ہوم << عید قربان، کانگو وائرس اور غریب محنت کش - آصف رفیق

عید قربان، کانگو وائرس اور غریب محنت کش - آصف رفیق

پچھلے سال بڑی عید پہ پاکستان میں تھا. دیہات میں عید آج بھی رحمت اور محبت کے سچے جذبوں کا اظہار لیے ہوتی ہے یا شاید ہم پردیسی ایسی محبتوں کے پیاسے ہونے کی وجہ ان کا کچھ زیادہ ہی لطف لیتے ہیں. عید کے دنوں میں کچھ دوستوں اور ہمسائیوں کی غیر حاضری پر استفسار کیا تو پتا چلا کہ جانور بیچنے کراچی یا اسلام آباد گئے ہوئے ہیں، اس سوچ کے ساتھ کہ بڑے شہروں میں جانور اچھے ریٹ پر بک جاتے ہیں.
عید کے بعد سب لوگوں کی واپسی پر عجیب مایوس اور بجھے چہرے دیکھ کر سوال کیا کہ بھائی کیا ہوا تو بتایا گیا کہ اکثر لوگ اپنے جانور اچھے ریٹ نہ ہونے کہ وجہ سے واپس لے آئے ہیں، جانے آنے اور رہائش و کھانے کے اخراجات الگ سے گلے پڑ گئے اور عید پہ گھروں سے دوری بھی بھگتنا پڑی. پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اور عوام کی اکثریت بھی زراعت سے وابستہ ہے لیکن موجودہ حالات میں کاشتکاری دراصل پیشہ نہیں رہا، اس کے پیچھے اصل پیشہ اب غریب کاشتکار کے یہ جانور ہیں جنہیں وہ پورا سال عید قربان پہ اچھے ریٹ کی امید پر پالتے ہیں.
بڑے زمیندار کتنے فیصد ہیں اور زراعت میں ان کا کتنا حصہ ہے، یہ آپ گوگل کر سکتے ہیں لیکن عام کاشتکار کی ملکیت ایک ایک دو دو ایکٹر زمین ہے اور ان کی روزی روٹی بھی اسی چند کنال زمین سے چلتی ہے. پچھلے بہت سے سالوں میں مہنگائی اور بجلی کی کمی نے بےروزگاری میں اور بھی اضافہ کردیا ہے جس سے کاشتکاری پر انحصار اور بڑھ گیا ہے. اب کاشتکار ایک فصل اٹھا کر پچھلی فصل کا قرضہ اتارتا ہے اور اگر نصیب اچھے ہوں اور کچھ بچ جائے تو اگلی فصل کی تیاری میں لگ جاتا ہے لیکن پورا سال کی بچت وہ ایک یا دو جانور ہوتے ہیں جو عید پر بیچنے ہوتے ہیں ورنہ زمین کا رزق زمین کی نظر ہو جاتا ہے. انہی جانورں کی آمدن وہ واحد سہارا ہے جو بیٹی یا بہن کی شادی کے لیے اٹھائے جانے والے قرضے کی صفروں کو کچھ کم کرتا ہے .
اب کی بار عید سے پہلے ہی کانگو وائرس کا خوف میڈیا نے بچوں کے اغوا سے بھی زیادہ بڑھا کر دکھایا ہے جو عید سے اگلے دن پوری طرح ختم ہو جائے گا کیونکہ میڈیا کے کیمرے کو دکھانے کے لیے کچھ اور مل جائے گا، اور کچھ نہیں تو ریلیاں دھرنے تو روز دکھائے ہی جا سکتے ہیں. اس میڈیائی خوف و ہراس کا نقصان سیدھے طور پر غریب کاشتکار اور محنت کش کو ہو رہا ہے جبکہ اس کے درپردہ سمگلنگ اور کمیشن مافیا پورے عروج پر ہے اور ان کی چاندی ہو گئی ہے کہ مایوس غریب کو لوٹا جا سکے.
حکومت کو اگر فکر ہو تو ایسے مواقع پر ایسی منفی خبروں کو کنٹرول کر کے ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں کہ ایک بڑے کاروبار کو اور ایسا کاروبار کہ جس سے آبادی کا ہر امیر غریب متاثر ہو رہا ہے، نقصان سے بچایا جا سکتا ہے، لیکن کیا کریں کہ ایسے اقدامات سے تختیاں تو نہیں لگتیں، منصوبوں کی پریس کانفرنسیں بھی نہیں ہوتیں اس لیے ان کی طرف توجہ نہیں دی جا سکتی. غریب مرتا ہے تو مرتا رہے، مرے گا تو امداد کا اعلان کرنے سے مشہوری سمیٹیں گے.

Comments

Click here to post a comment