ہوم << ایران شناسی (حصہ اول). احمد مظہور اشرف

ایران شناسی (حصہ اول). احمد مظہور اشرف

زیر نظر مضمون "ایران شناسی" (Iranology) ایرانی جغرافیہ و تاریخ، ادب و ثقافت اور سیاسیت و اقتصاد کے تحقیقی مطالعات، نشست ہائے مکالمات اور روبرو استفسارات سے ماخوز ہے۔
تحقیق و گفتگو: ڈاکٹر مہدی طاہری
(پروفیسر شعبہ بین الاقوامی امور، طباطبائی یونیورسٹی، تہران۔ ڈائریکٹر خانہ فرہنگ ایران راولپنڈی)
ترجمہ: ڈاکٹر سید اسد کاظمی
(مدرس زبان فارسی، فاضل تہران یونیورسٹی)

'اہل ایران' یا 'اہل فارس'؟ بنیای مباحث:
لفظ ایران 'آریہ' کے لفظ سے ماخوز ہے کیونکہ یہاں قدیم 'آریان' قوم آباد تھی۔ تاریخی اعتبار سے یہان کے باسی اپنے لئیے لفظ 'ایران' ہی استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ مگر دیگر اقوام مغرب بلخصوص مستشرقین یا orientalists اپنے زاویہ نگاہ سے ملک ایران اور عراق کو Persia یا Persian کانام دیتے تھے۔

تبھی وہ شاہ ایران کو سرکای، سفارتی یا سیاسی مسودہ تحریر کرتے وقت بنام Persian King تحریر کرتے۔ مثلاً اہل مصر اپنے لئے مصر کالفظ ہی استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ صدر مصر کو تحریری طور پر President of Egypt لکھا جاتا ہے نہ کہ President of Misir۔ اسی طرح اٹلی کیلئے آج اس کا قدیم نام روم استعمال نہیں کیا جاتا۔ دو صدی قبل تک شمال مشرقی ایشیاء کی 'کاچاری بادشاہت' کے شاہ ایران کے نام خطوط کتابت میں "ممالک محروصہ ایران کا بادشاہ" لکھا جاتا رہاہے۔ پھر جب ایران میں رضا شاہ پہلوی بادشاہ ہوا تو اس نے اقوام متحدہ کے نام تحریری درخواست یا ہدایت لکھی کہ مملکت کیلئے اب Persia کی بجائے اصل تاریخی اور مقامی نام لفظ ایران کا استعمال کیاجائے۔

یوں عالمی نامہ نگاری میں لفظ ایران قریباً اسی سال سے مستعمل ہے۔ لیکن یہ سمجھنا غلط ہو گاکہ رضا شاہ پہلوی نے کوئی نوے سال پہلے لفظ ایران اختراع کیا۔ یہاں کے باسی قدیم تاریخی طور پر فارسی کہلاتے تھے اس لئیے یہ ملک Persia کے نام سے موسوم رہا۔ ایک تاریخی حوالہ کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ آنحضور محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک بزرگ صحابی سلمان فارسی رضہ تھے۔ تو انہیں کبھی Salman Irani نہیں کہابولاگیا۔ ہوں اس علاقہ کو بیرون دنیا فارس کے نام سے جانتی تھی۔

لیکن قریباً پانچ ہزار سال۔پرانی اس سے بھی قدیم تر 'ایلامی' نام کی قوم آباد تھی۔ ایران کا جنوب مغربی حصہ'ایلام' تھا جسے خوزستان کہا جاتا ہے۔ یہاں شوز، احوال وغیرہ کے علاقے موجود ہیں جہاں ایلام قوم ہائی جاتی تھی۔ قدیم زمانی فرق کی بنا پر ایرانی زبان و ادب، بول چال، لہجہ و کلمات ہر لحاظ سے اس قدیم ایلامی زبان سے ایک مختلف زبان ہے۔

فارسی تہذیب و تمدن کا تاریخی تناظر:
علاقہ ایران کے اندر مزید تر چھوٹے چھوٹے تمدنوں کے مراکز موجود تھے۔ جو محض ایک صوبہ، شہر یا علاقہ تک محدود تھے رہے۔ مثلاً سیستان و بلوچستان اور دریائے سندھ کنارے موہن جو ڈارو کے علاقے میں تاریخی شہر 'سوختے' موجود تھا جہاں قدیم تہذیب کے آثار رہے۔ اسی طرح کاشان کے قریب شہر 'اصفہان' میں قدیم تہذیب و تمدن 'سیالکی' (ٹیلہ یا ٹپہ ) بھی دریافت ہوا جو کہ آریاؤں یا قدیمی 'ہخامنشیوں' سے بھی پہلے کی تہذیب ہے۔ لیکن یہی ہخامنشی سلطنت (Achaemenid Empire) اور تہذیب (ڈھائی ہزار سال قبل ) تاریخ میں سب سے زیادہ مؤثر و مضبوط رہی ہے۔

