ہوم << دلیل نام ہے جس کا - محمودفیاض

دلیل نام ہے جس کا - محمودفیاض

محمود فیاجنوے کی دہائی کی بات ہے، ہماری کالونی میں ایک چائے کی دکان تھی۔ شام کو اکثر دوستوں کے ساتھ وہاں گپ شپ ہوا کرتی تھی۔ سیاست ، مذہب اور کرکٹ ہی تین ایسے موضوعات ہیں جن سے ہم پاکستانی سانس لیتے ہیں۔ کھیل کی سیاست اور سیاست کا کھیل ہم خوب سمجھتے ہیں۔ اس چائے خانے میں بھی ایسے ایسے جغادری دانشور بیٹھا کرتے تھے کہ ہم لڑکے بالے ہر روز نئی نئی بات سیکھا کرتے تھے۔ کس کھلاڑی کو کب کھلانا تھا، جو کوچ کو اپنے چالیس سالہ تجربے کے باوجود پتہ نہیں چلا، وہ وہاں بیٹھے ایک صاحب پوری تفصیل سے جانتے تھے۔ کون سا سیاستدان اگر وقت پر دوسری پارٹی جوائن کر لیتا تو اس وقت ملک کا وزیر اعظم ہوتا، یہ بھی ہمیں وہیں بیٹھے پتہ چل جاتا۔
مذہب کی بات، البتہ، دوسری ہے۔ اس پر بات کرتے ہوئے اکثر کسی آیت حدیث کا حوالہ بحث کو جلد سمیٹ دیتا تھا۔ کوئی کبھی حدیث کی صحت اور آیت کے سیاق و سباق کا سوال نہ اٹھاتا تھا۔ ویسے بھی مذہبی بحثوں نے اس وقت تک گیارھویں کے ختم اور مزار پر سجدے سے آگے کی ’’منازل‘‘ طے نہیں کی تھیں۔
اس چھوٹی سے دکان میں یہ ناممکن تھا کہ کوئی بحث جاری ہو اور وہ ہر ایک کے کانوں تک نہ پہنچ سکے۔ اس لیے اکثر اوقات دو بندوں کے درمیان ہونے والا مکالمہ دو گروپوں کے درمیان مناظرے کی شکل اختیار کر لیتا۔ اور دکان میں بیٹھے تمام گاہک اپنی اپنی سائیڈ چن لیتے اور اپنے اپنے ممدوح کو ہلہ شیری دیتے ۔
انہی دنوں کی بات ہے کہ ہم دلیل (عامر خاکوانی کی نہیں) سے متعارف ہوئے۔ ’’واہ بھئی! کیا دلیل دی ہے‘‘، اکثر یوں داد دی جاتی۔ ہوتا یوں کہ گرما گرم بحث چل رہی ہوتی، دونوں جانب سے حملے جاری ہوتے، کہ اچانک ایک ’’کھلاڑی‘‘ کوئی ایسی بات کرتا جس پر سب واہ واہ کر اٹھتے۔ ’’سبحان اللہ‘‘، ’’کیا بات ہے‘‘، ’’بات ختم کردی‘‘، اور ’’اب پیچھے کیا رہ گیا‘‘ کا شور ہوتا اور باوجود اس کے کہ مخالف کچھ کہنا بھی چاہتا، بحث نمٹا دی جاتی۔ مطلب یہ کہ لوگ چائے خانے سے اٹھ کر جانے لگتے جیسے سنیما میں آخری سین سے تھوڑا پہلے ہی لوگ اٹھ کر باہر جانے لگتے ہیں۔
اس ساری مشق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ دلیل دراصل وہ ہتھیار ہے جو بحث ختم کر دے، مخالف کو پچھاڑ دے۔ دلیل کو ایسا ہونا چاہیے کہ محفل میں بیٹھا ہر تماشائی اش اش کر اٹھے۔ یوں سمجھیے کہ ہم دلیل کو جاوید میاں داد کا آخری چھکا سمجھنے لگ گئے، یا محمد علی کلے کا آخری مکا۔
یوں لگتا تھا کہ یہ نکتہ کہ، دلیل آخری مکا ہے، ہم سے پہلے ہی بہت سارے بحث بازوں نے کب کا جان لیا ہوا تھا۔ اور اسی وجہ سے اس چائے خانے کے مشہور بحث باز اس ’’دلیل‘‘ کے ہتھیار کو استعمال کرنے میں ماہر نظر آتے تھے۔
پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ ہمارے اسکول میں ایک بیالوجی کے نوجوان استاد آگئے۔ انہوں نے آتے ہی ہمیں اپنے رویے سے چونکا دیا۔ ہمارے اس زمانے کے باقی اساتذہ کی نسبت ایک تو وہ کم عمر تھے، اور دوسرا وہ تعلیم میں بھی ذرا ایک دو سال یونیورسٹی میں لگا کر آئے تھے۔ پڑھانے کا انداز اتنا سادہ تھا کہ شروع کی کلاسوں میں اندازہ ہی نہ ہوتا تھا کہ کب پڑھائی شروع ہوئی اور کب باتیں ختم۔
