ایچ ای سی 2002ء میں، جبکہ ملک کا آئین معطل تھا، ایک آرڈی نینس کے ذریعے وجود میں لائی گئی۔ اس آرڈی نینس کو جنرل مشرف کے جاری کردہ دیگر قوانین کی طرح ایل ایف او اور سترھویں ترمیم کے ذریعے تسلسل عطا کیا گیا۔ 2010ء میں اٹھارویں ترمیم کے بعد اس تسلسل کو جاری رکھا گیا ۔ تاہم اس ترمیم نے قانون سازی کےلیے ’مشترک فہرست‘ کا خاتمہ کرکے تعلیم سمیت ایسے تقریباً تمام امور صوبوں کی طرف منتقل کردیے۔ تاہم اس وقت کے چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر عطاء الرحمان سپریم کورٹ جا پہنچے اور فریاد کی کہ اگر ایچ ای سی کو صوبوں کے حوالے کردیا گیا، تو بربادی آجائے گی۔ افتخار محمد چودھری صاحب کی عدالت تھی، مرضی کے فیصلے تھے۔ چنانچہ 12 اپریل 2011ء کو انھوں نے مختصر حکمنامہ جاری کرکے ایچ ای سی کو اپنا سابقہ کام جاری رکھنے کی اجازت دی۔ چودھری صاحب کے دوسرے کئی مختصر حکمناموں کی طرح اس حکمنامے کی تفصیلی وجوہات بھی کبھی سامنے نہیں آئیں اور 14 سال بعد بھی ایچ ای سی اسی مختصر حکمنامے کے بل بوتے پر قائم ہے۔
اس دوران میں ایک اور تبدیلی آئی جس نے ایچ ای سی کےلیے عملاً بہت سارے مسائل پیدا کیے۔’دہشت گردی کے خلاف اتحاد‘ کا حصہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو ’اتحادیوں کی مدد کےلیے فنڈ‘ کی مد میں کئی بلین ڈالر ملتے تھے۔ اس مدد کا وافر حصہ ایچ ای سی کے ذریعے اعلی تعلیم کی طرف منتقل کیا گیا۔ چنانچہ ایچ ای سی نے بہت سارے لوگوں کو غیر ملکی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کےلیے بھیجا، باہر سے پڑھے ہوؤں کو یہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کےلیے بلایا، کئی بین الاقوامی کانفرنسیں کیں، مختلف تحقیقی پروجیکٹس کےلیے رقوم دیں، اور بظاہر کچھ عرصے کےلیے یونیورسٹیوں اور اعلی تعلیم کے مراکز میں بڑی ہلچل نظر آئی۔ اس دور میں ’ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی‘ کی پالیسی بھی اختیار کی گئی اور دھڑا دھڑ یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ پھر ان یونیورسٹیوں میں بہت سارے نئے شعبے بھی قائم کیے گئے اور کئی نئے پروگرام جاری کیے گئے۔ ایچ ای سی کے کرتا دھرتا ’دس انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ‘کی مجسم تصویر بنے نظر آتے تھے کہ اچانک ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کے سوتے خشک ہوگئے اور ایچ ای سی پر ہن برسنا بند ہوگیا۔
اس کے بعد معلوم ہوا کہ کئی یونیورسٹیاں تو صرف اینٹوں اور پتھروں کی عمارت کی صورت میں ہیں اور ان میں کئی شعبے صرف کاغذات میں ہی پائے جاتے ہیں، کئی پروگرام ایسے ہیں جن میں طلبہ موجود ہی نہیں، کئی لوگ جو سکالرشپ لے کر باہر گئے، وہ واپس ہی نہیں آئے، کئی پروجیکٹ بس نام ہی کے پروجیکٹ تھے۔ ’تحقیقی مجلات‘کا ڈراما الگ۔ Egyptology یعنی ’مصریات‘ کے موضوع پر ایک بوگس مجلے میں پاکستان کے آئینی مسائل پر چند صفحات کا مقالہ شائع ہو جسے تین مقالہ نگاران نے لکھا ہو اور وہ مجلہ ایچ ای سی کے اعلی درجے کے مجلات میں شامل ہو! یہ صرف ایک مثال ہے، ورنہ تحقیقی مجلات کے نام پر جو کھیل رچایا گیا ہے، اس کی تفصیلات بہت اندوہناک ہیں۔
ایچ ای سی کا آرڈی نینس اسے ’ریگولیٹر‘ کی حیثیت نہیں دیتا، نہ ہی اس کی دفعہ 10 جو ایچ ای سی کے اختیارات کے متعلق ہے، اسے ایسا کوئی اختیار دیتی ہے، لیکن ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں پر اپنی مانی قائم کرنے کےلیے خود کو ریگولیٹر کے طور پر ان پر مسلط کیا ہوا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جب پچھلے سال سپریم کورٹ میں مقدمہ آیا کہ سرکاری یونیورسٹیوں کا معیار بہت زیادہ گر گیا ہے اور وہاں انتظامی بدعنوانی اور مالیاتی کرپشن کے علاوہ علمی زوال کی بدترین صورتحال ہے، تو ایچ ای سی نے سپریم کورٹ کے سامنے گربہ مسکین بن کرکہا تحریری موقف یہ دیا کہ یونیورسٹیاں اپنے امور میں خود مختار ہیں اور ایچ ای سی تو انھیں صرف سفارشات ہی دے سکتی ہے!
