقام قرار دیا تو گولن نے ان کی حمایت کر دی۔ طیب اردگان نے غزہ کے محصورین کے لیے امداد بھیجی تو گولن واحد آواز تھی جو اسرائیل کے حق میں اٹھی اور فلوٹیلا کے خلاف اس کا کہنا تھا کہ یہ اسرائیل کا حق ہے کہ اس سے پوچھا جائے، اس سے پوچھے بنا کیسے وہاں جایا جا سکتا ہے۔ غزہ پر حملوں کو اس نے اسرائیل کا اندرونی معاملہ قرار دیا تو اسے CIA کے ایجنٹ کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ ترکی میں اس کے ایک سابق معاون کی کتاب میں اسے امریکہ کا ایجنٹ ثابت کیا گیا ہے، ایک ملین سے زیادہ یہ کتاب بک چکی ہے، اس کا ترجمہ جناب عبدلغفار عزیز کے پاس دیکھا گیا ہے. بغاوت کے ابتدائی دنوں میں اس کی سرپرستی کا الزام بڑی شدومد کے ساتھ امریکہ پر لگایا جاتا رہا ہے، اس مداخلت کے کئی حوالے بھی دیے گئے مگر حال ہی میں ترکی کی پالیسی میں ایک بڑا پیراڈائم شفٹ دیکھ کر مجھے بھی حیرت ہوئی ہے، ترکی کے وزیراعظم بن یلدرم نے امریکہ کو اپنا سٹریٹیجک پارٹنر کہہ کر لگتا ہے اس پر سے یہ الزام واپس لے لیا ہے۔
گولن کے حامی آج بھی اسے بڑاصوفی، بڑاسائنسدان ، بڑا حافظ الحدیث اور بڑا سیاستدان مانتے ہیں مگر اب ان کی باتوں میں دم رہا نہ قبولیت۔ کل تک ذہین ترین بچوں کے والدین کے ذہن میں ’’حزمت‘‘ سے وابستہ لوگوں کی بات ہی سب سے بڑا سچ تھی کہ ہمارے ساتھ رہو گے تو پولیس، عدلیہ اور فوج ہر محکمہ کی ملازمت ہمارے ذمہ ہوگی۔ آج گولن سے وابستہ ہر ملازمت ختم ہو رہی ہے۔ صرف عدلیہ ہی سے ان سے وابستہ2500 جج نہ صرف نکال دیے گئے ہیں بلکہ گرفتار بھی ہیں اور مقدمات کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔ ان کی ملازمتوں کا فیصلہ اب انہی کے بھائی بندوں کے سپرد ہے.
8اگست کو استنبول ریلی نے گولن کے زوال اور نفرت کے طوفان کو عروج پر پہنچا دیا۔ 50 لاکھ لوگ ترکی کا پرچم اٹھائے بسم اللہ، اللہ اکبر اور لا الہ الاللہ کا نعرہ مکمل کرتے ہی اگلا نعرہ اسی کے خلاف لگاتے تھے۔ موجود انسانی تاریخ کے یہ سب سے بڑے اجتماعات میں سے ایک مانا گیا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا کہ ترکی کے کمالسٹ اور سیکولرسٹ پارٹیوں کے سربراہان سے لے کر آرمی کے سربراہ تک اس ریلی میں ایک ہی نقطے اور ایجنڈے پر جمع تھے کہ ترکی لوگوں کے ارادے اور حق کی فتح ہے۔ انہیں اس کی حفاظت کرنی ہے اور ملک کو گولن کے اثرات سے نکالنا ہے۔ فوج کی بغاوت کو اب صرف ایک ہی نام اور عنوان دے دیا گیا ہے۔ اور اب اسے صرف حکومتی پراپیگنڈہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، قوم اس بات پر متفق ہے کہ اس بغاوت کا ایک ہی نام ہے FETO'S COUP ATTEMPT IN TURKEY