یہ تمدن مشرق میں ہندوستان تک اور مغرب میں یورپ اور قدیم مصر تک پھیل چکا تھا جو کل دنیا کے ایک تہائی تمدنی حصے کو اپنے زیر اثر رکھ چکاتھا۔ایران مشرق وسطیٰ میں دو بڑے پانیوں (دریائے) عمان اور خلیج فارس کے درمیان جبکہ براعظم ایشیاء کے جنوبی حصے میں واقع ہے۔ یہ علاقہ عراق سے متصل ہے۔ یہاں کی قدیم تہذیب و تمدن کو 'بین النہرین' کا تمدن کہتے ہیں. یعنی دریاہائے دجلہ و فرات کی قدیم ترین تہذیب۔ 'خلیج فارس' یا مشرق وسطیٰ کایہ علاقہ قدیم تہذیبوں کا مرکز ہے۔

'خلیج فارس' یا 'خلیج عرب' ؟
'خلیج فارس' کے حق ملکیت کے حوالے سے عرب ریاستوں کی یہ یکطرفہ مشق چلی آ رہی ہے کہ وہ اسے 'خلیج عرب' پکاریں۔ جبکہ قریباً ڈھائی ہزار سالہ تاریخی نقشہ جات، کتب و اسناد میں یہ علاقہ 'خلیج فارس' کے نام سے موسوم ہے۔ جیساکہ قدیم فارسی ہخامنشی سلطنت (Achaemenid Empire) جو قبل مسیح 550 تا 330 تک موجود رہی، اس دوران یہ علاقہ خلیج فارس کے نام سے معروف تھا۔ اسی طرح قریباً 1400سال پہلے پیغمبر اسلام آنحضور محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث میں اس علاقے کو دریائے فارس کے نام سے یاد فرمایا۔

ابن بطوطہ کاشمار نامور ترین سیاحوں اور سفرنامہ نگاروں میں ہوتاہے۔ جو قریباً 700 سال قبل شمال افریقہ سے ایشیاء کی طرف سفر کرتا ہےاور کتنے ہی مقامات سے گزرتا اور لوگوں سے ملتاہے۔ ابن بطوطہ کے بنائے نقشوں میں بھی یہ علاقہ خلیج فارس ک نام سے موجود ہے۔ ماضی میں اقوام متحدہ کی طرف سے بھی رکن ممالک کو جاری ہدایت میں اس علاقے کیلئے بین الاقوامی دستاویزات میں Persian Gulf کا لفظ استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ نصف صدی قبل انقلاب ایران سے پیشتر 1970 میں ہونے والے ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں ایک ریاست جو ایران سے علیحدہ ہوئی موجودہ بحرین کی صورت میں دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔

لہٰذا خلیج فارس کی تاریخ فارس ہے اور یہاں موجود بیشتر جزائر یا تو ایران سے تعلق رکھتے ہیں یا ان کے ناموں میں ایرانی ثقافت کا رنگ پایاجاتایے۔ اسی طرح آبنائے ہرمز Strait of Hormuz اگر چہ عالمی قوانین کے مطابق آبی گذرگاہیں کھلی اور آزاد ہونی چاہیں مگر تاریخی و جغرافیائی لحاظ سے اس کا حق ملکیت شمال میں ایران اور جنوب میں سلطنت عمان کو حاصل رہا ہے۔

جدید ایران کے چند اہم اشارئیے:
ملک ایران کا مجموعی رقبہ سولہ لاکھ اڑتالیس ہزار ایک سو پچانوے (16,48,195) مربع کلومیٹر ہے۔ جبکہ سا میں خشکی و آبی سرحدیں شامل ہیں۔ ایران کا1700 کلومیٹر طویل ساحلی علاقہ خلیج فارس کی آبی سرحد سے ملا ہوا ہے۔ خلیج کاطویل شمالی حصہ واحد ایران سے جڑا ہے جبکہ اس کی کل مغربی آبی سرحد 5 ممالک میں تقسیم ہے۔لہذا یہ آبی جغرافیائی تفصیل بھی اس علاقے کو خلیج فارس کہلانے کی صائب دلیل ہے۔2016 کی مردم شماری کے مطابق ایران کی کل آبادی قریباً 8 کروڑ 20 لاکھ ہے۔ جبکہ آئندہ سال کی مجوزہ مردم شماری میں متوقع آبادی کی تعداد 9 کروڑ 20 لاکھ ہے۔

دو قالب، یک جان ~ ایران و پاکستان:
ایران پر مسلط کردہ حالیہ ازرائیلی چنگ کے تناظر میں اہل ایران پاکستانی ملت، قوم، اور حکومت کے شکر گزار ہیں جس نے کسی بھی دوسری مملکت کے مقابلے میں ایران کی حمایت میں اپنا وزن ڈالا ہے۔ بالخصوص ازرائیلی صیہونی رجیم کو ملزم ٹہرانے میں پاکستان کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس جنگ نے ازرائیل کے مصنوعی رعب و دبدبے کو پارا پارا کیا۔ اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ یہ ظلم رجیم قابل شکست ہے۔ جس طرح اللہ پاک نے اہل ایران کو سرخرو کیا ہے ہماری دعا ہے کہ غزہ کے مظلوموں اور ان کے معصوم بچوں کو اس قاتل رجیم سے نجات حاصل ہو۔ آمین۔