ہوم << کراچی کی سیاست اور ایم کیو ایم - محمد فاروق چوہان

کراچی کی سیاست اور ایم کیو ایم - محمد فاروق چوہان

فاروق چوہان سانحہ کوئٹہ کے بعد کراچی کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ ملک دشمن بیرونی طاقتوں نے پاکستان کو ایک بار پھر اپنا ہدف بنالیا ہے۔ یوں لگتاہے کہ پاکستان میں ہونے والے حالیہ واقعات کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ ابھی چند روز قبل ہی نریندر مودی نے کراچی اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا اعتراف کیا ہے۔ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بھارت پاکستان دشمنی میں اب کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اگر چہ الطاف حسین نے حسب روایت پھر معافی مانگ لی ہے لیکن پاکستانی قوم ان کی معافی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایم اکیوایم کے سربراہ کا یہ وطیرہ بن چکا ہے۔ وہ جب چاہتے ہیں ترنگ میں آ کر پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں اور پھر معافی مانگ لیتے ہیں۔ ماضی میں انہوں نے ان گنت مواقع پر پاکستان کے خلاف تقاریر کیں اور بعدازاں قوم سے معافی بھی مانگتے رہے۔ پہلے گالی دو اور پھر معافی مانگ لو! آخر یہ سلسلہ کب تک چلتارہے گا؟ حکومت پاکستان کو اس اہم اور حساس معاملے پر سنجیدہ ایکشن لیناپڑے گا۔ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی پر الطاف حسین پر فی الفور غداری کا مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔ ملک و قوم کے ساتھ اب یہ سنگین مذاق بند ہونا چاہیے۔ وفاقی حکومت کو آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ درج کرکے الطاف حسین کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا بصورت دیگر پاکستانی قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوگی کہ سیاسی وجوہات کی بنا پر کارروائی نہیں کی جا رہی۔ ایم کیوایم کے کراچی میں احتجاجی کیمپ کے دوران الطاف حسین نے پاکستان کی سالمیت کے خلاف تقریر کی اور کارکنوں سے ریاست مخالف نعرے لگوائے، اس کے باوجود الطاف حسین اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنمائوں کے خلاف کوئی مئوثر عملی کارروائی نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ پہلے فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کوگرفتار کیا گیا اور اگلے ہی روز انہیں رہاکردیا گیا۔ اگر رہا ہی کرنا تھا تو گرفتار کیوں کیا گیا تھا؟ اب اس حوالے سے محض زبانی جمع خرچ اور نئے مقدمات قائم کرنے سے بات نہیں بنے گی، اگر حکومت واقعی کراچی میں دہشت گردی اور ملک دشمن عناصر پر قابو پانا چاہتی ہے تو اُسے ملکی سلامتی پر کمپرومائز ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔
کراچی پاکستان کامعاشی حب ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد شہر میں رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کاوشوں کے ذریعے امن کاقیام عمل میں آیا ہے۔ اب قومی سلامتی کے اداروں کو پاکستان دشمن عناصر پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سب کیا کرایا غارت ہوجائے۔ متحدہ قومی موومنٹ گزشتہ 30 سال سے کراچی کے سیاہ و سفید کی ذمہ دار رہی ہے۔ کراچی بدامنی کیس میں بھی سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم کو حالات کی خرابی کا اصل ذمہ دار قراردیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے متحدہ قومی موومنٹ، پیپلزپارٹی اور اے این پی کو اپنے مسلح ونگز کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا لیکن تاحال اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ البتہ رینجرز کی کامیاب کارروائیوں سے پچھلے ایک سال کے دوران ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کو بڑی تعداد میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اب ڈاکٹر فاروق ستار بھی ایم کیو ایم سے عسکری ونگ کی علیحدگی اور پاکستان سے پارٹی کو چلانے کی بات کر رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا متحدہ قومی موومنٹ الطاف حسین کو مائنس کرکے آگے بڑھ سکے گی یا پھر یہ ایک ٹوپی ڈرامہ ہے؟ بہرکیف دکھائی یہ دے رہا ہے کہ ایم کیو ایم عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ایم کیوایم الطاف حسین ہے اور الطاف حسین ایم کیو ایم ہے اور آئندہ بھی تمام فیصلے الطاف حسین ہی لندن میں بیٹھ کر کریں گے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ متحدہ کے دستور میں الطاف حسین کی حیثیت سپریم لیڈر کی ہے اور الطاف حسین کو فیصلوں کو ویٹوکرنے کا بھی اختیار حاصل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس طرح ایم کیوایم پاکستان کے اندر اپنے آزادانہ فیصلے کرسکے گی؟ ڈاکٹر فاروق ستار نے الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کی مذمت کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ متحدہ کے قائد ذہنی تنائو کا شکار ہیں، اس لیے انہوں نے بوکھلاہٹ میں ریاست مخالف تقریر کی ہے۔ اگر الطاف حسین کو کوئی عارضہ لاحق ہے یا وہ کسی دماغی مرض میں مبتلا ہے تو پہلے ان کا علاج ہونا چاہیے اور ایسے فرد کو کسی بھی سیاسی پارٹی کاسربراہ نہیں رہنا چاہیے۔ فاروق ستار نے بھی کراچی کی پریس کانفرنس میں اس جانب ٹھیک توجہ دلائی ہے۔ الطاف حسین برطانوی شہری ہیں اور اُن کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ برطانیہ سے اپنے ویڈیوخطاب کے ذریعے کسی بھی دوسرے ملک میں اشتعال انگیز تقریریں کریں۔ برطانوی حکومت کوب ھی اپنے شہری کی غیرقانونی پُراسرارسرگرمیوں کانوٹس لینا چاہیے۔ اسی تناظر میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایم کیوایم کے سربراہ کے پاکستان مخالف زبان و بیان پر برطانوی حکومت سے رابطہ کرلیا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے برٹش حکومت پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنے شہر ی کی خلافِ قانون سرگرمیوں کو روکے۔ اس سے قبل بھی برطانوی حکام کو ڈاکٹر عمران فاروق قتل اور منی لانڈرنگ کے مقدمات کے متعلق پاکستانی وزارت داخلہ کی طرف سے خط لکھا گیا تھا لیکن حکومت برطانیہ نے اس حوالے سے مثبت جواب نہیں دیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانوی حکام الطاف حسین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ جموں وکشمیر کا تنازعہ بھی برطانیہ کا پیداکردہ ہے۔ اگر برطانیہ تقسیم ہند کے موقع پر انصاف کے تقاضوں کے پیش نظر جموں و کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ملا دیتا تو آج انڈیا، پاکستان کے باہمی تعلقات اس قدر کشیدہ نہ ہوتے۔ کراچی میں بھی فساد کے جراثیم برطانیہ ہی بوتا رہا ہے۔ متحدہ کے سربراہ کو سیاسی پناہ دے کر اس کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ موجودہ منظرنامے میں الطاف حسین کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے حالیہ معاملے پر پاکستان کو حکومت انگلستان سے شدید احتجاج کرنا چاہیے۔ اسلام آباد میں موجود برطانوی سفیر کو اس حساس معاملہ میں دفترخارجہ طلب کرکے باضابطہ طور پر سرکاری سطح پراحتجاج پہنچانا چاہیے۔ وزیراعظم نوازشریف کو بھی اپنے برطانوی ہم منصب سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے انہیں پاکستانی عوام کے غم وغصے اور مشتعل جذبات سے آگاہ کرنا چاہیے۔
الطاف حسین کے خلاف لندن میں ایک پاکستانی شہری نے ایف آئی آر درج کرنے کی باقاعدہ درخواست دے دی ہے۔ پاکستان میں بھی بغاوت کامقدمہ درج کرکے انٹرپول کے ذریعے گرفتار کر کے انھیں پاکستان لایاجاسکتا ہے۔ تاہم اگر اس بار بھی ان سے رعایت برتی گئی تو کراچی سمیت پورے ملک پر اس کے تباہ کن نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اُس کے مرکز نائن زیرو کو باقاعدہ سیل کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ماضی میں بھی متحدہ کے ہیڈآفس پر چھاپے پڑتے رہے ہیں۔ رواں سال مارچ میں ایم کیو ایم کے مرکز میں چھاپے کے دوران نیٹوکا اسلحہ برآمد ہوا تھا اور کئی سنگین مقدمات میں ملوث ٹارگٹ کلرز کو بھی پکڑا گیا تھا۔ پیر کی شب بھی رینجرزآپریشن کے دوران متحدہ کے مرکز سے کلاشنکوفوں سمیت جدید اسلحہ پھر برآمد ہوا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کراچی میں اب تک13ہزار کے لگ بھگ بےگناہ افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔ایم کیو ایم کی قیادت اور اس کے کارکنان پر سینکڑوں مقدمات درج کیے جاچکے ہیں۔ سانحہ 12مئی کے حقائق بھی منظر عام پر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ رینجرز کی تحویل میں ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے سانحہ 12مئی میں ملوث ہونے کا اعتراف کرلیا ہے۔ ان کاعبوری چالان مکمل کرکے دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔ ا ب یہ ایم کیو ایم کاامتحان ہے کہ وہ آخر کیسے الطاف حسین اور جرائم پیشہ عناصر سے اپنے آپ کودور کرسکے گی؟ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اگر متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں سیاست کرنی ہے اور اس نے قومی دھارے میں رہنا ہے تو پھر مائنس الطاف حسین کے فارمولے پر عمل کرنا ہوگا۔
رکن اسمبلی ارم عظیم، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین، غازی صلاح الدین اور دیگر رہنمائوں نے ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت کے گردگھیرا تنگ ہوچکا ہے۔ فاروق ستار اور ملک میں موجود متحدہ کی قیادت نے اگر درست طرزعمل اختیار نہیں کیا تو متحدہ قومی موومنٹ کا وجود خطرے میں پڑجائے گا۔ کراچی سب کا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو شہر قائد میں آزادی سے کام کرنے کے مواقع ملنے چاہییں۔ کسی مخصوص پارٹی یاگروہ کو یہ اختیار کسی بھی صورت نہیں ملنا چاہیے کہ وہ شہر کراچی کو یرغمال بنالے۔ اب تک یہی ہوتا آیا ہے مگرمستقبل میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ متحدہ قومی موومنٹ کو بھی اپنے طرزعمل میں تبدیلی لاناہوگی۔ طاقت کے استعمال سے میڈیا اور عوام کو دبایا نہیں جا سکتا۔ الطاف حسین کی غیر اخلاقی اور نازیبا تقریر میں جس طرح کارکنوں کو نام لے کر میڈیا اداروں پر حملے کے لیے آن ریکارڈحکم دیا گیا۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت اقدام ہے۔ سندھ حکومت کو میڈیا اداروں پر حملے میں ملوث متحدہ کے کارکنوں کوگرفتار کرکے قرار واقعی سزادینی چاہیے اور صحافیوں کوتحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ کراچی آپریشن اس وقت آخری مرحلے میں ہے۔ کراچی میں حالات خراب ہونے سے مسئلہ کشمیر پس منظر میں چلاجائے گا اور بھارت کا ایجنڈا کامیاب ہوگا. لہٰذاپاکستان کی قومی قیادت کومشترکہ لائحہ عمل اختیارکر کے ہندوستان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانا ہوگا۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو وہاں امن کے مستقل قیام کے لیے رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنا چاہیے۔