ہوم << الطاف ہی غدار نہیں!-وجاہت علی خان

الطاف ہی غدار نہیں!-وجاہت علی خان

Wjahat-Ali-Khan
غداران وطن کی اسناد بانٹنے والے یہ تو بتائیں کہ کیا پاکستان میں صرف ایک جماعت یا اس کا قائد ہی وطن سے غداری کا مرتکب ہوا ہے کہ اثراندازہونے والی دیدئہ و نادیدہ قوتوں نے چشم زدن میں الطاف حسین کی دو ایک تقاریر کے بعد اسے پاکستان کا مخالف قرار دیتے ہوئے غداری کی سند عطا کردی، یہ قوتیں تب کہاں تھیں جب دہلی میں الطاف حسین ببانگ دہل کہہ رہا تھا کہ
The division of subcontinent was the grater blunde of the history of mankind.
اور اس کے ساتھ ہی وہ بھارت سے درخواست کر رہا تھا کہ اگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ مہاجروں کو کسی قسم کا طعنہ دے تو مہاجروں کو معاف کرکے اپنے ہاں بھارت میں پناہ دے؟ الطاف حسین گزشتہ 26 سال سے لندن میں خود ساختہ جلا وطن ہے اور اگر پاکستان کے ادارے سمجھتے ہیں کہ الطاف حسین پچھلی تین دہائیوں سے دشمن اور دوست، ملکوں کی کٹھ پتلی اور انہی کے ایما پر کراچی میں ہونے والی خونریزی، افراتفری اور ملک کو کمزور کرنے والے تمام تر اقدامات کا ذمہ دار ہے، وہ ”را“ اور اسرائیل کا ایجنٹ ہے تو پھر سوال میرا یہ ہے کہ گزشتہ تیس سال میں آنے جانے والی تمام حکومتیں اسٹیبلشمنٹ، میڈیا اور عوام نے اسے غدار قرار کیوں نہ دیا جب وہ صحافیوں کیلئے بوریاں تیار کروانے کی بات کرتا، رینجرز اور دیگر اداروں کے افسروں کے سروں پر ہتھوڑا مارنے اور جسموں میں ڈرل سے سوراخ کرنے اور بھیجہ فرائی کرنے کی باتیں کرتا، جب وہ پاکستان کے سارے میڈیا کو سرعام دھمکیاں دیتا اور اپنی مرضی مسلط کرنے کیلئے متشدد کارروائیاں اپنی تنظیم سے کرواتا تب ریاست کہاں تھی؟
لندن میں میری خبر کے مطابق گزشتہ دو ہفتوں کے دوران متحدہ اور الطاف حسین جو صورت گری سامنے آئی ہے اس میں کسی باہر والے کا نہیں بلکہ الطاف حسین کا اپنا ہاتھ ہے اور یہ راستہ اس نے کسی قسم کے ذہنی خلفشار کے تحت نہیں بقائمی ہوش و حواس سے چنا ہے اور یہ پلاننگ بہت پہلے کرلی گئی تھی، الطاف حسین کو سو فیصد یقین ہے کہ اب زندگی کی آخری سانس تک اس کیلئے پاکستان جانا ممکن نہیں اور پارٹی رہنما بھی دل سے چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان نہ جائے۔ اب الطاف حسین کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ یا تو کسی کو اپنا جانشین بنائے یا خود قائد رہے۔ خرابی صحت کی بنا پر دوسرا راستہ ممکن نہیں تھا اور کسی کو جانشین بنانے کا مطلب اپنے ہاتھ کٹوانا تھا اس لئے بہتر یہی تھا کہ پاکستان سے نفرت کی آخری حد تک جایا جائے تاکہ متحدہ کے کئی ایک گروپ بن جائیں اور پارٹی کسی ایک کے ہاتھ میں نہ رہے۔ الطاف حسین کو مال و دولت کی کمی ہے اور نہ ہی جان کا خطرہ، وہ محفوظ جنت میں ہے اور اس قدر مال و متاع موجود ہے کہ آئندہ سو برس بھی عیش و عشرت کی زندگی بسر کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا اگر میں پارٹی کا قائد نہیں تو کوئی دوسرا بھی سکون سے پارٹی سنبھال نہ سکے، کا الطاف حسین فارمولاکامیابی سے آگے بڑھ رہاہے،مجھے اس فارمولے کی سچائی کا یقین اس لئے بھی ہے کہ اگر ہمارے اداروں اور حکومتوں میں دم اور پاکستان کی سلامتی اگر انہیں حقیقی معنوں میں عزیزہوتی تو دس بیس سال پہلے یقینا الطاف حسین اور ”ایم کیو ایم“ پر پابندی لگ چکی ہوتی۔
