مغربی تہذیب کا چیلنج آج کے مسلم معاشروں کے لیے نہ صرف فکری و ثقافتی سطح پر ایک سنجیدہ آزمائش بن چکا ہے، بلکہ یہ ہمارے اعتقادی، تمدنی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی نظام کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ مغربی دنیا نے صنعتی انقلاب، سائنسی ترقی اور سیاسی تسلط کے بل پر دنیا کو ایک مخصوص طرزِ فکر اور طرزِ زندگی کے سانچے میں ڈھالنے کی منظم کوشش کی ہے۔
سیکولرازم، لبرل ازم، مادیت پرستی، انفرادیت اور سائنسی عقلیت پر مبنی اس تہذیب نے مذہب کو نجی معاملہ قرار دے کر اجتماعی زندگی سے بے دخل کر دیا ہے۔ یہی مغربی تہذیب آج دنیا بھر کے تعلیمی اداروں، میڈیا، ٹیکنالوجی، معیشت اور حتیٰ کہ فنونِ لطیفہ کے ذریعے ایک عالمگیر بیانیہ مرتب کر رہی ہے، جسے "عالمی تہذیب" یا "نیو ورلڈ آرڈر" جیسے ناموں سے موسوم کیا جا رہا ہے. یہ چیلنج صرف ثقافتی نہیں بلکہ فکری اور تہذیبی تسلط کی صورت میں ہمارے سامنے آیا ہے۔ مغربی تہذیب نے انسان کو "خودمختار ہستی" بنا کر پیش کیا، جہاں اخلاق، خیر و شر، عدل و ظلم کے تمام پیمانے وحی الٰہی کی بجائے انسانی عقل، خواہش اور اکثریت کے فیصلوں پر مبنی ہو گئے۔
نتیجتاً، انسانی معاشرہ انحطاط، انتشار اور اخلاقی زوال کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ مغربی معاشرے میں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اخلاقی بے راہ روی عروج پر ہے، جنس اور شناخت کے بحران پیدا ہو چکے ہیں، اور مادیت نے انسان کو روحانی طور پر کھوکھلا کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان معاشرے بھی ان اثرات سے محفوظ نہیں رہے اور کئی جگہوں پر مغرب کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب ہو کر اپنی دینی اور تہذیبی شناخت کھو بیٹھے ہیں. ایسے میں اسلام اپنے جامع، فطری اور الہامی نظامِ زندگی کے ساتھ ایک مکمل اور متبادل نظریہ فراہم کرتا ہے۔ اسلامی تہذیب کا مرکز اللہ کی حاکمیت، رسول ﷺ کی سنت اور قرآن کی تعلیمات پر قائم ہے۔
اسلام انسان کو محض ایک حیوانِ ناطق نہیں بلکہ اشرف المخلوقات سمجھتا ہے، جس کا مقصد حیات رضائے الٰہی کا حصول، عدل کا قیام، اور فلاحِ انسانیت ہے۔ اسلامی نظریۂ حیات عبادت اور معیشت، اخلاق اور سیاست، خاندان اور ریاست، سب کو ایک اکائی میں جوڑتا ہے۔ یہاں زندگی کا ہر پہلو عبادت بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ اللہ کی ہدایت اور شریعت کے دائرے میں ہو۔ اسلامی نظریہ اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ تہذیب صرف عمارتوں، مشینوں، سڑکوں اور لباسوں کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک فکری و روحانی نظام ہے جو انسان کے عقائد، اقدار، تعلقات، اور طرزِ زندگی کو تشکیل دیتا ہے۔
