ہوم << زخموں سے چُور یہ بچہ کون ہے؟ - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

زخموں سے چُور یہ بچہ کون ہے؟ - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

شام میں جاری خانہ جنگی خاک اور خون کی ایسی داستان ہے جس نے میڈیا کے دوش پر کرہ ارض کے ہر کونے تک رسائی حاصل کی۔ انسانی لہو کی ارزانی کے ایسے ایسے مناظر نگاہوں کے سامنے آئے کہ ان کی ایک جھلک روح کو زخموں سے چُور کر دیتی ہے۔
ان دنوں اسی جنگ کے حوالہ سے ایک تصویر دنیا بھر میں بہت معروف ہو رہی ہے جس میں ایک چھوٹا سا معصوم بچہ زخمی حالت میں خون اور مٹی میں اٹا ایک کرسی پر گم سم بیٹھا ہے۔
اس تصویر کے حوالہ سے بین الاقوامی شہرت کے حامل ایک ادارہ نے ایک آن لائن سروے کروایا جس کے نتائج بہت دلچسپی کے حامل تھے۔ سوچا آپ سے بھی شیئر کیے جائیں۔
انہوں نے پہلے حصے میں اس بچے کی تصویر کے ساتھ اس کا نام علی نقی لکھا... اور قارئین سے اپنی رائے کا اظہار کرنے کو کہا۔
بہت شاندار فیڈ بیک آیا، تاہم رائے دہندگان کی ایک کثیر تعداد کا تعلق ایران سے تھا۔ پھر عراق اور ہند و پاکستان سے۔ ان سب نے لبیک یا حسین کہتے ہوئے خارجی گروہوں کی سرکوبی کا سختی سے مطالبہ کیا۔ اہم بات یہ نوٹ کی گئی کہ اس سروے میں دیگر عرب ممالک سے تقریباً نہ ہونے کے برابر دلچسپی دیکھنے میں آئی۔
پھر دوسرے مرحلہ میں اس بچے کا نام عمر ظاہر کیا گیا اور رائے مانگی گئی۔ ایک بار پھر ایک کثیر تعداد نے اپنے تاثرات ریکارڈ کروائے، تاہم اب کی بار ایران سے کوئی جوابات موصول نہیں ہوئے البتہ عرب ممالک سے بہت بھاری تعداد نے اس کی جنگ کی مذمت کی اور بشار الاسد، ایران اور حزب اللہ کو خوب برا بھلا کہا۔
تیسرا مرحلہ بہت حیران کن رہا۔
اس بچے کی تصویر کے ساتھ کوئی نام نہیں تھا۔ صرف یہ کہا گیا یہ ایک مسلمان بچہ ہے۔ عام توقع کے برعکس بہت ہی کم لوگوں نے اس مرحلہ میں حصہ لیا اور بمشکل اڑھائی ہزار جواب آئے، تاہم یہ کم و بیش تمام مسلم دنیا سے تھے۔
آخری مرحلہ میں صرف یہ کہا گیا کہ یہ بچہ شام میں ایک جنگی زون سے ملا ہے... اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں یہ کون ہے اور کس مذہب سے اس کا تعلق ہے۔
اب کی بار جتنے لوگوں نے اس میں شمولیت کی، اس میں سے غالب اکثریت کا تعلق مغربی ممالک، جاپان، جنوبی کوریا اور امریکا سے تھا۔
کہنے کی بات یہ ہے کہ ...
آپ درست پہنچے... ایسا کوئی سروے کہیں نہیں ہوا۔ آپ سے غلط بات کہنے کے لیے معذرت خواہ ہوں، لیکن اس کے بعد ایک بات کا جواب آپ بھی دیجیے۔ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں اگر آج ایسا کوئی سروے کنڈکٹ کیا جائے تو کیا نتائج اس سے کسی طور بھی مختلف ہوں گے جو اوپر بیان کیے گئے؟
اصل قضیہ یہ ہے کہ جنہیں انسانیت کے لیول پر بروئے کار آنا تھا، وہ مسلمانیت کے مقام سے بھی نیچے گر گئے۔
وہ مسلک اور فرقہ کی سیاست تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کے لیے انسانیت تو کوئی شے ہی نہیں، محض مسلمان ہونا بھی کافی نہیں۔ نہ مسلمان کی جان کی حرمت کوئی معنی رکھتی ہے نہ اس کی قدروقیمت کا کچھ احساس ہے۔ اسی لیے ہم محکوم ہیں۔ جو انسانیت کے مقام سے نیچے آ جاتے ہیں ان سے عالمی اقتدار چھن جاتا ہے اور جو مسلمانی سے نیچے آ جاتے ہیں، ان سے قومی اقتدار بھی جاتا رہتا ہے۔ پھر بات مسلح جتھوں کے ہاتھ میں آ جاتی ہے اور خدا کی جانب سے سزا کا عمل جاری ہو جاتا ہے کہ ایک کے ہاتھوں دوسرے کا خون بہتا ہے۔ اس وقت وہی جاری ہے۔
اس کشمکش کا فاتح نہ تو الف ہو گا اور نہ ہی ب۔ یہ دونوں کی شکست ہے کیونکہ یہ سزا کا عمل ہے.... سزا میں فتح نہیں ہوتی، صرف تذلیل ہوتی ہے !

Comments

Click here to post a comment