ہوم << مولہ ٹریک: ایک ونڈرلینڈ (3) - نسرین غوری

مولہ ٹریک: ایک ونڈرلینڈ (3) - نسرین غوری

نسرین غوری الامارات ہوٹل سے تقریباً 10 کلومیٹر پہلے خضدار کینٹ ایریا شروع ہونے سے چند گز قبل آر سی ڈی ہائی وے سےگوادر رتو ڈیرو موٹروے کا آخری حصہ M-8 نکلتی ہے جسے مقامی لوگ خضدار سکھر موٹروے کہتے ہیں۔ اس موٹروے پر تقریباً دس سے بارہ کلومیٹر کے بعد ایک فوجی چیک پوسٹ آتی ہے، جس سے چند گز کے بعد ہی بائیں جانب ایک چھوٹا سا بورڈ لگا ہوا ہے جس پر مولہ چٹوک آبشار لکھا ہوا ہے۔ یہاں تک موٹروے بہت ہی شاندار ہے اور یہیں سے مستقل پل صراط سا راستہ نکلتا ہے جو سیدھا بہشت کو جاتا ہے۔ لیکن راستہ اتنا بھی سیدھا نہیں جاتا، کچھ کچھ جلیبی بلکہ جنگل جلیبی سا جاتا ہے۔ جنہوں نے جنگل جلیبی نہیں کھائی یا نام بھی نہیں سنا، ان پر ہم بس ترس ہی کھا سکتے ہیں، بے چارے محروم لوگ۔
سفر پتھر جیپ نے اپنا رخ سیدھا پکی موٹر وے سے مولہ روڈ کی طرف موڑ لیا، جسے روڈ کہنا لفظ روڈ کی بے عزتی خراب کرنے کے مترادف ہے۔ اسے آپ ایک پگڈنڈی کہہ لیں جو فور بائی فور کی آمد و رفت سے ذرا چوڑی ہوگئی ہے، لیکن اس پر سڑک کے اجزائے ترکیبی سے ملتا جلتا کوئی جز نہیں کہ جس کے ہونے پر ہم اس پگڈنڈی پر سڑک ہونے کا الزام بھی دھر سکیں۔ زیادہ رومانٹک ہوں تو ٹریک کہہ لیں لیکن سڑک، نہ ناں ، نہ ناں 😛 . ’’انھی پتھروں پہ چل کے اگر جا سکو تو جائو.‘‘
مولہ ٹریک ایک مسلسل رولر کوسٹر رائیڈ ہے، پورا ٹریک چھوٹےموٹے اور بڑے پتھروں سے پر ہے جن میں نوکیلے اور ناچے دونوں طرح کے پتھر شامل ہیں۔ پہلے تو مولہ ٹریک ایک تقریباً سنسان اور بےآب و گیا میدان سے گزرتا ہے جس کے اطراف میں کافی فاصلے پر پہاڑوں کی شبیہ ایسے نظر آتی ہے جیسے کسی بلوچ دوشیزہ کے دوپٹے پر کروشیے کی بیل لہراتی بل کھاتی نظر آتی ہے۔ لیکن اس دوشیزہ پر نظریں جمانا خاصے دل گردے کا کام ہے کیوں کہ ’’کچھ آپ ہلے، کچھ جیپ ہلے‘‘، اور کچھ ٹائروں تلے بھی ہلے ہے مسلسل، پہلے خود تو جیپ میں جم کے بیٹھیں، جب ہی تو کسی اور پر نظریں جما سکیں گے۔
اس میدان میں سب سے پہلے تو ہم نے انسانی تمدن کی آخری نشانی کو کراس کیا یعنی بجلی کی ہائی ٹینشن لائن جو خضدار سے غالباً سکھر کی جانب جا رہی تھی، اس ہائی ٹینشن لائن کے بعد تمام خضدار اور مولہ تحصیل کی آبادی صرف شمسی توانائی پر انحصار کرتی ہے۔گرڈ اسٹیشن خضدار میں ہے لیکن بجلی خضدار کی تحصیلوں کے بجائے جانے کہاں مہیا کی جاتی ہے۔ میدان تھا کہ ختم ہونے میں ہی نہ آتا تھا، گرمی ایسی کہ کھڑکی کے ساتھ رکھے ہاتھ پر بغیر تیل کے انڈہ تل لو کیونکہ تیل تو ہمارا پہلے ہی نکلا ہوا تھا مسلسل کولہو میں گردش کھا کھا کے۔
گو کہ ہم مہم کے لیڈر تھے یعنی جیپوں کی پوری ٹرین کے گائیڈ ہمارے قبضے میں یا ہماری جیپ میں تھے۔ لیکن پھر بھی فوٹوگرافروں کی ٹیم ہمیں کراس کر کے اور ہمارے منہ پر میک اپ کی ایک دبیز تہہ جما کے آگے بڑھ گئی۔ چند سیکنڈز میں سب کے سب ایسے گورے گورے ہوگئے کہ فئیر اینڈ لولی والی گوری بھی ہمارے آگے ماند پڑجائے۔
