پاکستانی ڈرامے سنا ہے، دنیا بھر میں مقبول ہیں… پڑوسی ملک کے ناظرین جو اپنی فلم انڈسٹری پر فخر کرتے ہیں، سنا ہے وہ بھی ہمارے ڈراموں کے عاشق ہیں… ہمارے ڈراموں کی حد سے زیادہ تعریف نے پھر ہمارے ڈرامہ بازوں کو اس نفسیاتی مرض میں گرفتار کر دیا جس میں ہمارے محلے کی شنو بھی گرفتار ہوئی تھی!
شنو ایک اچھی سلجھی ہوئی لڑکی تھی…گرچہ دکھنے میں بس قبول صورت ہی تھی…
مصیبت مگر یہ ہوئی کہ اس کے گال پر ڈمپل پڑا کرتے تھے!
ان ڈمپلوں نے ہی پھر اسے نفسیاتی مریضہ بنا دیا… وہ ایسے کہ خاموش سی شنو ایک بار محلے کی عورتوں کی کسی مجلس میں کسی بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑی… اس سے پہلے کہ اس کی ماں اسے ٹوکتی…ایک عورت نے ہنستے ہوئے اس کے رخسار پر پڑنے والے ڈمپلز دیکھے اور بے ساختہ تعریف کر دی… ساری عورتیں متوجہ ہو گئیں، پھر سب ہی نے اس کے ڈمپل کوموضوع بنالیا… شنو شرما کر اپنے آپ میں سمٹ کر رہ گئی۔
عام سی قبول صورت بے چاری شنو کی کبھی ایسی تعریف تو کیا 'کیسی' بھی تعریف نہ ہوئی تھی…سو وہ اس تعریف کے سحر سے ہفتوں نہ نکل سکی… بار بار وہ آئینے میں دونوں ہونٹوں کو ہنسی کے انداز میں کھینچ کر دیکھتی اور ننھے ننھے ان کھڈوں کو نمودار ہوتے دیکھ کر پھولی نہ سماتی…
ابھی شنو پچھلی تعریف کے سحر سے نکلنے بھی نہ پائی تھی کہ ایک تقریب میں پھر چند لڑکیوں نے اس کے ڈمپلز کی تعریف کر دی… بس پھر کیا تھا، شنواس دن کے بعد سے نفسیاتی ہو گئی… اب وہ بات بے بات، ہر وقت ہنستی دکھائی دینے لگی…تقریبا ہر وقت ہی اس کے گال گول اور ہونٹ کمان کی طرح کھنچے رہتے، تا کہ ڈمپل نظر آتے رہیں… پھر یہ اس کی عادت ثانیہ ہی بن گئی، جس نے اسے بے حد خوار کیا… حیا دار جوان لڑکی اچانک راہ چلتے بغیر کسی بات کے مسکراتی دکھائی دینے لگے تو آوارہ لڑکوں کو خوش فہمی بھلا کیوں نہ ہو؟… ادھر عورتوں نے بھی خاموش اور سنجیدہ رہنے والی شنو کو جب بغیر کسی وجہ کے ہر وقت عجیب سے انداز میں مسکراتے ہوئے دیکھا تو انہیں اس کی یہ مصنوعی مسکراہٹ بڑی مشکوک لگی…
شنو کی ہنسی کو لے کرپھر بڑے عبرت انگیز سین ہوئے… سمو خالہ کا منا گم ہوا، وہ غم سے پاگل ہو ہوئیں… سب ہی پریشان حواس باختہ تھے مگر شنو کی مسکراہٹ پر ذرا اثر نہ ہوا… وہ اسی مسکراتے چہرے کے ساتھ خالہ سے ہمدردی کر رہی تھی…خالہ کو اس کی ہمدردی کمینگی میں لتھڑی ہوئی محسوس ہوئی اور انہوں نے نفرت سے اس سے چہرہ پھیر لیا…
اور افضل خالو کے انتقال پر تو شنو پر وہ لعنتیں پڑیں کہ بس… ادھر بیوہ گلستان خالہ خاوند کی میت پرغش پہ غش کھا کر گر رہی تھیں… محلے کی عورتیں انہیں دیکھ دیکھ بین کر رہی تھیں… اور شنو روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ کھنچے ہوئے لب لیے مضحکہ خیز صورت بنائے کھڑی تھی!
