وقت نکاح جب علامہ صاحب نے خوشی سے جھومتے ہوئے دلہے میاں سے پوچھا کہ کیا آپ پورے ہوش و حواس سے زندگی کے نئے سفر کو قبول کرتے ہیں تو دلہے میاں نے بغیر توقف کے لفظ قبول کو پوری جرات سےادا کیا، مٹھائیاں تقسیم کی گئیں اور دلہن کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا گیا. سسرال میں دلہن کا استقبال سارے پروٹو کولز کو مدنظر رکھ کر کیا گیا اور دلہن کی آمد خوش آئند قرار پائی۔
زندگی کی ایک نئی جہت کا آغاز ہوا۔ ایک طرف دلہے میاں خود کو خوش قسمت ترین اشخاص میں شمار کرنے لگے تو دوسری طرف دلہن خود کو خوش قسمت ترین بیوی کے روپ میں دیکھنے لگیں۔ شادی کے ایک دو ماہ تو سکون سے گزرے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تلخیوں میں اضافہ ہونے لگا۔ وہ زبان جس سے اظہارمحبت کے سوا کچھ نہ سنا گیا، اسی زبان پر آج نہ ختم ہونے والے شکوے تھے۔ پھر نوبت لڑائی جھگڑے تک آئی اور بیوی میکے رخصت ہوئیں۔
خاوند کا اضطراب جب حد سے بڑھا تواس نے اپنے علاقے کے صاحب بصیرت سے رابطہ کیا اور تمام حالات و واقعات سے ان کو آگاہ کیا۔ صاحب بصیرت بزرگ نے خاوند سے کہا کہ وہ ابھی میکے جا کر بیوی کو گھر لائے اور کل وہ گھر آکر دونوں فریقین کا مقدمہ سنیں گے۔ اگلے دن صاحب بصیرت بزرگ گھر تشریف لے گئے اور فریقین کا مقدمہ سنا۔ دونوں فریقین جب اپنے شکوے سنا چکے تو بزرگ نے میاں بیوی کو مخاطب کیا اور سوال پوچھا، تم دونوں نے وقت نکاح ایک دوسرے کو بحثیت انسان قبول کیا تھا یا بحثیت فرشتہ؟ دونوں نے یک زبان ہو کر جواب دیا، بحثیت انسان. جواب سن کر صاحب بصیرت بزرگ نے فرمایا:
”انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی انسان ہو کر فرشتہ بن جائے لہذا ہمیں انسانوں میں انسان کی تلاش کرنی چاہیے فرشتوں کی نہیں۔ قرآن حکیم میں خدا تعالی نے خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا ہے۔ لباس کامقصد جسم کو ڈھانپنا ہے نہ کہ جسم کو ننگا کرنا۔ خاوند اور بیوی کوچاہیے کہ ایک دوسرے کی خامیوں کو ڈھانپ کر رکھیں نہ کہ ہر جگہ شکوے کرتے پھریں۔ قرآن حکیم میں ہی دوسری جگہ اس رشتے کا مقصد ایک دوسرے سے تسکین حاصل کرنا بیان کیا گیا ہے، تسکین کا مقصد ہی یہی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرےسے دل کی ہر بات بیان کر سکیں۔ اس رشتے میں عزت و احترام ہوا کرتا ہے نہ کہ خود پسندی اور انا۔“
دونوں بزرگ کی باتوں کو سن کر یہ عہد کر چکے تھے کہ اب انہوں نے ایک دوسرے کا لباس بننا ہےاور بحثیت انسان ایک دوسرے کو قبول کرنا ہے۔
تبصرہ لکھیے