چلچلاتی دھوپ کسی کا امتیاز نہیں کرتی۔ وہ ہر حسب و نسب کے افراد کو ایک جیسی تپش دیتی ہے۔ فرق ہے تو آسائشوں کا جو ہر کسی کو میسر نہیں۔ انھی آسائشوں کی ترجمانی کرتی وہ چمچاتی ائیرکنڈیشننگ کار کالج کے سامنے نو پارکنگ میں ایسے براجمان ہو گئی جیسے وہاں موجود انتظامیہ کو للکار رہی ہو کہ ہے کوئی جو مجھے ایک انچ بھی ہلا سکے۔ اُس میں سے ڈرائیور اترا اور پیچھے کا دروازہ کھولا۔ اُس میں سے ایک حسینہ بڑے طمطراق سے برآمد ہوئی۔ سب سے پہلے اُس نے قہر برساتے سورج کو قہر آلود نگاہوں سے دیکھا، جیسے اُس نے عام بنی نوع اور اُس راجکماری میں فرق نہ کر کے کوئی عظیم گناہ کیا ہے۔ اُس کی دوسری نگاہ عتاب کا نشانہ ہماری کالج کے داخلہ دفتر کے باہر لگی قطار تھی۔ پہلے مجھے لگا کہ شاید وہ اپنی شان کو ملحوظ رکھتے ہوئے قطار میں لگنے پر سیخ پا ہے، لیکن جیسے ہی وہ قطار کی بجائے سیدھی داخلہ دفتر میں بلا روک ٹوک داخل ہوگئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہم صرف عام انسان ہونے کے جرم میں اُس کی آنکھ میں کھٹکے تھے۔
دو گھنٹے سے قطار میں کھڑے ہو کر بدن پسینے میں ایسے شرابور تھا، جیسے ابھی نہا کر بغیر تولیہ استعمال کیے کپڑے پہن لیے ہوں۔ ابھی اپنی اس حالت پر مکمل غور بھی نہ کیا تھا کہ وہ داخلہ دفتر سے باہر آئی اور اُس کے ساتھ ایڈمن آفیسر صاحب بھی تھے۔ اور اُسے عاجزانہ لہجے میں یقین دلا رہے تھے کہ آپ فکر نہ کریں۔ اور وہ نخوت سے ایک اور نگاہ ہماری قطار پر ڈالتی ہوئی چلی گئی۔
اُس سے دوسری ملاقات اُس وقت ہوئی جب میں ایم اے کرنے کے بعد ہر جگہ نوکریوں کے لیے در بدر بھٹک کر گزارے کے لیے ایک شاپنگ مال کی دوکان میں سیلز مین کے لیے پہلے دن آیا تھا۔ پہلے ہی کی طرح شاہانہ انداز میں وہ دکان میں داخل ہوئی اور چاروں طرف نگاہ دوڑا کر اچانک میری طرف دیکھا، میں حیران تو ہوا کہ شاید اس نے بھی مجھے پہچان لیا لیکن فورا وہ دکان مالک کے سامنے رکھے صوفے پر براجمان ہوتے ہوئے سامان پسند کرنی لگی۔ مالک نے مجھے اُس کی مطلوبہ چیزیں لانے میں دوسرے سیلز مین کی مدد کرنے کو کہا۔ جوتوں کے کچھ ڈیزائن لاتے ہوئے میرے ہاتھ سے جوتے کا ڈبہ گر کر اُس کے پائوں پر گرا۔ اچانک لگا جیسے قیامت برپا ہو گئی ہو۔ چنگھاڑتے ہوئے وہ اُٹھی اور ایک زناٹے دار تھپڑ میرے منہ پر ایسا جڑا کہ اُس کے غرور اور فتح کا نشان میرے چہرے پر چھپ سا گیا۔ اس کے ساتھ ہی مغلظات کا ایک طوفان آیا، اور مجھے میری اوقات اور میرے والدین کی اوقات یاد کروانے کے بعد، وہ چلی گئی، وہ میرا اُس دکان پر نوکری کا پہلا اور آخری دن تھا، کیوں کہ مالک کے لیے اُس کا اچھا گاہک قیمتی تھا۔ اُس دن مجھے اپنے غریب ماں باپ کے گھر میں پیدا ہونے پر افسوس ہوا کہ انسان تو میں بھی دوسروں جیسا ہوں، قصور تو اُن کا ہے۔
آج تیس سال بعد جب وہ میری بغل میں لیٹی تو مجھے خدا کے خدائی سمجھ میں آئی کہ یہ امیر غریب، کالا گورا، یہ طبقہ، یہ فرقہ، یہ قومیت یہ شان و شوکت، سب فانی ہے۔ جس مٹی کی قبر میں میں لیٹا ہوں، اُسی مٹی میں آج وہ دفن ہوگئی۔ اور وہ اُتنی ہی بے بس ہے جتنا کہ کوئی بھی انسان بغیر روح کے ہوتا ہے۔ آج کوئی دولت، کوئی افسر،کوئی انسان اُس کو کسی سے افضل نہیں کر سکتا۔
جس مٹی میں میں لیٹا ہوں، اُسی میں وہ دفن ہے
تبصرہ لکھیے