رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ پر اگر غیر جانب داری سے نظر ڈالی جائے تو یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ آپ ﷺ کی پوری زندگی امن، صلح، درگزر، عفو، رواداری اور اصلاحِ انسانیت سے عبارت تھی۔
آپ ﷺ نے مکّہ مکرمہ میں تیرہ سال تک شدید ترین ظلم و ستم برداشت کیا، لیکن کبھی تلوار نہ اٹھائی، کبھی قریش کے مظالم کا جواب پتھروں یا ہتھیاروں سے نہ دیا۔ نہ اپنے دفاع میں کوئی قبائلی جنگ چھیڑی اور نہ اپنے پیروکاروں کو کسی قسم کی مسلح جدوجہد پر اکسایا۔ یہ اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا اصل پیغام اصلاح، صلح اور تزکیہ تھا۔ تاہم جب آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی اور ایک آزاد سماج کی تشکیل ممکن ہوئی، تب بھی جنگ کا راستہ فوراً نہیں چنا بلکہ متعدد مواقع پر درگزر، مصالحت اور حکمت کو ترجیح دی گئی۔ مگر جب دشمنوں نے مسلمانوں کے وجود، ریاست، اور دینی آزادی کو مٹانے کا عزم کر لیا تو پھر دفاعی جنگیں ناگزیر ہو گئیں۔
اسلامی تاریخ اور سیرتِ رسول ﷺ کے تمام اہم مورخین اور سیرت نگار اس بات پر متفق ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے لڑی گئی تمام جنگیں دفاعی نوعیت کی تھیں۔ غزوہ بدر، احد، خندق، حنین، تبوک، خیبر اور فتح مکہ سمیت تمام معرکے اسی وقت وقوع پذیر ہوئے جب قریش، یہود یا دیگر قبائل نے مسلمانوں پر حملے کیے، معاہدے توڑے، ریاستِ مدینہ کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی، یا پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات مبارک کو ختم کرنے کی سازشیں کیں۔ اسلام میں جنگ کا مقصد ہرگز زمین یا مال و دولت حاصل کرنا نہیں بلکہ ظلم کا خاتمہ، حق کی حفاظت اور مظلوموں کی نصرت ہے۔ قرآن مجید نے واضح طور پر فرمایا:
’’اور تم ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا اللہ ہی کا ہو جائے‘‘ (الانفال: 39)۔
نبی کریم ﷺ نے غزوہ بدر سے پہلے تک قریش کے مسلسل مظالم کے باوجود صبر کا دامن نہ چھوڑا۔ ہجرت کے بعد بھی آپ ﷺ نے کفار مکہ کو نظر انداز کیا اور صرف مدینہ کی داخلی بہتری، مسلمانوں کی تربیت اور ایک منصفانہ معاشرہ قائم کرنے پر توجہ دی۔ مگر قریش کے سرداروں نے مدینہ منورہ پر چڑھائی کی سازشیں شروع کر دیں، مسلمانوں کے تجارتی قافلے لوٹے، جاسوس بھیجے، اور دیگر قبائل کو بھڑکایا۔ ایسے میں غزوہ بدر کی صورت میں ایک دفاعی جنگ لڑی گئی، جو کہ مدینہ پر قریش کی یلغار کا جواب تھی۔ یہاں بھی رسول اللہ ﷺ نے جنگ سے پہلے تک قریش کو صلح کی دعوت دی، لیکن ان کے انکار کے بعد مجبوراً دفاعی اقدام کیا گیا۔
غزوہ احد اس وقت پیش آیا جب قریش نے بدر میں شکست کا بدلہ لینے کے لیے ایک بڑا لشکر تیار کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے شہر میں رہ کر دفاع کرنے کی تجویز دی، مگر نوجوان صحابہ کی خواہش پر مدینہ سے باہر جا کر جنگ لڑی گئی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا مگر پھر بھی رسول اللہ ﷺ نے کفار کا پیچھا نہیں کیا، قیدیوں سے حسنِ سلوک کیا اور صلح کا دروازہ کھلا رکھا۔ غزوہ خندق کی نوعیت بھی دفاعی تھی۔ مدینہ پر بیرونی حملہ روکنے کے لیے شہر کے گرد خندق کھودی گئی، جو اس وقت عرب میں رائج نہیں تھی۔ خود رسول اللہ ﷺ نے مزدوروں کی طرح اس خندق کی کھدائی میں حصہ لیا۔ جب قریش، بنو قریظہ اور دیگر قبائل نے مدینہ کو گھیر لیا تو یہ جنگ دفاع اور بقاء کی جنگ بن گئی۔
تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ معاہدات کی پاسداری کی، حتیٰ کہ صلح حدیبیہ جیسے بظاہر یک طرفہ معاہدے کو بھی قبول کیا۔ اس صلح کے ذریعے رسول اللہ ﷺ نے جنگ کو روک کر دعوتِ دین کے دروازے کھول دیے اور نتیجتاً دو سال کے اندر ہزاروں لوگ اسلام میں داخل ہو گئے۔ تاہم جب قریش نے صلح حدیبیہ کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے اتحادی قبیلے پر حملہ کیا، تب رسول اللہ ﷺ نے بالآخر مکہ کی جانب پیش قدمی کی، مگر بغیر خون خرابے کے شہر کو فتح کیا۔ فتح مکہ دراصل ایک بے مثال واقعہ ہے جس میں سابقہ دشمنوں کو عام معافی دی گئی، بدلہ نہ لیا گیا، اور صلح و معافی کو فروغ دیا گیا۔ اس عمل سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا مطمع نظر جنگ نہیں بلکہ امن و اخوت تھا۔