ڈاکٹر مختاراحمد اس وقت ایچ ای سے کے چیئرمین ہیں جو ایک عشرے سے زائد عرصے سے ایچ ای سی سے وابستہ ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیاں سالہا سال سے مالیاتی بحران کا شکار ہیں؛ بیشتر یونیورسٹیوں میں تنخواہوں اور پنشن کی مد میں دینے کےلیے رقم ہی پوری نہیں ہوتی، لیکن سرکاری ٹیلی وژن کو ایک انٹرویو میں ڈاکٹر مختار نے کہا کہ اس سال کے وفاقی بجٹ میں یونیورسٹیوں کےلیے وہی رقم ہے جو 2017ء سے انھیں دی جاتی رہی ہے؛ مزید یہ کہ یونیورسٹیوں کا ڈیویلپمنٹ بجٹ جو پچھلے سال 61 بلین تھا، اس سال اس میں شدید کمی کرکے اسے 39 بلین کردیا گیا ہے! تاہم اپنی اس بدترین ناکامی پر بھی ڈاکٹر مختار بطور چیئرمین ایچ ای سی اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کےلیے سرگرم ہیں!
انٹرویو میں ڈاکٹر مختار نے مزید کہا کہ کسی زمانے میں پاکستانی یونیورسٹیوں میں سالانہ صرف 850 تحقیقی مقالات شائع ہوتے تھے، جبکہ اب سالانہ 40 ہزار تحقیقی مقالات شائع ہوتے ہیں۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان 40 ہزار مقالات کے نتیجے میں ملک میں کیا انقلاب برپا ہوا ہے؟ جعلی مجلات، جعلی مقالات، جعلی تحقیق، ایچ ای سی کی اس پالیسی نے قوم کو دیا کیا ہے؟
پچھلے سال سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ بہت ساری سرکاری یونیورسٹیاں کسی مستقل وائس چانسلر کے بغیر چلائی جارہی ہیں، رجسٹرار، ڈین، چیئرپرسن وغیرہ جیسے اہم عہدوں پر سالہا سال سے عارضی تعیناتیاں کی گئی ہیں اور سینڈیکیٹ، سینیٹ، بورڈ آف گورنرز وغیرہ کے اجلاس ہوتے ہی نہیں ہیں۔ ایچ ای سی نے یہ ساری باتیں تسلیم کیں۔ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں ان امور اور دیگر متعلقہ امور پر ایچ ای سی، وزارتِ تعلیم، وفاقی و صوبائی حکومتوں اور سرکاری یونیورسٹیوں کو تفصیلی احکامات دیے گئے۔ یہ فیصلہ پچھلے سال اکتوبر 2024ء میں جاری کیا گیا۔ تقریباً 9 مہینے ہوچکے۔ اب صورتحال کیا ہے۔ صرف ایک یونیورسٹی کا معاملہ دیکھ لیجیے جس کا انتظام ڈاکٹر مختار نے براہِ راست سنبھالا۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی ریکٹر کو تفصیلی طور پر چارج شیٹ کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے انھیں معطل کرتے ہوئے وزارتِ تعلیم کو حکم دیا کہ انھیں ہٹا کر یونیورسٹی کےلیے اہل ریکٹر کی تعیناتی مستقل بنیادوں پر کی جائے اور جب تک یہ نہ ہو، ایچ ای سی کے چیئرمین عارضی طور پر ریکٹر کی ذمہ داریاں سنبھال کر معاملات کو درست کرلیں۔ مزید سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ یونیورسٹیوں میں عارضی تعیناتی 6 مہینوں سے زیادہ مدت کےلیے نہ ہو۔ ڈاکٹر مختار نے نومبر 2024ء میں اس یونیورسٹی کے ریکٹر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ قانوناً انھیں اپریل 2025ء تک سارے کام نمٹا کر یہاں سے نکل جانا چاہیے تھے، لیکن ابھی تک اس یونیورسٹی کےلیے مستقل ریکٹر کی تعیناتی کےلیے اشتہار تک نہیں دیا گیا۔ یونیورسٹی کے آرڈی نینس کے مطابق بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ہر تین مہینوں میں کم ازکم ایک دفعہ ہونا لازمی ہے اور سپریم کورٹ نے اس کا صریح حکم بھی دیا تھا، لیکن ڈاکٹر مختار نے 7 مہینوں میں کوئی میٹنگ نہیں بلائی، حالانکہ کئی معزز ارکان نے بارہا میٹنگ بلانے کا مطالبہ کیا۔ یونیورسٹی کا بجٹ بھی بورڈ سے منظور ہونا لازمی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بجٹ منظور ہوئے بغیر ڈاکٹر مختار یونیورسٹی کے اخراجات کس قانون کے تحت چلارہے ہیں؟
تبصرہ لکھیے