انسانی زندگی کی روانی معاشر ے سے جڑی ہوئی ہے اور یہ جوڑ جس قدر مضبوط ہوگا اسی قدر معاشرتی اکائیاں پختہ ہوتی جائیں گی. ہم ایک معاشرتی زندگی گزارے بغیر اپنے بہت سے امور کماحقہ انجام نہیں دے سکتے اور ایسے امور نہ ہونے کے برابر ہیں جن کو ہم اپنی مدد آپ کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچاسکیں. ہمیں ہر اگلے قدم پر ایک سہارا مطلوب ہے جو کہ ہماری محتاجی نہیں بلکہ ہماری معاشرتی زندگی کی دلیل ہے. ہم اکیلے کب تک کیا کیا کر پائیں گے، معاشرے کی یہی خوبی ہے کہ آپ پر اتنا ہی بوجھ لادا جاتا ہے جتنے کی آپ میں سکت ہو۔
یہ تو ہوا معاشرے کا ایک بنیادی تعارف لیکن جس قدر تیزی کے ساتھ صنعتی ارتقاء ہو رہا ہے، اس کے اور بہت سے نتائج کے علاوہ اہم ترین یہ ہے کہ ہم نے اپنا جیون صرف اپنے لیے جینا شروع کردیا ہے جو کہ ایک معاشرتی زندگی کے لیے ناسور کی حیثیت رکھتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ہماری وسعت قلبی اور مخلصانہ پیش رفت خود غرضی کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہے. ہماری تعلیمات، اخلاقیات، معاشیات، سیاسیات سب کا رخ خود غرضی اور اپنی انا کی تسکین کی طرف ہے، ان میں سے کچھ بھی تب تک نہیں کرنا جب تک ہمیں اپنا توقع سے بڑھ کر فائدہ نظر نہ آرہا ہو، ہم فقط اپنے ہی ہوئے جا رہے ہیں، اوروں کے لیے ہم اجنبی ہوچکے ہیں ۔
زمانہ کی تیزی ہمیں دنیا سے باہر کے معاملات سے تو باخبر رکھی رہتی ہے لیکن اس گھر کی مجھے کوئی خبر نہیں جو میرے گھر کے سامنے ہے، جس کا سامنا مجھے گھر سے نکل کر سب سے پہلے کرنا ہوتا ہے کیونکہ وہ میرے لیے اجنبی ہے اور اجنبی کو بھلا کوئی کیوں پوچھے؟
اب تو اصطلاحات کا بھی تبدیل ہونا ممکن ہے. شاید کچھ وقت کے بعد اجنبی اس کو کہا جائے گا جس کا نمبر آپ کے پاس نہ ہو، جس کی فیس بک آئی ڈی اور ای میل ایڈریس نہ ہو، اس کے بعد چاہے وہ میرا پڑوسی ہو یا رشتہ دار یا کوئی اور، اس سے صلہ رحمی کرنا تب ہی لازم ہے جب وہ ان مقدس ذرائع ابلاغ کا حصہ دار ہو. یہی وجہ ہے کہ ہماری نظر میں وہ شخص قابل فخر اور لائق تحسین ہے جس کی آئی ڈی میں پانچ ہزار نام نہاد دوست جمع ہوجائیں، چاہے ایک دوسرے کو جانتے ہی نہ ہوں اور چاہے بعد میں وہ دوست دشمنی کا بھرپور کردار ہی کیوں نہ ادا کریں اور جو میرا حقیقی دوست ہے، وہ میرے نزدیک ناکامی کا شکار ہے صرف اس وجہ سے کہ وہ ان سہولیات سے بہرہ ور نہیں جن کے ذریعے ہم پرائیوں کو اپنا اور اپنوں کو پرایا سمجھنے لگتے ہیں۔
مذکورہ اوصاف ہماری روز مرہ زندگی کی ترجمانی کر رہے ہیں لیکن ہمیں کف افسوس ملنے کی نوبت ہی نہیں آنی کیونکہ ہم نے یہ سب ترقی کے نام پر شروع کر رکھا ہے جس کا سیدھا سا مطلب یہی ہے کہ ہماری سوچی سمجھی ترقی کا جنون ہمیں زوال کے گڑھے میں پھینک کر ہی دم لے گا۔
بیداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے نفع نقصان کو پہچانیں اور ان سہولیات کو ان کی حد میں رکھ کر اور اپنی حد میں رہتے ہوئے استعمال کریں، ایسا نہ ہو کہ ہم ایک دن اپنی معاشرتی زندگی کو کھو بیٹھیں جو کہ ایسی نعمت ہے جس کے لطف سے عالم ہستی کے اکثر اقوام و ممالک بےخبر و عاری ہیں، جس کے سبب ہم ان مغربی افکار سے لاتعلق ہو جاتے ہیں جہاں معاشرہ نامی اصطلاح بےاثر ہوچکی ہے اور لوگ خود غرضی اور اپنی انا کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں. ڈر یہ ہے کہ اس سنگینی کے اثرات ہمارے آس پاس بھی منڈلانے شروع ہوگئے ہیں لیکن اگر ہم نے بیدار مغزی کا مظاہرہ کیا تو باطل کا یہ وار چور چور ہو جائے گا اور ایک دن آئے گا کہ وہ ہم سے ہماری معاشرت سیکھنے آئیں گے اور وہ وقت حق کے بول بالا کا ہوگا۔
بہت اچھوتے موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور مرد کے اس پہلو کو بہت اچھی طرح واضح کیا ہے۔
آپ کا یہ مضمون بہت پسند آیا۔
"دلیل" کے قاری سے "دلیل" کے لکھاری کا سفر ایک خواب سا لگتا تھا۔
اس اعتماد پر آپ سب کا شکریہ