مولہ ٹریک ایک مسلسل رولر کوسٹر رائیڈ ہے، پورا ٹریک چھوٹےموٹے اور بڑے پتھروں سے پر ہے جن میں نوکیلے اور ناچے دونوں طرح کے پتھر شامل ہیں۔ پہلے تو مولہ ٹریک ایک تقریباً سنسان اور بےآب و گیا میدان سے گزرتا ہے جس کے اطراف میں کافی فاصلے پر پہاڑوں کی شبیہ ایسے نظر آتی ہے جیسے کسی بلوچ دوشیزہ کے دوپٹے پر کروشیے کی بیل لہراتی بل کھاتی نظر آتی ہے۔ لیکن اس دوشیزہ پر نظریں جمانا خاصے دل گردے کا کام ہے کیوں کہ ’’کچھ آپ ہلے، کچھ جیپ ہلے‘‘، اور کچھ ٹائروں تلے بھی ہلے ہے مسلسل، پہلے خود تو جیپ میں جم کے بیٹھیں، جب ہی تو کسی اور پر نظریں جما سکیں گے۔
اس میدان میں سب سے پہلے تو ہم نے انسانی تمدن کی آخری نشانی کو کراس کیا یعنی بجلی کی ہائی ٹینشن لائن جو خضدار سے غالباً سکھر کی جانب جا رہی تھی، اس ہائی ٹینشن لائن کے بعد تمام خضدار اور مولہ تحصیل کی آبادی صرف شمسی توانائی پر انحصار کرتی ہے۔گرڈ اسٹیشن خضدار میں ہے لیکن بجلی خضدار کی تحصیلوں کے بجائے جانے کہاں مہیا کی جاتی ہے۔ میدان تھا کہ ختم ہونے میں ہی نہ آتا تھا، گرمی ایسی کہ کھڑکی کے ساتھ رکھے ہاتھ پر بغیر تیل کے انڈہ تل لو کیونکہ تیل تو ہمارا پہلے ہی نکلا ہوا تھا مسلسل کولہو میں گردش کھا کھا کے۔
گو کہ ہم مہم کے لیڈر تھے یعنی جیپوں کی پوری ٹرین کے گائیڈ ہمارے قبضے میں یا ہماری جیپ میں تھے۔ لیکن پھر بھی فوٹوگرافروں کی ٹیم ہمیں کراس کر کے اور ہمارے منہ پر میک اپ کی ایک دبیز تہہ جما کے آگے بڑھ گئی۔ چند سیکنڈز میں سب کے سب ایسے گورے گورے ہوگئے کہ فئیر اینڈ لولی والی گوری بھی ہمارے آگے ماند پڑجائے۔
پاکستان کے تقریباً سارے ہی پہاڑ مغرب کی جانب سجدہ ریز نظر آتے ہیں، جس کی ایک توجیہ ہم نے یہ بھی سنی ہے کہ کیونکہ کعبہ شریف پاکستان کے مغرب میں واقع ہے، اس لیے تمام پہاڑ کعبہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ کم از کم جنوبی بلوچستان کے پہاڑوں کے بارے میں تو ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ سارے کے سارے مغرب کی سمت سجدہ ریز ہیں، باقی پاکستان اور دیگر ممالک کے پہاڑوں کے بارے میں ہم سے زیادہ گھومے ہوئے لوگ بہتر بتا سکتےہیں۔
ہم تینوں حیرت سے منہ کھولے پہاڑوں کو تکتے نہ تھکتے تھے، لیکن پیاس سے زبان باہر کو آتی تھی، لہذا پانی کی ٹھنڈی ٹھار بوتلوں کی طرف رجوع کیا گیا، جو اب تک اپنا مذہب تبدیل کر کے غیر جانبدار ہوچکی تھیں اور پھر سے دوبارہ جانبدار ہو کر اپنا قبلہ اونچے درجات کی طرف منتقل کرنے کو تیار بیٹھی تھیں۔ تجربے سے ثابت ہوا کہ غیر جانبدار پانی کی نسبت غیر جانبدار کولڈ ڈرنک کو حلق سے اتارنا آسان ہوتا ہے۔
تہذیب اور تمدنی دنیاسے فاصلہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ مصنوعی تمدنی رکھ رکھاؤ بھی حسب توفیق جھڑنے لگا تھا، اور مسافرت و مسافت کی روایتی بے تکلفی اپنی جگہ خود بخود بناتی جا رہی تھی۔ اتنی ہلتی جلتی، اچھلتی اور ہلاتی جلاتی جیپ میں اتنی نازک مصنوعات کو ہینڈل وِد کئیر کیا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ قصہ مختصر ایک ہی بوتل سے محمود و ایاز سیراب ہوتے تھے، خود کم اور کپڑے زیادہ ، اور ’’زمانہ یہ سمجھا کہ ہم پی کے آئے، پی کے آئے۔‘‘ زندگی کتنی پیاری شے ہے، اس کا اندازہ انتہائی صورت حال میں ہی ہوتا ہے۔ سارے تکلفات بر طرف ہو رہتے ہیں۔
اور اچانک جیپ نے ایک موڑ کاٹا اور ہم ایک ونڈر لینڈ میں لینڈ کرگئے، ہماری نظروں کے سامنے ایک ناقابل یقین منظر تھا۔ ایک وسیع ریگزار میں گرینڈ کینئن جیسے پیر پھیلائے دراز تھا، جی ہاں ہمارا اپنا گرینڈ کینئین۔ ہم تینوں کے منہ پہلے حیرت سے کھلے رہ گئے اور پھر کیمرے کھلنے شروع ہوئے۔
یہ بھلا یہاں کہاں سے آگیا، یہ تو امریکہ میں ہوتا تھا۔
یہ تو ہمیشہ سے یہیں تھا، شاید امریکہ دریافت ہونے سے بھی پہلے سے۔
لیکن امریکہ کا گرینڈ کینئن اس سے پہلے دریافت کر لیا گیا تھا، شاید 1919ء میں یا اس سے بھی پہلے۔ کیونکہ امریکی زیادہ تر یورپی آباد کار تھے، انہوں نے اس نئی دریافت شدہ سرزمین کو پورا کھنگال ڈالا اور بہت کچھ دریافت کرلیا بشمول گرینڈ کینئن، اور ہم تو اس پاک سر زمین کے زمیندار ہیں، مالک ہیں، تو خواہ اس کو کوئی فائدہ پہنچائیں یہ نہ پہنچائیں، یا اس زمین سے نہ خود کوئی فائدہ اٹھائیں نہ دوسروں کو اٹھانے دیں، اس نے کہاں جانا ہے، اس نے یہیں رہنا ہے، اور ہم نے بھی یہیں رہنا ہے لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری آئندہ نسلوں نے بھی یہیں رہنا ہے۔ اگر اس زمین کی تھوڑی سی سرپرستی کرلیں، تھوڑی سی دیکھ بھال سے یہ زمین ہمیں کس قدر زر مبادلہ دے سکتی ہے، اس خطے کی قسمت بدل سکتی ہے لیکن سیاحت ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔
سفر نامے کا حصہ اول یہاں پڑھیے۔
سفر نامے کا دوسرا حصہ یہاں پڑھیے
مولہ ٹریک: ایک ونڈرلینڈ (3) - نسرین غوری

[…] سفرنامے کا تیسرا حصہ یہاں پڑھیے […]
بہت خوب....ونڈر لینڈ آف بلوچستان پاکستان