یہودی قبائل کے ساتھ بھی رسول اللہ ﷺ نے ابتدا میں پرامن معاہدے کیے، جیسا کہ میثاقِ مدینہ میں یہود کو مسلمانوں کے برابر شہری تسلیم کیا گیا اور ان کی مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی۔ تاہم جب بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ نے معاہدات توڑ کر مدینہ میں فساد برپا کیا، مسلمانوں کو نقصان پہنچایا اور دشمنوں سے گٹھ جوڑ کیا، تب ان کے خلاف کاروائیاں ناگزیر ہو گئیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ہر اقدام، خواہ وہ جنگ ہو یا صلح، ایک عدل و انصاف پر مبنی تدبیر تھی جس کا مقصد فساد کا خاتمہ اور سماجی امن کا قیام تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے جنگ کے دوران بھی اخلاقی اصولوں کی مکمل پابندی کی۔ آپ نے فرمایا: "کسی عورت، بچے، بوڑھے یا عبادت گاہ کو نقصان نہ پہنچاؤ۔ درخت نہ کاٹو، فصلیں نہ جلاؤ، اور جو لوگ جنگ میں شریک نہیں وہ محفوظ رہیں۔" یہ وہ اصول ہیں جن پر آج اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں زور دیتی ہیں، جبکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ تمام اصول چودہ سو سال پہلے نافذ کر دیے تھے۔ آپ ﷺ نے جنگی قیدیوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کیا، ان کی خوراک، لباس اور رہائش کا بندوبست مسلمانوں کے برابر رکھا، اور اکثر انہیں بغیر فدیہ کے آزاد کیا۔
موجودہ دور میں جب کچھ عناصر اسلام کو دہشت گردی یا جنگ پسندی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، تو سیرتِ رسول ﷺ ان تمام الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اسلام میں جنگ کی اجازت صرف ظلم و جبر کے خاتمے کے لیے ہے، نہ کہ سیاسی غلبے یا اقتصادی مفاد کے لیے۔ نبی کریم ﷺ نے کسی بھی غیر مسلم کو اس کے مذہب کی بنا پر قتل نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ ان کے ساتھ عدل و احسان کا برتاؤ کیا۔ موجودہ دور کے فلسطینی، کشمیری، شامی، یمنی، روہنگیا اور افریقی مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، اگر آج رسول اللہ ﷺ کا اسوہ اور اسلامی جنگی اصول نافذ ہوں تو ان مظلوموں کو انصاف اور تحفظ میسر آ سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی تمام جنگیں اس وقت پیش آئیں جب دشمنوں نے امن کے راستے بند کر دیے، دعوت کو روکنے کی کوشش کی، معاہدے توڑے، اور قتل و غارت پر اتر آئے۔ ان جنگوں کا مقصد کسی قوم پر تسلط نہیں بلکہ دین کے ماننے والوں کو زندہ رہنے، آزادی سے عبادت کرنے، اور ظلم کے خلاف قیام کا حق دلانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی جنگیں درحقیقت اصلاحی تحریکات تھیں، جنہوں نے ایک غیر منصفانہ معاشرے کو عدل، رحم، بھائی چارے اور خدا خوفی میں تبدیل کر دیا۔
رسول اللہ ﷺ کی جنگی حکمت عملی ہمیشہ عدل و رحم پر مبنی رہی۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ پہلے امن کی دعوت دی، پھر دفاعی تیاری کی، اور اگر جنگ ناگزیر ہو گئی تو بھی اخلاق، رحم دلی، معاہدات کی پابندی، انسانی حقوق کا خیال اور حدودِ الٰہی کی پاسداری کی۔ یہی اسوہ حسنہ آج کے مسلمانوں کے لیے ایک مکمل راہنما ہے کہ وہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوں، مگر اخلاق اور عدل کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ آج کے دور میں جب دنیا بھر میں جنگیں ذاتی مفاد، لالچ اور سیاسی تسلط کے لیے لڑی جا رہی ہیں، رسول اللہ ﷺ کی جنگیں انسانیت کے تحفظ، امن کے قیام اور مظلوموں کی نصرت کی روشن مثالیں پیش کرتی ہیں۔
نتیجتاً کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جو جنگیں لڑنی پڑیں، وہ محض اقتدار یا جاہ و حشمت کے لیے نہیں تھیں بلکہ ایک ناگزیر دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ تھیں جو ظالموں کے مقابلے میں مظلوموں کے دفاع اور عدل کے قیام کے لیے سرانجام دیا گیا۔ ان جنگوں کے پیچھے نہ ذاتی مفاد تھا، نہ مال و دولت کی حرص، نہ زمین کی توسیع کی خواہش، بلکہ صرف ایک مقصد تھا:
"دینِ حق کا غلبہ اور انسانی آزادی و عدل کی حفاظت۔"
اگر آج مسلم دنیا اس پیغام کو سمجھے اور دنیا کو بھی یہ پیغام سمجھائے، تو دنیا کی بہت سی جنگیں اور خونریزی روکی جا سکتی ہے، اور انسانیت کو نجات کی طرف واپس لایا جا سکتا ہے۔
تبصرہ لکھیے