حکومت پیپلزپارٹی کی ہو، مسلم لیگ کی یا پرویز مشرف کی ان تمام نے ”ایم کیو ایم“ کے معاملے میں مجرمانہ حد تک صرف نظراور غفلت کا مظاہرہ کیا بلکہ اس جماعت کی تمام تر چیرہ دستیوں،اینٹی سٹیٹ پالیسیوں، مار دھاڑ، بھتہ خوروں اور قتل و غارت گری کو ”حسینہ کی ادا“ سمجھ کر آنکھیں بند کئے رکھیں ان حکومتوں کے وزیراعظم سے لے کر دیگر حکومتی اکابرین نائن زیرو پر ایسے حاضریاں دیتے رہے جیسے وہ پیرکامل کا مزار ہو۔ پرویزمشرف کی فوجی حکومت بھی اس جماعت کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کرتی رہی چنانچہ ملکی اداروں کی مفاد پرستانہ پالیسیوں کی وجہ سے ”ایم کیو ایم“ اور الطاف کے حوصلے بڑھتے رہے۔ آج بھی ”ایم کیو ایم“ کی غداری ثابت ہونے کے بعد بھی اس قوم کی بدقسمتی دیکھئے کہ وسیم اختر جو بد تہذیبی اور بدتمیزی کا نانگاپربت اور 12مئی سے لے کر کئی دیگر جرائم کا ملزم ہے وہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا میئرجیل میں رہتے ہوئے بن جاتا ہے چنانچہ ” ڈھاک کے وہی دوپات“ تبدلی کیا آئی ہے؟
کیا حکومت اور ریاستی اداروں کو علم نہیں کہ گوادر کی بندرگاہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور سکیورٹی کیلئے کس قدر اہمیت کی حامل ہے؟ بھارت،امریکہ، برطانیہ، ایران اور یو اے ای تک اس منصوبے کو کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور یہ منصوبہ پاک چائنا دوستی اورمعاشی راہداری منصوبے کیلئے کس قدر ضروری اور اہم ہے لیکن اس کے باوجود ”ایم کیو ایم“ جیسی جماعت اور اس کے لیڈروں کو ڈھیل دینا یقیناہماری سمجھ سے توبالاتر ہے، کیا پاکستان کے ریاستی اداروں کی یادداشت میں یہ بات نہیں کہ ”ایم کیو ایم“ کے فاروق ستار نے 28نومبر 2009ءکو پاکستان کے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر بیٹھ کر اپنی اس شاطرانہ خواہش کا اظہار کیا تھا کہ گوادر کی بندرگاہ کاسارا کنٹرول اور اس کے تمام تر وسائل کو صوبے کی دسترس میں دے دیا جائے۔ میرے خیال میں دانشمند قارئین کو یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں کہ فاروق ستار کی اس خواہش کے پس پردہ امریکہ،بھارت اور کس کس کی معصومانہ خواہشیں چھپی ہوئی تھیں اور میرے خیال میں قوم یہ بھی جانتی ہے کہ مشرف دور سے لے کر زرداری دور تک بابر غوری کو پورٹ اینڈ شپنگ کا وزیربنواکر ”ایم کیو ایم“ نے کھرب ہا روپے ہڑپ کرنے کے علاوہ بھی کیا کیاستم اس ملک کی سکیورٹی کے ساتھ کئے اور اب ان کی نظر گوادر پورٹ پر بھی ہے! کراچی اور حیدر آباد کی تاجر کمیونٹی او رپاکستان بھر کا میڈیا ان کی بدمعاشیوں سے علیحدہ پریشان اور چوٹ کھایا ہوا ہے اور بھتے دے دے کر تنگ آچکا ہے۔