بغاوت ناکام ہو چکی ہے مگر اہم ترین سوال یہ ہے کہ فتح اللہ گولن کے لگائے ہوئے انسانی فکری پودے جوگذشتہ 36 برسوں میں ترکی کے ہر اہم شعبے میں پھل پھول رہے تھے، کیا ان گرفتاریوں اور سزائوں کے بعد واقعی مرجھا کر ٹنڈ منڈ ہو جائیں گے؟ یا کچھ عرصے بعد پھر لہلہاتے اور بل کھاتے نظر آئیں گے؟ کیا گولن دوبارہ کبھی سر نہیں اٹھا سکیں گے؟ اور ترکی کتنی دیر اسی طرح متفق اور متحد رہے گا؟ ہم جو سیاست اور ریاست کے ہر کام میں چھاچھ بھی پھونکیں مار کر پینے کے عادی ہیں، بہت سوال اٹھاتے ہیں بلکہ اکثر تو سوال ہی اٹھاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ FETO کے مستقبل پر سوال ترکی سے باہر اٹھایا جاتا ہے، ترکی کے اندر اس پر کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ وہاں ایک گہری خاموشی، ایک گہرا یقین ہے کہ جیسے گولن کی کوئی جڑ سلامت نہیں رہے گی۔ وہ بطور قوم دوبارہ جمہوریت سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا رسک لینے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ ترکی اور اہل تر کی ہم سے بہت مختلف ہیں، ان کے لیے قوم، ملک اور جمہوری آزادی ایمان کی طرح مقدس اور محترم ہے جس کے لیے ان کی قوم آدھی رات کو بھی ٹینکوں کے مقابلے پر نکل آئی تھی اور ہم یہاں مقامی دانشوروں سے یہ سن رہے تھے کہ یہ ان کی ترجیح ہے، یہاں ایسا ہوا تو ہم نہیں نکلیں گے۔ وہاں ایسے دانشور نہیں ہیں اس لیے جمہوری آزادی اور عوامی اور قومی غیرت ان کی ترجیح ہے اور وہ اپنی واضح ترجیحات کے باعث سخت اقدامات بھی اس آسانی سے لیے جا رہے ہیں جس کا ہمارے ہاں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ایک لیڈر اور ساری قوم اس کے ساتھ اس کے پیچھے، حیرت ہی نہیں جاتی کیا قوم ہے یہ؟ کیا لوگ ہیں یہ؟ اپنی حکومت کے ساتھ، اپنی حکومت کے پشت پناہ اور پشتی بان کہ وہ ایک قوم کی طرح سوچتے ہیں، ایک قوم کی طرح ڈٹ کر فوج کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور خالی ہاتھ اپنی قمیضوں اور شرٹوں سے ٹینکوں کے دھویں والے پائپ بند کر کے انہیں ناکارہ کردیتے ہیں، پتھر اور لوہے کے ٹکڑے پھنسا کر ٹینکوں کی چینیوں کو کام کے قابل نہیں رہنے دیتے. کیا کروں ایسے لوگوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں، مل کر آیا ہوں،نہ حیرت جاتی ہے اور نہ حسرت۔
ترکی سے واپسی پر مجھے زیادہ شدت سے لگتا ہے کہ سوالوں کی تعداد اور سوالیہ نشان اب بھی بہت ہیں مگر ان کی نسبت میرا یہ سفر اور ظرف بےحد مختصر تھا۔
میں بنگلہ دیش میں دی جانے والی پھانسیوں کے خلاف ہوں لیکن آپ نے جو یہ لکھا ہے کہ یہ پھانسیاں پاکستان کو سلامت رکھنے کی کوشش کرنے پر دی جارہی ہیں‘ اس کی وضاحت فرمادیں۔ پاکستان کو سلامت رکھنے کی یہ کوشش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ انتخابات جیتنے والوں کو حکومت بنانے کی اجازت کیوں نہ دی گئی؟ اس کے بجائے ملٹری آپریشن کیوں کیا گیا؟
یہ کسی مستشرق کی تحریر کا سرقہ معلوم دیتا ہے ویسے بھی فرنچ کٹ رکھ کر مذھب و ملت کے پر تنقید سنا ہے یورپ و امریکہ کا ویزا امیگریشن دلانے میں بڑی ممدو معاون ثابت ھوتی ہے