ابوالحسن نغمی ہندوستان کے شہر سیتا پور میں پیدا ہوئے‘ سیتا پور لکھنؤ ڈویژن کا خوبصورت شہر ہے‘ نغمی صاحب کے جد امجد سید سلطان شاہ اکبر اعظم کے دور میں بہار میں آباد ہوئے‘ جہانگیر کے زمانے میں انتقال فرمایا اور پٹنہ کے قریب مدفون ہوئے۔ نغمی صاحب 19 سال کی عمر میں مہاجر ہو کر لاہور آ گئے‘ یہ ریڈیو پاکستان میں ہونہار کے نام سے بچوں کا پروگرام کرتے تھے اور روزنامہ امروز میں حالات حاضرہ پر قطعہ لکھتے تھے‘ ملک کا بچہ بچہ بھائی جان نغمی کا دیوانہ تھا جب کہ جوان اور بوڑھے ان کے قطعات کے متوالے ہوتے تھے لیکن پھر یہ 1972ء میں ایک بار پھر مہاجر ہو گئے‘ یہ اپنے چھ بچوں سمیت امریکا شفٹ ہو گئے‘ وائس آف امریکا میں ملازمت کی اور باقی زندگی واشنگٹن میں گزار دی ۔
مجھے ابوالحسن نغمی صاحب کی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ یہ کمال خوبصورت نثر لکھتے ہیں‘ میں ان کے خوشبو دار لفظوں اور دلفریب فقروں کے سحر میں گرفتار ہوں‘ ابوالحسن نغمی اور ان کی اہلیہ یاسمین نغمی نے لکھنؤ کی تہذیب میں پرورش پائی تھی اور لکھنؤ کی تہذیب کیا تھی؟ یہ سمجھنے کے لیے اتنا جاننا کافی ہے‘ ہندوستان کے نواب اپنے بچوں کو شائستگی‘ تہذیب‘ ادب اور فنون لطیفہ سکھانے کے لیے طوائفوں کے پاس بھجوا دیتے تھے‘ گویا لکھنؤ کی طوائفیں بھی تہذیب اور ادب کی یونیورسٹیاں ہوتی تھیں‘ آپ شرفاء کی شرافت اور شائستگی کا اندازہ خود لگا لیجیے‘ نغمی صاحب نے لکھنوی گھرانوں کی شرم و حیاء اور شرافت کے بے شمار قصے بیان کیے ہیں لیکن ایک واقعے نے مجھے حیران کر دیا‘ نغمی صاحب کا فرمانا تھا‘ لکھنؤ سے چھیالیس میل کے فاصلے پر خیر آباد کا قصبہ تھا‘ خیر آباد کے محلے قضیارہ میں کرمانی سید رہتے تھے۔
ریاض خیرآبادی اسی محلے کے باسی تھے‘ ان کی بھتیجی وکالت فاطمہ مدن دادی کہلاتی تھیں‘ ریاض خیر آبادی کی صاحبزادی شمع خیر آبادی ایک دن مدن دادی کے پاس بیٹھی تھیں‘ ان کا شیر خوار بیٹا ان کی گود میں کھیل رہا تھا‘ بچے نے توتلی زبان سے کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے ماں کو بچے پر پیار آ گیا‘ اس نے بچے کا منہ چوم لیا‘ مدن دادی تڑپ کر بولیں’’ ہا! بدتمیز تو کیسی بے شرم ہے تو نے میرے سامنے اپنے بچے کا منہ چوم لیا‘‘ شمع خیر آبادی شرم سے پانی پانی ہو گئیں‘ بچے کو گود سے اتارا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ چھپا لیا‘ لکھنؤ میں شرم و حیاء کے یہ پیمانے تھے‘ لوگ اپنے بیٹے کا منہ چومنا بھی بے حیائی سمجھتے تھے‘ لکھنؤ میں بچے اپنے جوان والد کو ابا نہیں کہتے تھے‘ بھائی جان‘ بھائی صاحب یا بھیا کہتے تھے‘ جوان ماں کو اماں یا امی کہنے کا رواج بھی نہیں تھا‘ ماں جب تک بوڑھی نہیں ہو جاتی تھی وہ باجی‘ آپا یا آپی کہلاتی تھی‘ دولہا شادی کے بعد کئی سال تک اس کمرے‘ دلان حتیٰ کہ اس چھت کے نیچے سے بھی نہیں گزرتا تھا ۔
