ہوم << ریستوران کلچر کے نقصانات - فیصل اقبال

ریستوران کلچر کے نقصانات - فیصل اقبال

فیصل اقبال ٹائٹل پڑھ کر شاید آپ کو لگا ہو کہ مولوی صاحب زیادہ کھانے کے نقصانات پہ تقریرجھاڑنے لگے ہیں حالانکہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ بڑھتے ہوئے ریستوران کلچر پر اپنے چند مشاہدات آپ کے گوش گزار کرنے کاارادہ کیا ہے۔
تقریبا ہر ریستوران والا تو اپنے سب سے بہتر ہونے کا یقین دلاتا ہی ہے اور دعوت دیتا ہے کہ .Spend some quality time with your loved ones at our place مگر اب تو ہمارے واعظین بھی غیرارادی طور پر ان ریستوران کے برانڈ ایمبیسڈر بنے نظر آتے ہیں؛ جب وہ کہتے ہیں کہ بھائیو! اپنے بیوی بچوں کو کبھی باہر لے جایا کریں، اور کچھ نہیں تو آئس کریم ہی کھلا لایا کریں. اگر دیکھا جائے تو یہ کہہ کر انہیں ریستوران کلچر کے حوالے کیا جا رہا ہے.
بیوی کو باہر گھمانے کے اس مشورے کے مفید ہونے کا قطعا انکار نہیں مگر اس کے نقصانات کیا ہوتے ہیں، وہ ہم بیان کیے دیتے ہیں، ان کا جائزہ آپ خود لے لیں :
ریستوران کلچر سے پیسے بہت ضائع ہوتے ہیں۔ وہ رقم جو گھر کی دس دن کی دال سزی کے لیے چل سکتی تھی، وہ صرف ایک وقت کے شوق شوق میں ہی اڑ جاتی ہے.
ریستوران کی صفائی کا حال تو اب بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ وقتا فوقتا فوڈ اتھارٹی والوں کے چھاپوں کی تصاویر آپ کی نظر سے بھی گزر رہی ہوں گی؛
بوفے سسٹم کے تو کیا کہنے۔ انسان نے جب ایک فکسڈ امائونٹ پے کرنا ہوتی ہے تو پیسے پورے کرنے کے چکر میں اپنا ستیاناس کر بیٹھتاہے۔ اندازہ کریں کہ 72 ڈشز بیک وقت کھا کر کسی شریف انسان کا کیا حال ہوتا ہوگا؟
چونکہ سوشل پریشر بہت زیادہ ہے لہٰذا کتنے ہی شریف لوگوں کو مجبورا اپنی خواتین کو وہاں وقتا فوقتا لے کر جانا پڑتا ہے۔
عفت اور حیا کا جو جنازہ دھیرے دھیرے سے نکلتا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ ایک خاص قسم کے کلچر کو پروموٹ کیا جاتا ہےاور معاشرے کے عام افراد اسے قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ فیملیز جو پہلے دن ناک بھوں چڑھا رہی ہوتی ہیں، آہستہ آہستہ انہیں بھی سب نارمل لگنے لگتا ہے؛
جہاں چار لوگ اکھٹے ہوجائیں وہیں کھانے پینے کی باتیں شروع ہوجاتیں ہیں، بلکہ اب تو بہت سی گیدرنگز ہی چیک انز کے لیے ہوتی ہیں۔
جب باہر کا چسکا لگ گیا تو پھر گھر کے کھانے کہاں بھاتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسے مرد جو اچھے اچھے رسٹورنٹس میں کھاتے ہیں، ان کو گھروالی کی ککنگ پسند نہیں آتی، نتیجہ گھریلوناچاکی کی صورت میں نکلتا ہے.
سب سے اہم یہ کہ
We spend for coffee, but we don't spend for Ummah
امت کی ترجیحات اور اقدار بدل رہی ہیں۔ رونا اسی کا ہے اور کوئی چیخ بھی نہیں رہا ؟

Comments

Click here to post a comment