ایک دن میں سائیکل پر اسکول سے واپس جا رہا تھا کہ راستے میں پیدل چلتے جا رہے تھے۔ میں نے ان کو سائیکل پر لفٹ دینے کی خاطر سائیکل روکنا چاہا (90 کی دہائی میں استاد کی ایسی ہی عزت تھی) تو انہوں نے مجھے منع کرتے ہوئے دوڑ کر چھلانگ ماری اور پیچھے بیٹھ گئے۔ دوسرے دن یہ واقعہ میں نے اپنی کلاس میں سنایا تو ہر لڑکے نے کچھ ایسی ہی عجیب باتیں بتائیں جو ان کو ایک بارعب استاد سے زیادہ ایک بڑا بھائی اور دوست ثابت کرتیں تھیں۔ نام ان کا ذہن سے نکل گیا ہے، آپ ہاشم صاحب کہہ لیجیے۔
تو اب ہوتا یوں تھا کہ ہم چائے خانے کی بحثوں کو اگلے دن ہاشم صاحب کو سناتے تھے، تو اکثر وہ دلیل والے آخری مکے پر کوئی ایسا کمنٹ کر دیتے کہ ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے۔
جیسے کہ ہم نے ایک شیعہ سنی مناظرے کے بارے میں پڑھا جس میں ایک سنی عالم نے اہل محفل کی ساری جوتیاں غائب کر دیں، اور محفل کے بعد جب شرکاء اپنے جوتے ڈھونڈنے لگے تو سنی عالم نے کہا کہ شیعہ حضرات حضورﷺ کے زمانے میں بھی جوتیاں غائب کر دیا کرتے تھے۔ اس پر شیعہ عالم بگڑ گئے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں شیعہ تو تھے ہی نہیں۔ اس پر سنی عالم بولے ’’تو اب کہاں سے آگئے؟‘‘ ، اور وہی واہ واہ کا شوروغوغا۔
اب ہم نے اس کا ذکر ہاشم صاحب کے سامنے کیا تو انہوں نے فقط اتنا کہا، ’’اچھا، تو اس وقت سنی وہاں حضور ﷺ کے زمانے میں ہوا کرتے تھے؟‘‘، اور ہنس کر بات بدل دی۔ مگر ہم اس کے بعد پہروں سوچتے رہے کہ انہوں نے جو کہا، وہ اس محفل میں کسی نے غور کیوں نہیں کیا۔
ایسے ایک دو واقعات اور ہوئے تو ہماری پھرکی بھی چل پڑی۔ اب ہم نے چائے خانے میں ہونے والے ’’مناظروں‘‘ کے دلیلی مکوں کو خود بھی پرکھنا شروع کر دیا۔ اور اکثر ایسا ہونے لگا کہ ہمیں جو دلیل بڑی زبردست لگی، وہ تھوڑے سے غورو فکر کے بعد بودی لگنے لگی۔
پھر ہمارے اس چائے خانے میں ایک مشہور ملاکھڑا ہوا، جس نے ہمیں وہ سکھا دیا جو ہم کسی کتاب سے نہ سیکھ پاتے۔
ہوا یوں، کہ چائے خانے کے دو مشہور بحث بازوں میں کسی مذہبی معاملے کو لے کر بحث شروع ہوئی جو طوالت اختیار کر گئی۔ وقت کی کمی کی وجہ سے دونوں نے اس بحث کو چھٹی والے دن تک ملتوی کر دیا۔ اس کی وجہ سے بات پھیل گئی۔ اور چھٹی والے دن چائے خانہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہر کوئی ان دو مشہور بحث بازوں کا مقابلہ دیکھنے کا آرزو مند تھا۔ دونوں مخالفین کو بحث میں زچ کرنے اور پینترا بدلنے کے ماہر تھے۔ سب یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس مقابلے کا فاتح کون ہوگا۔
طوالت کے خوف سے پورے معرکے کی تفصیل نہیں لکھ پاؤں گا، مگر ایک آدھ مکالمے لکھے بغیر بات سمجھ نہیں آئے گی۔
