ہوم << جشنِ آزادی: معرکۂ حق کا استعارہ - ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

جشنِ آزادی: معرکۂ حق کا استعارہ - ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

پاکستان میں 14 اگست کا دن محض ایک تقویمی تاریخ نہیں بلکہ قوم کے تشخص، خودی اور قربانیوں کی وہ تابناک یادگار ہے جس نے ایک نظریاتی ریاست کے قیام کو ممکن بنایا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ملک بھر میں جشنِ آزادی منانے کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔

قومی پرچموں کی بہار، چراغاں، ملی نغموں کی گونج، اور جذبۂ حب الوطنی سے لبریز ماحول ایک بار پھر ہمیں اس تاریخی معرکے کی یاد دلاتا ہے جس کے نتیجے میں 1947ء کو برصغیر کی تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہوا۔ تاہم اس جشن کے پس منظر و پیش منظر کا جائزہ لیتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم محض خوشی کی تقریبات پر اکتفا نہ کریں، بلکہ اس عظیم جدوجہد کے اسباب، مقاصد، اور آج کے پاکستان کی حالتِ زار پر بھی غور کریں۔ برصغیر میں مسلم تشخص کی بقا کے لیے ایک طویل فکری، سیاسی اور سماجی جدوجہد کی بنیاد اُس وقت رکھی گئی جب مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمان اقلیت میں بدل گئے اور انگریز حکمرانوں کے زیرِنگیں آگئے۔

1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمانوں کو نہ صرف سیاسی طور پر بلکہ تعلیمی، سماجی اور معاشی سطح پر بھی زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ سر سید احمد خان، علامہ اقبال، اور دیگر مفکرین نے اس صورت حال کو بدلنے کے لیے علمی و سیاسی تحریکات کی بنیاد رکھی۔ علامہ اقبال کا خواب اور قائداعظم کی قیادت میں یہ تحریک اس وقت عملی صورت اختیار کر گئی جب 23 مارچ 1940ء کو قراردادِ لاہور منظور ہوئی، جو قیامِ پاکستان کی بنیاد بنی۔قیامِ پاکستان محض زمین کے ایک ٹکڑے کے حصول کی جنگ نہ تھی، بلکہ یہ ایک نظریاتی معرکہ تھا "اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ملک" جہاں مسلمان اپنی دینی، ثقافتی اور تہذیبی شناخت کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں۔

اس جدوجہد میں لاکھوں لوگوں نے جان، مال اور عزت کی قربانیاں دیں۔ پنجاب، بنگال، دہلی، بہار اور یو پی میں ہونے والے فسادات نے یہ واضح کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل عدم تحفظ کا شکار ہے۔ لاکھوں مہاجرین نے اپنے گھربار چھوڑ کر ہجرت کی، اور یہ ہجرت محض نقل مکانی نہیں بلکہ ایمان کا ایک امتحان تھی۔آج جب ہم ہر گلی، کوچے اور شہر میں جشنِ آزادی کا اہتمام کرتے ہیں، تو یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ہم اس قربانی کے فلسفے کو سمجھ پائے ہیں؟ کیا ہم نے پاکستان کو اُس خواب کی تعبیر بنا لیا جس کا وعدہ بانیانِ پاکستان نے کیا تھا؟ جشن منانا ہماری قومی روایت ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ خود احتسابی بھی لازم ہے۔ کرپشن، غربت، طبقاتی تفاوت، تعلیمی زوال، اور ادارہ جاتی بگاڑ اس بات کی علامت ہیں کہ ہم ابھی تک اپنے اصل مقاصد سے کوسوں دور ہیں۔

2025ء کا پاکستان ایک نازک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی، بجلی و گیس کے بحران، سیاسی عدم استحکام اور عدلیہ و پارلیمان کے درمیان کھچاؤ جیسے سنگین مسائل ہیں، تو دوسری جانب قوم میں ایک نیا سیاسی شعور اور عوامی بیداری کی لہر بھی موجود ہے۔ سوشل میڈیا، نوجوانوں کی سرگرم شمولیت، اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی اس بات کی نوید دے رہی ہے کہ پاکستانی قوم ایک بار پھر اپنے اصل کی طرف لوٹنے کی خواہاں ہے۔جشنِ آزادی کی حقیقی روح اُسی وقت زندہ رہے گی جب ہماری نئی نسل اس کی معنویت کو سمجھے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں منعقدہ تقریبات جہاں حب الوطنی کے جذبات کو ابھارتی ہیں، وہیں یہ ادارے نئی نسل کو قومی تاریخ، آئینی و جمہوری شعور، اور اسلامی اقدار سے روشناس کروانے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

صرف جھنڈے لگانے اور ملی نغمے گانے سے آزادی کا حق ادا نہیں ہوتا، بلکہ قوم کے اجتماعی ضمیر کو جگانا بھی لازم ہے۔حکومتِ پاکستان نے اس سال جشنِ آزادی کو "عزم نو" کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یومِ آزادی کی تقریبات میں سرکاری عمارات کی تزئین و آرائش، عسکری پریڈز، قومی ہیروز کو خراجِ عقیدت، اور تعلیمی اداروں میں تقریری و تحریری مقابلوں کا انعقاد شامل ہے۔ تاہم ان رسمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ، ریاست کو چاہیے کہ وہ عوامی مسائل کا حل بھی اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔ آزادی کی اصل روح اسی وقت اجاگر ہوگی جب عوام کو روزگار، تعلیم، صحت اور انصاف جیسی بنیادی سہولتیں فراہم ہوں گی۔

آزادی کوئی جامد چیز نہیں بلکہ ایک متحرک تصور ہے، جسے ہر دور میں نئے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ آج کا پاکستان خارجہ پالیسی، خطے کی بدلتی ہوئی صف بندی، اور اندرونی انتشار جیسے چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیر پر ظلم و ستم، افغانستان میں عدم استحکام، اور مشرق وسطیٰ کی نئی صف بندیوں کے تناظر میں پاکستان کو نہایت حکمت و بصیرت کی ضرورت ہے تاکہ اپنی آزادی اور خودمختاری کو محفوظ رکھا جا سکے۔پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پر جشنِ آزادی کے حوالے سے خصوصی پروگرام، دستاویزی فلمیں، اور قومی رہنماؤں کی تقاریر کو نشر کرنا ایک مثبت روایت ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کو چاہیے کہ وہ آزادی کے تقاضوں، قومی مسائل، اور ترقیاتی ایجنڈے پر بھی سنجیدہ مباحث کا اہتمام کرے تاکہ عوامی رائے کو مثبت اور تعمیری سمت دی جا سکے۔

جشنِ آزادی صرف خوشی کا موقع نہیں بلکہ ایک قومی تجدیدِ عہد کا دن ہے۔ ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم قائداعظم اور علامہ اقبال کے خواب کو حقیقت بنانے کے لیے اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریاں پوری کریں گے۔ آزادی کی نعمت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تعلیم، انصاف، مساوات اور دیانت داری کو اپنی قومی شناخت کا حصہ بنائیں۔ اگر ہم اس جذبے، شعور، اور قربانی کے فلسفے کو اپنی زندگیوں میں شامل کر لیں تو یقیناً جشنِ آزادی محض ایک روایتی تقریب نہیں بلکہ ایک زندہ و متحرک قومی روح کا مظہر بن جائے گا، جو ہمیں ہر سال اپنے مقاصد کی یاد دلاتا رہے گا۔ یہی وہ عزم ہے جو اس "معرکۂ حق" کو دائمی فتح میں بدل سکتا ہے۔