٭٭٭
شنو کی ہی طرح ہمارا میڈیا بھی نفسیاتی ہو گیا ہے… انہوں نے اپنے ڈراموں کی تعریف سنی تو کوشش یہ کی کہ ہر چیز ڈرامہ بن جائے…خبروں میں بریکنگ نیوز کا ڈرامہ… سیاست معاشیات ہو یا مذہب، ہر موضوع پر ہونے والی بحث ایک مکمل ڈرامہ…حتی کہ کسی کی موت پر بھی ڈرامہ!
موت ایک کی ہو یا سینکڑوں کی… مردہ طبعی موت مرا ہو یا قتل ہوا ہو… یا کسی دھماکے میں میتوں کے چیتھڑے اڑ گئے ہوں… پاکستانی میڈیا کو ہر موقع پر ڈرامہ کرنا بخوبی آتا ہے… جو جتنا الم ناک اداکاری کرے، وہ اتنا ہی مقبول… اینکرز کےکانوں میں لگے ہوئے ننھے اسپیکرز سے ہدایتکار مستقل ہدایتیں دیتا ہے کہ کس خبر پر کیسے ڈرامہ کرنا ہے کہ ناظرین دم بخود رہ جائیں اور چینل بدلنا بھول جائیں!
ابھی حال ہی میں جناب امجد صابری صاحب کے بہیمانہ قتل کی مثال دیکھ لیجیے، ہر چینل پر ڈرامے بازی عروج پر تھی… صابری صاحب تو بے چارے جان سے گئے…ادھرمیڈیا کو ریٹنگ بڑھانے کا نادر موقع ملا…اس دن کی ایک کلپ فیس بک پر دیکھی کہ کیسے ایک ڈرامے بازی میں مشہورخاتون اینکر کو لائیو شو میں فون آتا ہے، ہدایت کار ہدایات دیتا ہے…ایکٹریس نئی نئی ہونے والی 'بیوہ' کی لازوال پرفارمنس دیتے ہوئے بار بار کہتی ہے:
"نہیں نہیں ایسا نہیں سکتا… ایسا ہو ہی نہیں سکتا…"
اور انہی جملوں کی تکرار کرتے وہ کچھ اس طرح گردوپیش سے بیگانہ ہو کر بھاگتے ہوئے سیٹ سے جاتی ہے کہ ناظرین کی آنکھیں بے اختیار چھلک پڑتی ہیں…
ایک 30 اقساط پر مبنی ڈرامہ ہر سال رمضان میں بھی ہر چینل دکھاتا ہے…حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر چینل پر ایک ہی ڈرامہ دکھایا جاتا ہے، کردار بھی ایک ہی ہوتا ہے… حتی کہ چہرہ بھی ایک ہی ہوتا ہے… اور وہ چہرہ ہے'عامر لیاقت' کا… جی ہاں عامر لیاقت اب ایک شخص کا نام نہیں، ایک ٹرینڈ کا نام ہے… وہ رمضان نشریات میں پھکڑپن کا بے تاج بادشاہ ہے جس کی نہایت اونچی بولی لگتی ہے، جو نتھ اتار دے، وہ قابو پا لے…
باقی رہے دوسرے تیسرے درجے کے چینلز… تو وہ بھی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے اپنے عامر لیاقت کو ڈھونڈ ہی لیتے ہیں…آخر شوبز میں بڈھی ہوتی اداکارائیں اور خجل ہوتے اداکار کہاں کھپیں گے؟ سو وہ کھوٹے سکے کام میں لائے جاتے ہیں اور بے چارے کچھ نہ کچھ چل بھی جاتے ہیں…
شنو اور میڈیا کا ایک ہی قصہ ہے… بس فرق یہ ہے کہ معصوم شنو تو بےچاری ایک غلطی کی بنا پر بدنام ہو کر مذاق بن جاتی ہے… میڈیا کی منی جان بوجھ کر بدنام ہونا چاہتی ہے… ڈارلنگ 'ریٹنگ' کے لیے…یعنی
منی بدنام ہوئی… ریٹنگ تیرے لیے!
ھاھا.. بھت خوب..!
دلچسپ انداز