بات شروع ہوئی تو کسی مذہبی واقعے سے تھی مگر پھر بحث در بحث مکالمے کا رنگ کچھ یوں ہو گیا کہ ایک کہہ رہا تھا، ’’تم نے روزے کا ذکر کیا ہے، اب دل تھام کے سننا، اب میری بات کا جواب دینا۔ بھاگ نہیں جانا تم نے اب اس میدان سے، اگر ماں کا دودھ پیا ہے تو، ۔ ۔ ۔ یہ جو روزے ہیں نا، یہ پتہ ہے سب سے پہلے کس پیغمبر پر فرض ہوئے تھے؟ نہیں جناب، حضرت موسی علیہ السلام سے بھی پہلے، اب بولو، میں نے جب روزے کی بات کی تو تم نے کیا سوچا اور میں کہاں تک دیکھ رہا تھا۔‘‘ ، واہ واہ کا شور شروع ہوا تو دوسرے نے بات آگے چلائی، ’’ٹھیک ہے، روزے پہلی امتوں پر بھی فرض ہوئے تھے، تم نے حضرت موسی کی بات کی ہے، تو اب حضرت لقمان علیہ السلام کی بات بھی سن لو۔ وہ چیونٹیوں کی بات بھی سن لیتے تھے، اور اور ملکہ سبا کا تخت کس نے آنکھ کے اشارے میں لاکھڑا کیا تھا، بولو ، جواب دو؟‘‘ ، پھر واہ واہ کا شور۔ پچھلی صفوں میں داد دی جا رہی تھی، کیا جواب دیا ہے، وہ ابھی حضرت موسی کی بات کر رہا تھا، اگلا حضرت لقمان اور ملکہ سبا تک پہنچ گیا، واہ اس کو کہتے ہیں علم۔ اس کو کہتے ہیں دلیل۔
ہم ( میں اور میر ے دوست) جو ہاشم صاحب کی چھوٹی چھوٹی مگر سوچنے پر مجبور کر دینے والی باتوں کی وجہ سے، ان باتوں کی کچھ کچھ اصلیت سمجھنے لگے تھے، حیران پریشان یہ سب دیکھ رہے تھے۔ موضوع کیا تھا؟ کسی کو غرض نہیں تھی۔ مکالمہ کیسے ہونا چاہیے، کوئی نہیں سمجھ رہا تھا۔ دلیل کیا ہوتی ہے، کیسی ہوتی ہے، کوئی نہیں جانتا تھا۔ سب کے سب صرف لفظوں کے جال بن رہے تھے، اور لفظوں کے الٹ پھیر سے ایک کھیل بنا کر کھیل رہے تھے۔ تماشائیوں کے لیے یہ ایک تفریح تھی جو ان کے پہلے سے جامد عقیدوں اور رویوں کو سہارا دیتی تھی۔ سوچ سے زیادہ یہ میلانات کا کھیل تھا۔
خیر اس کے بعد ہم سب دوستوں کے خیالات بدل گئے ان محفلوں کے بارے میں۔ وہ بحثیں جو کبھی اچھی خاصی سنجیدہ لگا کرتی تھیں، ہمارے لیے بچوں کا تماشا بن گئیں۔ کئی بت ٹوٹ گئے، اور مشہور بحث باز ہمیں ان جگت بازوں جیسے لگنے لگے جو سستے تھیٹر کے ڈراموں میں جاہل تماشائیوں کے سستے زوق کی تسکین میں کامیابی کے لیے ہر حربہ اختیار کرنے پر راضی ہوں۔
دوستو! بات لمبی ہو ہی گئی، مگر کچھ تفصیل ضروری ہو جاتی ہے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ دال سے دلیل بنتی ہے اور دال سے دھوکہ بھی۔ اکثر ہم دلیل کے نام پر دھوکے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ دنیا نوے کی دہائی سے آگے نکل چکی ہے۔ فیس بک نے چائے خانے کی محفل کو آپ کے موبائل پر لا کر جما دیا ہے۔ مگر بحث بازی کے مقابلے وہی ہیں۔ لفظوں کے کھیل وہی ہیں۔ جگت والے جگت کو دلیل کے نام پر تالی سمیٹنے کے لیے استعمال بھی کر رہے ہیں۔
اللہ کرے آپ کی زندگیوں میں بھی کوئی نہ کوئی ہاشم صاحب ہوں، جو اپنی چھوٹی چھوٹی مگر گہری باتوں سے ان دلیلی مناظروں کی اصلیت آپ پر وا کرتے رہیں اور آپ جھوٹی واہ واہ سے بچ سکیں۔ آمین۔

Comments

Click here to post a comment