سفر پہاڑ دھیرے دھیرے میدان کے اطراف موجود پہاڑ قریب آتے گئے، اور قربت میں مزید بلند اور خوبصورت ہوتے گئے. ہوا، پانی اور ریت کی مشترکہ کاری گری سے وجود میں آئے نت نئے ڈیزائن، ٹیکسچرز اور اشکال واضح ہوتے گئے، ایسی دستکاری کہ ہر پہاڑ سے جس پر نظر اور کیمرہ پڑ جاتا تھا، دونوں کو ہٹانا مشکل محسوس ہوتا تھا۔ جس طرف آنکھ اٹھائوں ’’تیری‘‘ تصویراں ہیں، بلکہ تری مصوری ہے والا معاملہ تھا ۔ پہاڑوں پر اتنی عرق ریزی سے کام کروایا گیا ہے کہ منہ سے بےاختیار سبحان اللہ نکلتا تھا۔
پاکستان کے تقریباً سارے ہی پہاڑ مغرب کی جانب سجدہ ریز نظر آتے ہیں، جس کی ایک توجیہ ہم نے یہ بھی سنی ہے کہ کیونکہ کعبہ شریف پاکستان کے مغرب میں واقع ہے، اس لیے تمام پہاڑ کعبہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ کم از کم جنوبی بلوچستان کے پہاڑوں کے بارے میں تو ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ سارے کے سارے مغرب کی سمت سجدہ ریز ہیں، باقی پاکستان اور دیگر ممالک کے پہاڑوں کے بارے میں ہم سے زیادہ گھومے ہوئے لوگ بہتر بتا سکتےہیں۔
سفر راستہ پہاڑوں پر مغرب کی سمت ایک پلیٹ فارم عموداً کھڑا کر کے اس پر یکساں موٹائی کی تہیں اس قدر ناپ تول کر لگائی گئی ہیں کہ لگتا ہے کہ گیلی مٹی چاک پر رکھ کر اس پر کنگھے سے نقش و نگار بنائے گئے اور پھر خضدار کی دھوپ میں خشک ہونے کو رکھ چھوڑا ہو۔ کہیں کہیں عمودی پلیٹ فارم وزن کی زیادتی سے نیچے سے چٹخ کر آگے کو کھسک گیا ہے اور دیکھنے میں لگتا ہے کہ ایک بڑا سا رکشہ مغرب کی طرف منہ کیے سواریوں کے انتظار میں ہے۔ ہر پہاڑ پر نقش و نگار بنانے میں مختلف سائز کی کنگھی یا کنگھا استعمال کیا گیا ہے۔ کہیں کہیں تو لگا جوویں نکالنے والی کنگھی بھی استعمال کی گئی ہے۔ پھر پہاڑ یک دم رنگ بدل لیتے ہیں، پیچھے والا پہاڑ ڈارک برائون ہے تو، سامنے والا خاکی، پیچھے والا سلیٹی ہے تو سامنے والا تقریباً سفید، کہیں معاملات اس کے برعکس ہیں۔ زیادہ تر پہاڑ اپنی بناوٹ کے لحاظ سے آتش فشانی سرگرمیوں کی کارستانی لگتے ہیں جیسے لاوا تہہ در تہہ بہہ کر آتا رہا اور ٹھنڈا ہوکر تہیں بناتا رہا ہو۔ ماہرین جغرافیات شاید ان کی کوئی توضیح پیش کرسکیں، لیکن ہمیں فرصت کہاں، ہم تو زندوں کو نہیں گنتے، تو بظاہر مردوں کو تجزیہ کرکے کیا کریں گے۔ اور بلوچستان وہاں تو شاید انسان ہوتے ہی نہیں۔
ہم تینوں حیرت سے منہ کھولے پہاڑوں کو تکتے نہ تھکتے تھے، لیکن پیاس سے زبان باہر کو آتی تھی، لہذا پانی کی ٹھنڈی ٹھار بوتلوں کی طرف رجوع کیا گیا، جو اب تک اپنا مذہب تبدیل کر کے غیر جانبدار ہوچکی تھیں اور پھر سے دوبارہ جانبدار ہو کر اپنا قبلہ اونچے درجات کی طرف منتقل کرنے کو تیار بیٹھی تھیں۔ تجربے سے ثابت ہوا کہ غیر جانبدار پانی کی نسبت غیر جانبدار کولڈ ڈرنک کو حلق سے اتارنا آسان ہوتا ہے۔
