چند سال پہلے راولپنڈی میں ایک ترکی کمپنی براق کو کچرہ اٹھانے کے لیے ہائر کیا گیا۔جس نے مغربی ممالک کی طرح پورا یونیفارمڈ اسٹاف، خوبصورت جدید گاڑیاں، بڑی بنز اور ان کے ساتھ بلیک بن بیگز دئیے۔شاید ایک ماہ تک انہوں نے بڑے زورو شور سے اپنا کام کیا۔
پھر ہمارے پاکستانی بھائی اپنی روش پر واپس آ گئے۔بن بیگز غائب، کچرہ بڑی بنز سے باہر بکھرا رہتا جو ہر گلی کے آغاز میں رکھی ہوئی تھیں اور گھروں سے کچرہ اس بن تک پہنچانے کے لیے لوگوں نے پھر سے پرانے سوئیپرز ہائر کر لیے تھے۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس کمپنی کو ادائیگی کے لیے بجلی کے بل میں 300 روپے کا اضافہ کیا گیا تھا۔اب حال یہ ہے کہ 300 بھی کٹ رہے ہیں اور ہم اپنے پرانے سوئپرز کو بھی پے کر رہے ہیں جو ہیں تو میونسپل کارپوریشن کے تنخواہ دار مگر ہر گھر سے کچرہ اٹھانے کے 200 ماہانہ لیتے ہیں۔ہماری گلی میں تقریبا40 گھر تو ہوں گے ہی۔
پنجاب ایک بار پھر نئے ٹیکس کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔ اس بار حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ گھروں اور دکانوں سے کچرا اٹھانے کے لیے سائز کے مطابق ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ یعنی جس کا گھر یا دکان بڑی ہے وہ زیادہ ادا کرے گا۔ اگرچہ حکومتی دعویٰ ہے کہ یہ فیس شہری صفائی کو بہتر بنانے کے لیے ہے،لیکن عوام کا کہنا ہے کہ کام تو ویسے بھی نہیں ہوتا صرف اپنی جیبیں بھری جاتی ہیں۔کچرا تو اٹھتا نہیں، بل پہلے آ جاتا ہے. پنجاب کے مختلف شہروں لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان، اور گوجرانوالہ میں پہلے ہی صفائی کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں، نالیاں بند ہیں، گلیاں بدبو سے بھری ہوئی ہیں۔
لاہور جیسے بڑے شہر میں بھی ویسٹ مینجمنٹ کمپنی لاکھوں کا بجٹ لینے کے باوجود اکثر علاقوں سے ہفتوں تک کچرا نہیں اٹھاتی۔اب حکومت کا یہ فیصلہ کہ ہر گھر اور دکان سے کچرا اٹھانے پر ماہانہ فیس لی جائے گی اور وہ بھی پراپرٹی کے سائز کے مطابق عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔نئے قانون کے مطابق:
5 مرلے تک کے گھر والوں سے ماہانہ 150 روپے
10 مرلے والے سے 300 روپے
1 کنال اور اس سے اوپر کے مکانات سے 500 روپے یا اس سے زیادہ
دکانوں کے لیے فیس اس کے فرنٹ ایریا، لوکیشن اور کاروبار کی نوعیت کے مطابق ہو گی۔
سوال یہ ہے جب پہلے ہی صفائی کا نظام مکمل ناکام ہے تو کیا اب بھی عوام کو کسی بہتری کی امید رکھنی چاہیے؟ شہریوں کا کہنا ہے کہ پہلے ہی وہ کئی طرح کے ٹیکسز ادا کرتے ہیں پانی کا بل، بجلی کا بل، پراپرٹی ٹیکس، سیوریج چارجز اور اب ایک نیا "صفائی ٹیکس" ان پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ایک شہری کا کہنا تھا:
"میرے گھر کے باہر ہفتوں سے کچرا پڑا ہے نہ میونسپلٹی آئی نہ ویسٹ مینجمنٹ۔ اب کہتے ہیں ہم فیس بھی دیں؟ یہ سیدھا سیدھا لوٹ مار ہے۔"
دوسری جانب دکان دار طبقہ بھی نالاں ہے۔ ایک دکاندار نے کہا:
"مہنگائی نے پہلے ہی سانس لینا مشکل کر رکھا ہے۔ اوپر سے ہر ہفتے نیا ٹیکس آ جاتا ہے۔ کاروبار تباہ ہو رہا ہے اور یہ لوگ ہمیں مزید نچوڑنے میں لگے ہیں۔"
پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کو مستحکم مالی بنیاد فراہم ہو گی اور صفائی کا نظام جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ویسٹ مینجمنٹ کمپنیاں پہلے ہی اربوں روپے کا بجٹ کھا چکی ہیں اور کارکردگی صفر ہے۔اکثر اوقات ملازمین تنخواہیں نہ ملنے پر ہڑتال کر دیتے ہیں۔ گلی محلوں میں کچرا مہینوں تک پڑا رہتا ہے اور نتیجے میں ڈینگی، ہیضہ، اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔اور حکومت صرف اعلانات اور اشتہارات میں اپنی بہترین کارکردگی دکھاتی نظر آتی ہے۔
اگر حکومت کچرا اٹھانے پر ٹیکس لے رہی ہے تو کیا عوام کو اس ٹیکس کے بدلے میں کوئی سہولت بھی دی جائے گی؟ کیا ویسٹ مینجمنٹ کمپنیاں جواب دہ ہوں گی؟ کیا یہ رقم واقعی صفائی پر لگائی جائے گی یا پھر وزراء اور بیوروکریسی کے اللے تللے پورے کرنے میں استعمال ہو گی؟عوام کی اکثریت کا ماننا ہے کہ ان ٹیکسز کا انجام بھی وہی ہو گا جو پہلے ٹیکسز کا ہوا نہ حساب نہ جواب۔موجودہ حکومت پہلے ہی مہنگائی، بےروزگاری، اور بجلی کے بلوں میں اضافے جیسے مسائل پر عوامی تنقید کا سامنا کر رہی ہے۔ اب ایسے میں کچرا اٹھانے جیسی بنیادی سہولت پر بھی فیس عائد کرنا، سیاسی طور پر ایک خطرناک قدم بن سکتا ہے۔
خاص طور پر چھوٹے شہروں اور دیہاتی علاقوں میں جہاں پہلے ہی بلدیاتی نظام غیر فعال ہے وہاں یہ ٹیکس عوامی غصے کو مزید بڑھا سکتا ہے۔اگر حکومت واقعی صفائی کے نظام کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے شفافیت لانی ہو گی: تمام ٹیکسز کی واضح تفصیل فراہم کی جائے۔ ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کا آڈٹ کر کے عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ صفائی کا عملہ بہتر ٹریننگ اور سہولتوں سے لیس کیا جائے۔ہیلپ لائن بنائے جائے تاکہ لوگ براہِ راست شکایت درج کر سکیں۔
جب تک ان اقدامات پر عمل نہیں کیا جاتا، عوام اس نئے صفائی ٹیکس کو لوٹ مار سے کم نہیں سمجھیں گے۔کیونکہ ہماری حکومت ٹیکسز تو امریکہ کی طرح 38% لگاتی ہے لیکن سہولت 1% بھی نہیں دیتی۔جن ممالک میں ٹیکسیز کی شرح زیادہ ہوتی ہے وہاں حکومت عوام کو تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات مفت فراہم کرتی ہے۔پیدائش سے لے کر 18 سال تک ہر ایک کا ماہانہ وظیفہ مقرر کرتی ہے۔ بوڑھے، معذور، بے روزگاروں کو ماہانہ امداد دیتی ہے۔اگر کسی کی تنخواہ اس کے اخراجات سے کم ہو تو گھر کا کرایہ ، بلز، خرچہ آدھا حکومت کی ذمہ داری ہوتا ہے۔جب کہ ہمارے ہاں ٹیکسیز، بلز ادا کر کے بھی ہمیں پانی، بجلی ، گیس ہی دستیاب نہیں تعلیم ، صحت یا دیگر ضروریات کہاں سے ملیں گی۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ 50% عوام غم روزگار میں اتنی الجھی ہوئی ہے کہ اسے معلوم ہی نہیں کہ صرف بجلی کے بل میں کتنے ٹیکسیز ادا کر رہی ہے اور کیوں کر رہی ہے۔اور جس 50% کو علم ہے وہ بھی بے بس ہے کیونکہ احتجاج کے باوجود حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔وہ ٹیکس بڑھاو عوام مکاو مہم زورو شور سے جاری رکھے ہوئے ہے۔اللہ تعالٰی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
تبصرہ لکھیے