پاکستان کے میڈیا کو بھی اب خوف کی فضا سے نکلنا اور الطاف حسین کے دباﺅ اور جمود سے باہر نکلناچاہیے اور عوام کو شفاف طریقے سے سچ بتانا چاہیے کیونکہ اگر الطاف حسین کو صاحب اور جناب یا محترم کہاجائے گا تو اس کا مطلب ہے الطاف حسین پر پاکستان دشمنی اور غداری کا فقط الزام ہی لگایا جا رہا ہے کیونکہ میرے خیال میں تو کسی غدار وطن کیلئے عزت و احترام اور تہذیب کا کوئی قاعدہ لاگو نہیں ہوتا۔ کیا ہم میر جعفر اور میر صادق یا اس قسم کے کسی دوسرے غدار کو جناب‘ صاحب یا محترم کے کسی سابقے اور لاحقے سے یاد کرتے ہیں؟ میڈیا کیلئے ضروری ہے کہ وہ عوام کو بتائے کہ کس کس حکمران اور کس ریاستی ادارے پر بھی غداری کا وہی لیبل چسپاں کیا جا سکتا ہے جو الطاف حسین یا ایم کیو ایم پر لگایا جا رہا ہے۔ کیوں نہ آصف علی زرداری سے پوچھا جائے کہ آپ نے حسین حقانی جیسے غدار کو امریکہ میں سفیر کیوں بنائے رکھا‘ یوسف رضا گیلانی نے اسے وزیراعظم ہاﺅس میں کیوں چھپائے رکھا اور پاکستان کے قیام کو تاریخ انسانی کی سب سے بڑی غلطی کہنے والے کے دفتر پر حاضریاں کیوں دیتے رہے؟ اور پوچھا جائے رحمان ملک سے کہ تم الطاف حسین جیسے غدار کو بھائی بلکہ بڑا بھائی کیوں کہتے ہواور لندن میں کیوں چھپ چھپ کر الطاف حسین سے ملتے ہو اور کیوں نہ آصف زرداری سے یہ بھی جواب طلب کیا جائے کہ جناب آپ کی پارٹی کا برطانیہ میں ہائی کمشنر فار پاکستان واجد شمس الحسن ”نادرا“ کی مشین لے کر الطاف حسین کا ”نیکوپ“ کارڈ بنانے کیلئے ایم کیو ایم کے انٹرنیشنل سیکرٹریٹ بنفس نفیس کیوں جا پہنچا تھا اور پھر وزیراعظم نوازشریف سے جواب طلبی کیوں نہ کی جائے کہ آپ نے بھی اسی واجد شمس الحسن کو کیوں چارج دیئے رکھا؟ ایبٹ آباد کمیشن میں عدالتی حکم کے باوجود ہائی کمشنر ہوتے ہوئے بھی پاکستان نہیں گیا اور آصف علی زرداری کی کرپشن کی کمائی کا خاص رازدان ہے۔
ریاستی ادارے اور حکومت سے یہ استفسار بھی ہے کہ آپ کے سفارتخانوں اور ہائی کمیشن کے دفاتر میں بھی ایک نظر کیجئے۔ الطاف حسین قبیل کے بہت سے کردار آپ کے سامنے آئیں گے جو ڈبل گیم کھیلتے ہیں جو پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگاتے ہیں اور ”را“ کے ایجنٹوں سے بھی شناسائی بلکہ آشنائی رکھتے ہیں اور انتباہ کے باوجود اپنے گروہ کی مضبوطی کو پاکستان کے استحکام پر ترجیح دیتے ہیں‘ میری نظر میں اس قماش کے تمام افراد اور گروہ قابل گرفت بھی ہیں اور غداری کے احاطے میں بھی لائے جا سکتے ہیں اور جی ہاں! وہ لوگ بھی جو پاکستان کے قومی خزانے کے ہزارہا کھرب روپے ڈکار گئے‘ جنہوں نے عوام کے خون پسینے کی کمائی بیرون ملک بینکوں میں جمع کروا رکھی ہے اور آج صاحب حیثیت و صاحب ثروت افراد کے روپ میں سفید پوشوں کی گردنوں پر سوار ہو کر ان کی عزت نفس کو نوچنے کھروچنے میں مصروف کار ہیں۔ کیا یہ پاکستان کے مجرم نہیں‘ کیا یہ پاکستان کےخلاف نہیں اور سیدھی بات ہے جو پاکستان کےخلاف ہیں وہ پاکستانی غدار وطن ہے‘ اکیلا الطاف حسین ہی نہیں۔