اسلامی تہذیب نے علم، عدل، اخوت، حیا، قناعت، دیانت، اور خاندانی نظام کو اپنے ستون بنایا ہے۔ اس تہذیب کی بنیاد وحی پر ہے، جو انسانی عقل کو سرکشی سے روکتی ہے اور اسے فطرتِ سلیمہ کے ساتھ ہم آہنگ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب نے دنیا کو نہ صرف سائنسی ترقی دی بلکہ روحانی سکون، معاشرتی انصاف اور اخلاقی اقدار بھی مہیا کیں۔ آج اگر مغرب کے تہذیبی چیلنج کا سامنا کرنا ہے تو ہمیں اسلام کے نظریاتی، فکری اور تہذیبی نظام کو دوبارہ زندہ کرنا ہو گا۔ ہمیں تعلیم کے میدان میں ایسے ادارے قائم کرنے ہوں گے جو صرف سائنسی اور ٹیکنیکل تعلیم نہ دیں بلکہ اسلامی فکر اور روحانی تربیت کو بھی لازمی حصہ بنائیں۔ میڈیا اور ثقافت کے میدان میں ہمیں ایک ایسا بیانیہ تیار کرنا ہو گا جو مغرب کے نظریاتی غلبے کا جواب دے سکے اور امت کو اپنی اصل پہچان سے جوڑ سکے۔
اسلامی نظریاتی جواب کا ایک اہم پہلو مسلم نوجوانوں کی فکری و روحانی تربیت ہے۔ موجودہ نسل انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، اور مغربی فکر سے متاثر ہو کر کئی طرح کے شکوک، سوالات اور تضادات کا شکار ہے۔ ہمیں اس نسل کو محض جذباتی نعروں سے نہیں، بلکہ علمی و فکری دلائل، روحانی تزکیہ اور عملی نمونوں کے ذریعے تیار کرنا ہو گا۔ ہمیں امام غزالی، ابن تیمیہ، اقبال، سید قطب، مودودی اور علی شریعتی جیسے مفکرین کی فکر کو نئے انداز میں پیش کر کے نوجوان ذہنوں میں ایمان، فہم اور شعور پیدا کرنا ہو گا۔
مغربی تہذیب کا ایک بڑا ہتھیار عالمی معیشت ہے، جس کے ذریعے وہ اقوامِ عالم کو اپنی مرضی کے تابع کرتا ہے۔ اسلام یہاں بھی ایک عادلانہ، فلاحی اور اخلاقی معیشت کا تصور دیتا ہے جو سود، استحصال، ذخیرہ اندوزی، اور نفع پرستی سے پاک ہو۔ زکوٰۃ، صدقات، وقف، اور اسلامی مالیاتی ادارے معاشرتی انصاف کے ضامن ہیں اور ان کی مدد سے ہم ایک خوشحال اور باوقار مسلم معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔
اسلامی نظریاتی جواب کا آخری اور سب سے مؤثر پہلو عملی نمونہ ہے۔ ہمیں اسلام کو صرف کتب، لیکچرز یا مباحث کا موضوع نہیں بنانا بلکہ اسے اپنی زندگی، خاندان، بازار، دفتر، اور حکومتی نظام میں نافذ کرنا ہو گا۔ رسول اکرم ﷺ کی سیرت، خلفائے راشدین کا نظام، اور اسلامی تاریخ کے سنہری ادوار ہمارے لیے واضح مثالیں ہیں کہ کس طرح ایک اعلیٰ نظریہ زمین پر نافذ ہو کر دنیا کو بدل دیتا ہے۔
آخر میں یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ مغربی تہذیب کا چیلنج محض رد یا تنقید سے ختم نہیں ہو سکتا، بلکہ ہمیں ایک مثبت، متبادل، عملی، اور موثر اسلامی بیانیہ دنیا کے سامنے رکھنا ہو گا۔ یہ بیانیہ محض ماضی پر فخر یا جذباتی وابستگی پر مبنی نہ ہو بلکہ عصرِ حاضر کی زبان، اسالیب اور ذرائع کے ساتھ منسلک ہو۔ اسلام ایک ہمہ گیر اور ابدی نظام ہے، اور یہی اس دورِ پرآشوب میں نجات کی واحد راہ ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے فکری، روحانی، اور عملی وجود کو ازسرِنو بیدار کرنا ہو گا، تاکہ ہم مغربی تہذیب کے سیلاب کے سامنے ایک مضبوط اور منور قلعہ قائم کر سکیں۔
تبصرہ لکھیے