جس پر اس کی دلہن بزرگوں کے درمیان گھونگھٹ نکال کر سر جھکا کر بیٹھی ہوتی تھی‘ نغمی صاحب نے اپنی ازدواجی زندگی کے ابتدائی دنوں کے تین حیران کن واقعات تحریر کیے‘ ان کا فرمانا تھا‘ ان کی خواب گاہ چھت پر تھی اور یہ ممکن نہیں تھا ان کی دلہن ساس‘ سسر‘ دیور‘ نندوں اور ملازموں کی موجودگی میں آنگن سے گزرکر بالائی منزل پر آ جائے ‘ بیگم گھر کے تمام لوگوں کے سونے کا انتظار کرتی تھی‘ سسرال کے لوگ جب سو جاتے تھے تو بیگم پہلے پیروں کے زیور اتارتی تھی اور پھر دبے پاؤں چوروں کی طرح آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ جاتی تھی‘ نغمی صاحب نے لکھا‘ میں لاہور میں ملازمت کرتا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹی کی نعمت سے نوازا‘ میں چھٹی پر گھر گیا تو بچی چلنا سیکھ چکی تھی۔
میں بزرگوں کے درمیان بیٹھا تھا‘ میرا بھانجا نیئر بیٹی کو اٹھا کر میرے قریب لایا اور مجھے سرگوشی میں بتایا ’’یہ آپ کی بیٹی تاج ہے‘‘ بچی کو اٹھانا اور پیار کرنا تو دور کی بات تھی مجھے اتنی ہمت نہیں ہوئی میں بزرگوں کی موجودگی میں اپنی بیٹی کی طرف دیکھ بھی سکوں‘ میں نے جب کمرے میں جا کر اپنی بیٹی کو کلیجے سے لگایا تو وہ حیران ہو کر اپنی ماں سے پوچھنے لگی ’’یہ آدمی کون ہے‘‘ نغمی صاحب کا کہنا تھا‘ میں چھ بچوں کا باپ بن گیا لیکن شرم و حیاء کی وجہ سے بچے مجھے ابا نہیں کہتے تھے یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی اچھے میاں نے ایک دن اعلان کر دیا‘ ہمارے خاندان کے تمام بچے آج سے بھائی جان کو باباجان کہیں گے اور یوں شادی کے دس بارہ سال بعد یہ مسئلہ حل ہوا جب کہ بچے ماں کو اپی کہتے تھے‘ یہ آپی کی بگڑی ہوئی شکل تھی‘ میرے بچے اور میرے بچوں کے بچے آج بھی انھیں اپی کہتے ہیں۔
یہ ہیں وہ لوگ جو ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور مہاجر کہلائے‘ ہمیں ماننا ہو گا یہ لوگ تعلیم‘ شائستگی‘ تہذیب اور تمدن میں ہم سے بہت آگے تھے‘ یہ کھیرا بھی اتنی شائستگی سے کھاتے تھے کہ کھیرا خود کو کھیرا صاحب سمجھنے لگتا تھا‘یہ کتے کو کتاکہنا زبان کی توہین سمجھتے تھے‘ یہ اونچی آواز میں بات کرنے والوں کو گنوار کہتے تھے‘آپ کے لیے شاید یہ انکشاف ہو اردو میں گھٹیا کا مطلب سور کا بچہ ہوتا ہے‘ یہ لوگ اتنے شائستہ تھے کہ یہ سور کے بچے کو بھی سور کا بچہ نہیں کہتے تھے گھٹیا کہتے تھے۔ ڈاکٹر اجمل میرے دوست ہیں‘ یہ جوانی میں اسلام آباد کے اسسٹنٹ کمشنر تھے‘ یہ ایک بار جناب افتخار عارف کے ساتھ کسی صاحب زبان کے گھر کھانے کے لیے گئے‘ میزبانوں نے کھانے کا پرتکلف اہتمام کر رکھا تھا‘ خاتون خانہ نے کھانے کے دوران مہمانوں سے تکلفاً پوچھ لیا ’’آپ کو مزید کوئی چیز درکارتو نہیں‘‘ ڈاکٹر صاحب سادہ سے پنجابی ہیں‘ یہ پٹاخ سے بولے ’’آپ کے پاس اچار ہو گا‘‘ یہ سن کر میزبانوں کے رنگ سرخ ہو گئے۔