تہذیب اور تمدنی دنیاسے فاصلہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ مصنوعی تمدنی رکھ رکھاؤ بھی حسب توفیق جھڑنے لگا تھا، اور مسافرت و مسافت کی روایتی بے تکلفی اپنی جگہ خود بخود بناتی جا رہی تھی۔ اتنی ہلتی جلتی، اچھلتی اور ہلاتی جلاتی جیپ میں اتنی نازک مصنوعات کو ہینڈل وِد کئیر کیا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ قصہ مختصر ایک ہی بوتل سے محمود و ایاز سیراب ہوتے تھے، خود کم اور کپڑے زیادہ ، اور ’’زمانہ یہ سمجھا کہ ہم پی کے آئے، پی کے آئے۔‘‘ زندگی کتنی پیاری شے ہے، اس کا اندازہ انتہائی صورت حال میں ہی ہوتا ہے۔ سارے تکلفات بر طرف ہو رہتے ہیں۔
اور اچانک جیپ نے ایک موڑ کاٹا اور ہم ایک ونڈر لینڈ میں لینڈ کرگئے، ہماری نظروں کے سامنے ایک ناقابل یقین منظر تھا۔ ایک وسیع ریگزار میں گرینڈ کینئن جیسے پیر پھیلائے دراز تھا، جی ہاں ہمارا اپنا گرینڈ کینئین۔ ہم تینوں کے منہ پہلے حیرت سے کھلے رہ گئے اور پھر کیمرے کھلنے شروع ہوئے۔
یہ بھلا یہاں کہاں سے آگیا، یہ تو امریکہ میں ہوتا تھا۔
یہ تو ہمیشہ سے یہیں تھا، شاید امریکہ دریافت ہونے سے بھی پہلے سے۔
لیکن امریکہ کا گرینڈ کینئن اس سے پہلے دریافت کر لیا گیا تھا، شاید 1919ء میں یا اس سے بھی پہلے۔ کیونکہ امریکی زیادہ تر یورپی آباد کار تھے، انہوں نے اس نئی دریافت شدہ سرزمین کو پورا کھنگال ڈالا اور بہت کچھ دریافت کرلیا بشمول گرینڈ کینئن، اور ہم تو اس پاک سر زمین کے زمیندار ہیں، مالک ہیں، تو خواہ اس کو کوئی فائدہ پہنچائیں یہ نہ پہنچائیں، یا اس زمین سے نہ خود کوئی فائدہ اٹھائیں نہ دوسروں کو اٹھانے دیں، اس نے کہاں جانا ہے، اس نے یہیں رہنا ہے، اور ہم نے بھی یہیں رہنا ہے لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری آئندہ نسلوں نے بھی یہیں رہنا ہے۔ اگر اس زمین کی تھوڑی سی سرپرستی کرلیں، تھوڑی سی دیکھ بھال سے یہ زمین ہمیں کس قدر زر مبادلہ دے سکتی ہے، اس خطے کی قسمت بدل سکتی ہے لیکن سیاحت ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔
بیلہ ملکی و قومی سیاحت سے حکومت کی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ پاکستان اکنامک سروے 15- 2014 میں لفظ سیاحت کا گزر صرف ایک بار گوادر پورٹ کے تذکرے میں ضمنی سرگرمیوں کے حوالے سے آیا ہے جبکہ سالانہ ورک پلان 16 – 2015 میں سیاحت کا لفظ کہیں بھی نہیں ہے۔ پھر ہمارے ملک میں سیاحت سے مراد لاہور، اسلام آباد، مری اور ان سے بالاتر علاقے ہیں۔ بے چارے جنوب کو کس نے گھاس ڈالنی ہےاگر گھاس ہو بھی تو۔ یہ تو ایک وادی ہے جو ہم نے دریافت کر لی تھی، یا جس نے ہم دو چار دیوانوں پر اپنا آپ ظاہر کر دیا تھا، شاید ہماری دیوانگی سے متاثر ہوکر۔ کون جانے ایسی کتنی ہی وادیاں اس خطے میں اب تک انسان کی نظروں سے پوشیدہ ہوں گی۔ مکران کوسٹل ہائی وے کے اطراف پہاڑوں کے اندر جو برساتی دریاوں کے راستے ہیں، اگر ان میں ٹریکنگ کی جائے تو ایسی یا اس سے بھی مزید خوبصورت وادیاں دریافت ہوسکتی ہیں۔
سفر نامے کا حصہ اول یہاں پڑھیے۔
سفر نامے کا دوسرا حصہ یہاں پڑھیے

Comments

Click here to post a comment