خاتون نے کچن سے اچار تو لا دیا لیکن وہ کھانے کے دوران ڈسٹرب رہی‘ ڈاکٹر اجمل نے واپسی پر افتخار عارف صاحب سے پوچھا ’’یہ لوگ اچار مانگنے پراتنا برا کیوں منا گئے تھے‘‘ افتخار عارف صاحب نے فرمایا ’’بیٹا ہمارے علاقے میں جب مہمان اچار مانگ لے تو اس کا مطلب ہوتا ہے اسے کھانا پسند نہیں آیا‘‘ میں جب بہاولپور میں پڑھتا تھا تو مجھے میرے دوست رانا شہزاد ایک بار کسی صاحب کے گھر لے گئے‘ یہ صاحب صوبہ بہار کے مہاجر تھے‘ یہ روز دفتر سے آنے کے بعد غسل کرتے تھے‘ سفید استری شدہ پائجامہ اور کرتہ پہنتے تھے‘ خوشبو لگاتے تھے اور اپنی بیٹھک میں بیٹھ جاتے تھے‘ محلے کے کسی شخص نے انھیں کبھی رف حالت میں نہیں دیکھا‘ میں نے ان کے سامنے غلطی سے رانا شہزاد کو اوئے کہہ دیا‘ ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا‘ ماتھے پر پسینہ آگیا اور غصے سے ان کے ہاتھ کانپنے لگے‘ میں ڈر گیا‘ وہ دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔
ذرا سے نارمل ہوئے تو بس اتنا کہا ’’دوستی میں دوستوں کی عزت شرط ہوتی ہے‘‘ میں نے اس کے بعد زندگی میں کبھی کسی دوست کو اوئے نہیں کہا‘ شکیل عادل زادہ صاحب بھی مہاجر ہیں‘ یہ میرے بزرگ‘ مہربان اور استاد ہیں‘ پاکستان میں اس وقت ان سے بڑا اردو دان کوئی نہیں‘ گلزار صاحب جیسا شخص بھی ان کے قدموں میں بیٹھتا ہے‘ میں ان کی شائستگی دیکھ کر اکثر محسوس کرتا ہوں یہ اگر کبھی گالی دیں گے تو گالی کو بھی اپنے اوپر فخر محسوس ہونے لگے گا‘ یہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں‘ یہ زندگی بھر ’’سب رنگ‘‘ کے نام سے ملک کا مقبول ترین ڈائجسٹ شایع کرتے رہے‘ میں نے آج تک ان کے منہ سے کوئی ناشائستہ لفظ نہیں سنا‘ غیبت تو دور یہ کسی کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولتے‘ یہ بھی ہجرت کر کے پاکستان تشریف لائے تھے اور انھوں نے پوری زندگی شائستگی کی تعلیم و تربیت میں گزار دی‘ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں شکیل عادل زادہ‘ ابوالحسن نغمی اور افتخار عارف جیسے لوگوں نے پاکستان بنانے اور چلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یہ لوگ جب تک ہماری سول سروس میں شامل رہے یہ ملک اس وقت تک ترقی کرتا رہا لیکن جب مقامی لوگوں نے ان کی جگہ لی تو ملک تباہ ہو گیا اور ہمارے ادارے ڈھلوان پر لڑھکنے لگے۔
یہ تہذیب اور شائستگی کے پیکر اگر مہاجر ہیں تو پھر الطاف حسین کون ہے؟ یہ کن لوگوں کا لیڈر ہے؟ یہ کس کمیونٹی کو مہاجرکمیونٹی اور کن مہاجروں کو پاکستان بنانے والوں کی اولاد کہتا ہے؟ اگر شکیل عادل زادہ‘ ابوالحسن نغمی اور افتخار عارف مہاجر ہیں تو پھر الطاف حسین کے ٹنڈے‘ کالے‘ مادھوری‘پگلا‘عرفی‘بھورا‘ملا‘ سلو‘ کاکا‘ٹوپی‘ چھوٹا‘ کانا‘ پپن‘ درندہ ‘ ناک چھپٹا‘ ڈینٹر اورچنا مولوی کون ہیں اور اگر اوئے کا لفظ سن کر اور اچار مانگنے پر سرخ ہو جانے والے لوگ مہاجر ہیں تو پھر مخالفوں کے لیے بوری کا ماپ لینے اور ’’ٹھوک دیں گے‘‘ جیسی دھمکیاں دینے والے لوگ کون ہیں‘ میرا دل تو نہیں مانتا قائداعظم کے شہر میں پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے والے لوگ مہاجر ہو سکتے ہیں۔
کیا آپ کا دل مانتا ہے؟جواب دیجیے۔
تبصرہ لکھیے